معمار قوم کی موت اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی


گاندھی جی کا خواب کہ ہربچہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کی تلاش کرسکے اور دوسروں کے ساتھ اس دنیا کی تعمیر نو کرسکے کو پورا کرنے والا معلم اجتماعی موت کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔

بابائے قوم مہاتماگاندھی نے تعلیم کا ایک تصور پیش کیا تھا جو معاشی نظام میں نا انصافی، تشدد اور عدم مساوات کے لئے قوم کے ضمیر کو جگاسکے۔ نئی تعلیم یعنی قومی تعلیمی پالیسی 1986 جو ہنوز ملک میں نافذالعمل ہے۔ اس میں خود کفالت اور خودداری پر زوردیاگیا ہے۔ جو ان معاشرتی رشتوں کی بنیاد ہے جن کی خصوصیت معاشرے کے اندر اور باہر عدم تشدد پر قائم ہے۔ گاندھی جی نے سفارش کی تھی کہ ”بدلتے ہوئے معاشی منظرنامے میں بچے کے گردوپیش کے ماحول، اس کی مادری زبان اور کام کو سماجی تبدیلی کا ذریعہ بنایاجائے۔

انہوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں ہربچہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کی تلاش کرسکے اور دوسروں کے ساتھ اس دنیا کی تعمیر نو کرسکے“ بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی نے ہندوستانی معاشرہ اور تعلیم کے لئے جو خواب دیکھے تھے ہنوز وہ تشنہ ہے۔ آزادی وطن کے سات دہائی کا طویل عرصہ بیت چکا ہے مگر خواب کی تعبیر نہیں ملی ہے۔ قدرتی وسائل اور عوامی خراج کے باوجود آزادی کی صبح دیکھا گیا وہ خواب ادھورا ہے جس کی تکمیل کا مرحلہ اول مرحلہ میں پورا ہونا تھا۔

تعلیم کے ضمن میں گاندھی جی کے اقوال رہنما خطوط ہے جس کی معنویت عصر حاضر میں مزید بڑھ جاتی ہے چونکہ معاشرہ میں منافرت پھیل چکا ہے۔ آدمی آدمی گزیدہ ہے۔ پڑوسی پڑوسی کے سایہ سے خوف زدہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سراسیمگی کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تشویشناک پہلو ہے۔ اس پہ قدغن لگانے اور امن آشتی کی فضا عام کرنے کے لئے گاندھی کے نظریہ تعلیم کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ عدم تشدد کے نظریہ کے صد فیصد اطلاق سے نہ صرف سماج کا بھلا ہوگا بلکہ اس سے متعلمین اور معلمین کے عظمت وقار میں اضافہ ہوگا۔

چونکہ مادی ترقی کے دوڑ میں استاد، تعلیم اور بچے کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ حکومت ملک میں اعلی معیاری تعلیم لئے پالیسی وضع تو کرتی ہے مگر اس میں استاد کی عزت نفس، طلبا کی خود اعتمادی اور ملک کے تعلیمی منظرنامہ پر چونکادینے والی رپورٹ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حق تعلیم ایکٹ 2009 کے نفاذ کے دس سال بعد حالات میں تبدیلی نہیں آئی ہے کتابوں کی عدم دستیابی سے لے کر اساتذہ کے مشاہرہ جات تک سیکڑوں لاینحل مسائل ہیں جس کو منصفانہ طریقے سے حل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔

اس میں بطور خاص اساتذہ کے مسائل ہیں آرٹی ایکٹ کے نفاذ کے لئے کورم پورا کرنے کی غرض سے گزشتہ دس سالوں میں ملک کے مختلف ریاستوں میں بحال کیے گئے اساتذہ اب مستقل کیے جانے کو لے کر سراپا احتجاج ہیں۔ اور حکومتیں خاموشی کے ساتھ اساتذہ کے حالت زار پہ قہقہہ لگارہی ہے۔ اس طویل مدتی لڑائی میں طلبا کا جو ہرج ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ ملک وقوم کی تعمیر و ترقی میں خشت اول رکھنے والے اساتذہ معاشرہ اور حکومت کے لئے بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔

وہ استاد جو کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو تہذیب و تمدن، اخلاقیات اور معاشرتی اقدار سے واقف کراتا ہے۔ استاد معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ملک کے مستقبل کا بھاری بھرکم اور ذمہ داریوں سے بھرا بوجھ انہی اساتذہ کے کاندھے پر ہوتا ہے۔ اساتذہ کے خدمات ناقابل فراموش ہیں پیارا ملک بھارت علم و آگہی کا مظہررہا ہے۔ یورپ کی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی سے بھی کئی صدی قبل بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کی نالندہ یونیورسٹی تعلیم و تعلم کا ایک اہم اور عالمی مرکز ہوا کرتی تھی۔

گویا بہار تعلیم کا عالمی مرکز تھا اور اس وقت نالندہ یونیورسٹی، وکرم شیلا یونیورسٹی دنیا کے ممتاز تعلیمی مرکز میں شامل تھا۔ اساتذہ کی قدر ومنذلت ہوتی تھی مگر اب حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ تعلیمی ترقی کے دور میں بھی ریاست کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ اور تعلیم کا شعبہ دن بدن روبہ زوال ہورہا ہے۔ اس میں اساتذہ کے اسامیوں کو پرکیا جانا، نصابی کتب کی دستیابی اور بنیادی انفراسٹکچر جیسے اہم مدے ہیں جو بہار کے لئے کبھی موضوع بحث نہیں بنا۔

چونکہ جات پات کی بنیاد پر الیکشن میں شہ اور مات کے کھیل کھیلنے والے سیاسی بازیگروں کے لئے ہنوز ”تعلیم“ ترجیحی اہداف میں شامل نہیں ہے۔ بہار کی اسکولی تعلیم کی خستہ حالی کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ قومی سطح پر جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ان میں بہتری آسکے فی الحال صورتحال یہ ہے کہ بہار میں اسکولی نظام تعلیم کے تعلق سے منفی رپورٹ کے سبب طلبہ نفسیاتی عوارض کے شکار ہورہے ہیں۔ اس لئے حکومت کو اس کا حل بھی نکالنے کے لئے با صلاحیت اساتذہ کی تقرری کو یقینی بنانے کی جانب ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے اور محکمہ فروغ انسانی وسائل حکومت ہند کے ایک رپورٹ کے مطابقحق تعلیم ایکٹ 2009 کی فہرست میں پرائمری اور اپرپرائمری اسکولوں میں طالب علموں اور ساتذہ کا تناسب طے کیا گیا ہے اس کے مطابق پرائمری کلاس ایک سے پانچ تک کے کلاس کے لئے 30 طالب علموں پر ایک استاد ہونا چاہیے کلاس 6 سے 8 میں کم از کم 35 طالبعلموں پر ایک استاد ہونا چاہیے بہار میں کلاس پانچ تک 38 پر ایک استاد اور اپر کلاس میں 39 طالبعلموں پر ایک استاد ہیں۔ یعنی طلبہ اور استاد کے تناسب کو برابر کیا جانا نہایت لازم ہے۔

تعلیمی پسپائی کے باوجود بہار سرکار کے پاس تعلیم اور استاد کے لئے کوئی پلان اور منصوبہ نہیں ہے۔ مہلک وبائی مرض کورونا وائرس کے انفیکشن کے روک تھام کے لئے بھارت سرکار کی جانب سے ملک گیر لاک ڈاؤن کا آجچالیسواں دن ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل ہی بہار کے ساڑھے چار لاکھ کانٹریکٹ اساتذہ اپنے دیرینہ مطالبات مساوی کام مساوی تنخواہ، مستقل کیے جانے، سروس رول اور پنشن کے حصول کے لئے غیر معینہ ہڑتال پر ہیں۔ اور آج ہڑتال کا 75 واں دن ہے لاک ڈاؤن اور اس سے پیدا ہوئے مسائل کے درمیان کانٹریکٹ اساتذہ کی حالت قابل رحم ہوگئی ہے۔

جنہیں بیک وقت بھوک اور حکومت کی تاناشاہی کا سامنا ہے۔ جمہوری طریقے سے ہڑتال کررہے اساتذہ کے حقوق سلب کرنے کے لئے سرکار کی جانب سے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ کبھی ہڑتال سے واپسی تو کبھی ہڑتال سے نہیں لوٹنے پر اساتذہ کو برخواستگی کا ڈر دکھایا جا رہا ہے۔ مگر اساتذہ نے جام شہادت نوش کرنے کی ٹھان رکھا ہے۔ فاقہ کشی اور تنگدستی کے شکاران اساتذہ کو گزشتہ فروری سے اب تک کا پیمنٹ بھی نہیں دیا گیا ہے فروری کے 17 تاریخ سے ہڑتال پہ جانے والے اساتذہ پچیس دن اسکولوں میں رہ کر درس و تدریس کا فریضہ انجام دے چکے ہیں مگر بہار سرکار نے شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واجب الادا رقم پہ بھی روک لگادی ہے۔

اور اساتذہ موت کو نرغہ میں جانے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے اپنے مطالبات کی حمایت میں ہڑتال کررہے اساتذہ میں سے 51 لوگوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس میں کئی ایک نقدی کی قلت کی وجہ سے بھی موت کے سامنے ہار گئے۔ جبکہ 15 اساتذہ ایسے تھے جو اپنی معطلی کو برداشت نہیں کرسکے اور دم توڑ دیا اساتذہ کے ساتھ سوتیلے رویہ کی وجہ اساتذہ برادری غم و غصہ میں ہے۔ سرکار ہنوز کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی ہے۔ ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب لوگوں کو زندگی گزارنے کے لئے مختلف طرح سے امداد پیونچائی جارہی ہے مرکشی حکومت کی جانب سے جن دھن کھاتہ ہولڈروں کو نقدی بھیجا رہا ہے راشن کی تقسیم ہورہی ہے مگر بہار کے ساڑھے چارلاکھ اساتذہ اور کنبہ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اگر ان اساتذہ کی سدھ نہیں لی گئی توحالات مزید ابتر ہوں گے۔

جو حکومت کے لئے قابل گرفت اور سماج کے لئے پشیمانی کا سبب ہوگا ایک ترقی یافتہ ملک کے باہمی تعاون کے جذبہ سے لیس سماج کے لئے بھی چیلنج ہے کہ سماج کا مقتدا اور معمار قوم فاقہ کشی پہ مجبور ہے اور گاندھی جی کا خواب کہ ہربچہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کی تلاش کرسکے اور دوسروں کے ساتھ اس دنیا کی تعمیر نو کرسکے کو پورا کرنے والا معلم اجتماعی موت کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments