نو برس کا ”ہٹا کٹا مزدور“


اس بچے کی عمر یہی کوئی نو دس سال ہو گی، یا شاید آٹھ سال، سات سال بھی ہو سکتی ہے، یقین سے نہیں کہہ سکتا، ہاں اتنا یقین ضرور ہے کہ میرے چھوٹے بیٹے سے بھی کم عمر کا تھا۔ ننھے منے ہاتھوں میں وائپر پکڑ کر کسی ریستوران کے باہر صفائی کر رہا تھا۔ قفل بندی (لاک ڈاؤن) کے باعث آج کل ریستوران تو بند ہیں مگر کھانے پینے کی اکا دکا دکانیں ”ٹیک اوئے“ کے نام پر کھلی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی ریستوران تھا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے، میں یونہی شہر کا جائزہ لینے کے لیے کافی دنوں کے بعد گھر سے نکلا تھا، اس بچے کو دیکھ کر میں نے گاڑی اس کے پاس روک دی، کچھ پیسے دینے چاہے جو اس نے لینے سے انکار کر دیا، پھر بھی میں نے روپے اس کی جیب میں ڈا ل دیے۔

اس واقعے کو کئی دن ہو گئے، یقیناً وہ بچہ آج بھی ویسے ہی کام کرتا ہوگا، اسی طرح ریستوران کی صفائی کرتا ہوگا اور پھرچند ٹکے ”کما“ کر گھر جاتا ہوگا۔ آرام کا مطلب کیا ہے وہ نہیں جانتا، اسے بچپن میں ہی زندگی کی لغت مل گئی ہے اور اس میں کام کے لفظ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں۔ بد قسمتی سے سرمایہ دارانہ نظام میں بچوں سے کام توکسی تنومند جوان کی طرح لیا جاتا ہے مگراجرت ان کی ہتھیلیوں کے سائز کے مطابق دی جاتی ہے۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اس قسم کے بچے اور ان سے جڑی ہوئی ظلم اور نا انصافی کی کہانیاں معمول کی بات ہے، جہاں لیبر ڈے سے چند دن پہلے ملک کا سب سے امیر آدمی اپنے کارخانے سے نو سو محنت کشوں کو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیتا ہے اور جہاں حکومت محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم سے مزدوروں کے مسائل حل کرنے کی اپیل کرکے مطمئن ہو جاتی ہے کہ اس نے یوم مزدور منا لیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی سفاکی تھی جس نے انیسویں صدی میں ایک ایسے شخص کو جنم دیا جس نے اپنے انقلابی نظریات اور تحریرو ں سے مزدوروں کو نہ صرف زبان دی بلکہ انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔

اس مرد مجاہد کا نام کارل مارکس تھا۔ مارکس خودتو ایک متمول بورژوائی خاندان میں پیدا ہوا تھا مگر طبیعت شروع سے ہی انقلابی تھی، اس زمانے کے جرمنی میں اس قسم کے رجحانات کو خطرناک اور باغیانہ سمجھا جاتا تھا، اسی لیے مارکس کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور ایک مرحلہ تو ایسا آیا کہ جرمنی کی شہریت سے بھی دستبردار ہو گیا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اپنے نظریات پر کاربندرہا۔ لندن کے مضافات میں غریبوں کی طرح گزر بسر کی، دنیا کو کمیونسٹ پارٹی کا منشور بنا کر دیا، یہ وہ دستاویز کارل مارکس نے اپنے دوست فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر لکھی تاہم اینگلز نے اس کے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی روح اور بنیادی تصورا ت مارکس کے ہیں۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو ویسے تو ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے مگر اس کی ایک ایک سطر سے انقلاب کے سوتے پھوٹتے ہیں، یہ وہ تاریخی دستاویز ہے جس پر آنے والے وقت میں کمیونسٹ انقلابات کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں ایک جگہ مارکس لکھتا ہے ”مزدور صرف اس وقت تک زندہ رہ سکتا ہے جب تک وہ کام کر سکتا ہے اور وہ صرف اس وقت تک کام کر سکتا ہے جب تک اس کی مزدوری سرمائے میں اضافے کا باعث بن سکے۔ یہ مزدور، انہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کہ وہ ایک جنس کی طرح ہیں، جیسے تجارت میں استعمال ہونے والی کوئی بھی دوسری شے، اور یوں وہ سرمایہ دارانہ رقابت اور بازار کے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں برپا ہونے والے حوادث کا شکار ہو سکتے ہیں۔“

لندن میں اپنے قیام کے دوران مارکس نے داس کیپیٹل لکھی، اس کتاب کی تیاری پر مارکس نے بہت محنت کی، روزانہ بارہ بارہ گھنٹے تحقیق کرتا، دستاویز کھنگالتا، حقائق اکٹھے کرتا، یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں نو سال کے بچے روزانہ پندرہ گھنٹے کام کرتے تھے، سرمایہ دارجوان مردوں کی نسبت ان بچوں سے کام لینے کو ترجیح دیتے تھے، انہیں قابو میں رکھنا آسان ہوتاتھا، اجرت بھی کم دینی پڑتی تھی، سو بچوں سے بہترین انتخاب بھلا کیا ہو سکتا ہے!

داس کیپیٹل لکھنے میں مارکس نے سولہ برس صرف کیے مگر حیرت انگیز طور پر یہ کتاب اس وقت کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی، مارکس ان لوگو ں میں سے تھا جس کی عظمت دنیا پر بعد میں آشکار ہوئی، جب وہ فوت ہوا تو اس کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ تھے مگر اس کی موت کے فقط ستّر برس سے بھی کم عرصے میں دنیا کی ایک تہائی آبادی نے اس کے نظریات کے تابع ہو کرانقلابات برپا کردیے، ایسی کوئی دوسری مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

میرے بس میں ہو تو ہر سال یکم مئی کو کارل مارکس کا عرس مناؤں، لندن میں اس کی قبر پر جانے کاموقع تو نہیں ملا البتہ برلن میں مارکس اور اینگلز کی یادگار کی زیار ت کا شرف ضرور حاصل ہوا ہے اور ناروے اور دیگر ممالک میں وہ نظام دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے جو اصل میں کارل مارکس کی دین ہے۔ مارکس کے نظریات نے کمیونسٹ انقلاب تو برپا کیا مگر کمیونسٹ ممالک اپنے مزدوروں کو وہ زندگی دینے میں ناکام رہے جو یورپ کی فلاحی ریاستو ں نے اپنے سرمایہ دارانہ نظام میں گنجائش پیدا کرکے محنت کشوں کو مہیا کی۔

میرا ایمان ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اگر صرف لیبر قوانین کا نفاذ یقینی بنا دے تو اس ملک سے غربت ختم ہو جائے گی۔ بظاہر یہ ایک نا ممکن سا کام ہے مگر دنیا کے بہت سے ممالک میں کام ہو چکا ہے۔ مثلاً ملک کا ہر محنت کش سرکار کے پاس رجسٹرڈ ہو گا، ہر کارخانے دار، دکان یا فیکٹری کا مالک، کمپنی کا ڈائریکٹر یا کوئی بھی سرمایہ دار کسی بھی محنت کش کو ملازمت دیتے وقت اسے لیبر کے محکمے کے پاس ظاہر کرے گا، پہلے تین ماہ ملازمت کچی ہو گی، اس کے بعد محنت کش کی ملازمت پکی ہونے کی صورت میں تحریری معاہدہ ہوگا جس میں آجر کم از کم اجرت دینے کا پابند ہوگا۔

محنت کش کو بغیر وجہ اور نوٹس کے ملازمت سے برخواست نہیں کیا جا سکے گا، ہر سال تنخواہ کا بارہ سے پندرہ فیصد محنت کش کو دیا جائے گا اور ساتھ میں ایک ماہ کی چھٹیاں۔ ملازمین کا بیمہ کروایا جائے گا تاکہ بیماری یا معذوری کی صورت میں انہیں تحفظ حاصل ہو، بیمے کا پریمئم آجر اور حکومت مل کر ادا کریں گے، اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ کھاتہ کھلوایا جا سکتا ہے۔

یہ تمام باتیں انہونی ہیں اور نہ ہی نئی، کچھ قوانین اور محکمے پہلے سے موجود ہیں، صرف عمل درآمد نہیں ہو پاتا، اسی لیے محنت کشوں کا استحصال ہوتا ہے، انہیں معمولی تنخواہ کے عوض کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں نوکری کا تحفظ حاصل نہیں۔ مگر تصویر کو دوسرا رخ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہنر مند افراد کی کمی ہے، یورپ میں جو کام ایک شخص کرتا ہے اپنے ہاں وہ چار لوگ مل کر بھی نہیں کر پاتے کیونکہ ہمارے ہاں کام کرنے کی اخلاقیات پنپ نہیں پائیں۔

لیکن یہ کالم چونکہ محنت کشوں کے لیے ہے اس لیے کام کرنے کی اخلاقیات پر لیکچر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ کارل مارکس کی یہ بات آج بھی درست ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام نے بہر حال مزدور کو نچوڑ کر ہی منافع نکالنا ہے۔ انسان تو نو برس کے بچے سے کام لے کر منافع نکال لیتا ہے، ہٹا کٹا مزدور تو پھر سونے کی کان ہے!

ہم سب کے لیے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments