سامری کا بچھڑا اور مقدس گائے


سات سال قبل صحافی کالونی میں میرا گھر تعمیر ہو چکا تھا اور پینٹ جاری تھا۔ اتفاق سے رمضان کا مبارک مہینہ ہی چل رہا تھا۔ میں گھر میں گھسا تو میرا پینٹر یونس ایک پرانے سے فون کو کان میں یوں گھسائے بیٹھا تھا جیسے کان کی صفائی کرنا چاہتا ہو۔ پہلے میرے آنے پر اکثر وہ مجھے پروٹوکول دیتا مگر آج ایسا نہیں ہوا۔ کچھ توقف کے بعد یونس بولا۔ بھائی جان مولانا طارق جمیل کا نام سنا ہے آپ نے، میں ہنس دیا اور سارا قصہ سمجھ گیا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو یونس پھر سے گویا ہوا۔ اللہ کا بڑا نیک بندہ ہے ہزاروں مسلمانوں کو سیدھی راہ پر ڈال چکا ہے اور سینکڑوں غیر مسلم اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر گئے۔ وہ تقریر میں رو رو کر مسلمانوں کی بخشش کی دعا بھی کرتے ہیں۔ ایسے ہی نیک بندوں کی وجہ سے دنیا بچی ہوئی ہے۔ میں چونکہ خود کو ایک واجبی سا مذہبی گردانتا ہوں، اس لئے بات آئی گئی ہو گئی۔

چونکہ رمضان تہے سو اسی رات میں نے ٹی وی پر مولانا طارق جمیل کا چہرہ دیکھا تو یونس کی بات یاد آگئی۔ میں نے رک کر مولانا صاحب کی تقریر سنی۔ تقریر کا اکثر حصہ ضعیف روایات پر مبنی تھا جبکہ کچھ ایسے واقعات جو اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ ایک ایک کر کے میں نے مولانا کی درجنوں گھنٹوں کی تقاریر سنیں۔ معزرت کے ساتھ مجھے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ سب تقریریں ایک جیسی۔ نہ فلسفہ نہ منطق۔ نہ دلیل نہ ثبوت۔ میرے نزدیک عالم کے درجے پر گفتگو کا یہ معیار عامیانہ سے بھی کم درجے کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر یہ سوال میرے ذہن میں باقی تھا کہ اگر مولانا عالم بھی نہیں تو اتنی فالوونگ کیسے؟ طارق جمیل نے بطور عالم تو کم از کم مجھے مایوس کیا مگر میں بڑا حیران تھا کہ طارق جمیل کے فالورز کی تعداد روزبروز بڑھتی گئی۔ دیو بند تبلیغی بھی ان کے گن گاتے سنی، بریلوی، حنفی یا مالکی سب ان کو اپنا ماننے لگے۔ کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل نے چشتیہ دستار بھی سجا لی۔ مولانا طارق جمیل نے ہر ممبر سے قصیدہ آل محمد شروع کیا تو ماڈریٹ اہل تشیع کی بھی ایک بڑی تعداد ان کے فالورز میں شامل ہو گئی۔ مولانا طارق جمیل نے علم و منطق کے معاملے میں مجھے متاثر نہیں کیا مگر اتحاد بین المسلمین کے لئے ان کی خدمات کو نہ سراہنا میری کم ظرفی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

مولانا طارق جمیل کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں جنگ اخبار کے لئے کرائم رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔ پولیس افسر انہیں اپنے اجتماعات میں مدعو کرتے۔ سرکاری محکموں میں مولانا کی مقبولیت کا گراف سب سے پہلے محکمہ پولیس میں بلند ہوا۔ پھر ڈی ایم جی نے ان کے لئے آنکھیں بچھائیں اور پھر پاک فوج کے لئے بھی ان کے لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ مگر مجھے یہ سوال بہت تنگ کرتا رہا کہ کسی بھی بڑے اور نامور عالم کی نسبت مولانا طارق جمیل کی اس قدر مقبولیت کا راز کیا ہے؟ پھر مجھے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑی مولانا کی اپنی تقاریر ہی میرے کام آنے لگیں۔ مجھے یوں لگنے لگا دن بھر غریب اور نادار پاکستانیوں کی رگوں سے خون نچوڑنے والی اسٹیبلشمنٹ رات کو دعا میں مولانا کے پیچہے کھڑے ہو کر اپنی کرپشن کو چھپانے اور بخشش کا راستہ ڈھونڈتی ہے۔ نام لینا مناسب نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ مولانا کی جن بھی افسروں سے دوستی ہے ان کی شہرت اچھی نہیں۔

سول و سیکیورٹی افسروں میں مولانا طارق جمیل کی پسندیدگی کا گراف بخشش کی یقین دہانی کی بنیاد پر بلند ہونا مان بھی لیا جائے تو ان کی عوام میں مقبولیت شاید اس سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں علمائے دیوبند کے کچھ پیشواوں نے مولانا طارق جمیل کو نشانے پر لے لیا ہے۔ کئی مفتی اور عالم مولانا کے خلاف فتوے بھی جاری کر چکے ہیں۔ علما کی ایک بڑی تعداد نے مولانا طارق جمیل کی علمی حیثیت اور اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے ان کی باتوں کو غیر مصدقہ اور گستاخانہ بھی قرار دیا ہے۔ دوسری طرف جماعت اہل حدیث کی طرف سے بھی مولانا کو کڑی تنقید کا نشانا بنایا جا رہا ہے۔ مولانا کی مخالفت میں کچھ لوگ تو اتنے شدت پسند واقع ہوئے ہیں کہ تقاریر کے دوران مولانا کی اشک باری اور ناک پکڑ کر سکیڑنے کی عادت کو کوکین پینے والوں جیسی عادت سے تشبہہ دیتے رہے۔

یہ بات طے ہے کہ جب کبھی کسی کی بھی مقبولیت کا گراف بلند ہو تو مخالفین اسے نشانے پر لے لیتے ہیں۔ ان دنوں طارق جمیل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہے۔ ابھی وہ بھنور میں پھنسے ہی تہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کے حق میں گواہی دے کر اپنے لئے ایک اور گڑھا کھود لیا۔ دربار یزید سمیت تاریخ اسلام میں ایسے علما اور مفتیان کی کبھی کمی نہیں رہی جن کے فتوے حاکم وقت کی مرضی اور منشا پر منحصر ہوتے تھے۔ جبکہ کئی عالم دین تو بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کا فن بھی خوب جانتے تھے۔ کسی بھی عالم دین کا فرض ہوتا ہے حکمران چاہے جابر ہی کیوں نا ہوکہ وہ حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرے نا کہ خوشامد۔ بس ایسی ہی ایک خوشامد مولانا کے لئے کافی بھاری ثابت ہو رہی ہے۔ یا یوں کہیں کہ حکمران کو خوش کرنے کے چکر میں مولانا نے میڈیا کو بھی رگڑ دیا۔ میڈیا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے کے بعد مولانا نے معافی بھی مانگ لی جو شاید ان کے فالوور کو اچھا نہیں لگا۔ مگر یہ مولانا کا بلا شبہ ایک احسن اقدام تھا۔

میری مولانا اور ان کے فالوورز دونوں سے درخواست ہے کہ صحافی وہی کچھ رپورٹ کرتے ہیں جو آپ کے گرد ہو رہا ہوتا ہے۔ نہ تو کرائم رپورٹر اپنے رشتے دار مار کر خبر بناتا ہے اور نہ ہی صحافی اپنی مرضی کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ مولانا کے بقول میڈیا جھوٹا ہے تو برسوں سے ہر ٹی وی چینل پر مولانا کی اپنی مذہبی تقاریر اور بیانات کو جھوٹ کے کس پلندے میں ڈالنا ہے یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں یا پھر ان کے فالورز۔

دوسری طرف میرا مولانا سے ایک اور بڑا اختلاف ہے اور وہ یہ کہ مولانا کی اکثر تقایر میں وہ سرور انبیا، وجہ تخلیق کائنات، محبوب کبریا حضرت محمد ؑ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی سادگی بیان کرنے کی بجائے رسول خدا کی مفلسی کو عیاں کرتے ہیں حالانکہ نبی آخر الزماں کا تعلق عرب کے شاہی گھرانے سے تھا۔ یاد رہے کہ رسول اکرم کے والد گرامی کی جان بخشش کے لئے مرسل حق کے دادا نے دوہری کوہان والے سو سرخ اونٹ قربان کئے تھے۔ جو آج بھی معمولی بات نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قدرت رکھنے کے باوجود فخر موجودات امام النبیا حضرت محمدؐ نے انتہائی سادہ زندگی گزاری مگر شاید مولانا طارق جمیل نے نبی کی اس سنت کو صرف غربت مان لیا ہے۔ کیونکہ وہ خودنہ صرف لینڈ کروزر اور بڑی بڑی گاڑیوں پر سواری کرتے ہیں بلکہ انواع و اقسام کے طعام بھی ان کے نصیب میں ہیں۔ مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا کہ مولانا صاحب کو کسی جگہ مدعو کرنا ہو تو ائیر ٹکٹ کے ساتھ فائیو سٹار ہوٹل کا قیام اور لینڈ کروزر یا مرسیڈیز جیسی گاڑی ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے میری اطلاع غلط ہو مگر ان کی ویڈیوز میں تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔ مجھے اس روز کا انتظار ہے جب مولانا طارق جمیل وزیر اعظم یا افسران کی بجائے غریب۔ مفلس اور نادار لوگوں کے بلانے پر بھی ان کے گھر دوڑے چلے آئیں۔ مولانا کے چاہنے والوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ وہ ضرور ان کی حمایت جاری رکھیں مگر خدارا انہیں مقدس گائے نا بنائیں۔ پہلے ہی ھمارے ہاں ان کی کمی نہیں ہے۔ ویسے بھی میرا خیال ہے کہ گائے مودی اور اس کے فالورز کے لئے مقدس ہوگی۔ خدا یکتا و بزرگ و برتر کے ماننے والوں کے لئے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments