کورونا وائرس: چین کیوں کامیاب اور امریکہ کیسے ناکام ہوا؟


امریکہ میں کورونا وائرس کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی عوام کی صحت و بہبود سے زیادہ نومبر میں ہونے والا انتخاب اہم دکھائی دے رہا ہے جسے وہ ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ تاہم ملک میں اگر کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی موجودہ صورت حال جاری رہی تو صدر ٹرمپ کے لئے صورت حال مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ وہ امریکہ پر اترنے والی اس مصیبت کی ذمہ داری کسی دوسرے ادارے یا ملک پر عائد کر کے دوبارہ ہیرو کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح نومبر میں دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں۔

عالمی ادارہ صحت اور دنیا بھر کے ماہرین کے علاوہ امریکی ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے بھی گزشتہ روز متنبہ کیا ہے کہ کورونا وبا کا خاتمہ جلد ممکن نہیں ہے۔ اسے مکمل طور سے ختم ہونے کے لئے ایک سے دو سال کا عرصہ درکار ہوگا اور کسی مؤثر اور قابل بھروسہ ویکسین کی دریافت سے پہلے کورونا سے مکمل نجات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس رائے کی روشنی میں تمام ماہرین سماجی دوری اور زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کو ہی اس وبا پر قابو پانے کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ کورونا وائرس ایک کمان کی صورت میں پھیلتا ہے۔ یعنی پہلے چند لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں پھر ان کے ذریعے زیادہ لوگ متاثر ہونے لگتے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال، علاج اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ وائرس کے مریضوں کی تعداد ایک خاص حد کے بعد کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی بتائی جارہی ہے کہ وبا کے عروج میں سماجی دوری، قرنطینہ کی پابندی، ہاتھ صاف رکھنے کا اہتمام اور اسی قسم کی دیگر احتیاطی تدابیر سے وبا کا رخ مڑ جاتا ہے تاہم اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے دنیا بھر کے ماہرین کی طرح امریکی ڈاکٹر اور سائنسدان بھی متنبہ کررہے ہیں کہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے احتیاط اور ذمہ داری سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بے احتیاطی کی وجہ سے وائرس زیادہ قوت سے واپس آ سکتا ہے جس میں امریکہ کے لاکھوں لوگ نشانہ بن سکتے ہیں۔

یہ انتباہ دینے والوں میں کورونا وبا سے نمٹنے والی صدارتی ٹیم کے رکن اور وبائی امراض کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ریاستیں عجلت میں لاک ڈاؤن ختم کرکے ریسٹورنٹ اور تفریحی مقامات کھول رہی ہیں، انہیں احتیاطی اقدامات کی یقین دہانی کے بغیر ایسے اقدام نہیں کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر فاؤچی کے محتاط رویہ کی وجہ سے صدر ٹرمپ ان سے اکثر نالاں رہتے ہیں کیوں کہ ان کی خواہش ہے کہ ہلاکتوں کے باوجود اب معیشت کا پہیہ چلنا چاہئے تاکہ ملک میں بیروزگاری کا طوفان کم ہو سکے۔ البتہ دیگر ماہرین کی طرح ڈاکٹر فاؤچی بھی صدر ٹرمپ کے مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔ اسی لئے تھوڑی دیر پہلے وہائٹ ہاؤس سے اعلان کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر فاؤچی کو کانگرس کمیٹی کے سامنے بیان دینے اور سوالوں کے جواب دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کو اندیشہ ہے کہ اس قسم کے بیان سے ان کی سیاسی شہرت اور حکمت عملی کو نقصان پہنچے گا۔

صدر ٹرمپ نے گزشتہ چند روز کے دوران اپنے انتہا پسند حامیوں کے ذریعے ان ریاستوں میں مظاہروں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے گورنرز کام کررہے ہیں۔ ری پبلیکن گورنرز سیاسی وابستگی اور صدر ٹرمپ کے پاپولر بیس کی وجہ سے بہر حال صدر کی خواہش کے مطابق معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے اقدامات کررہے ہیں جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے گورنر زیادہ محتاط ہیں اور ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ مشوروں سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات اور باتوں کی وجہ سے امریکہ میں کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے سائنسی بنیاد پر اقدام کی بجائے اس معاملہ کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی گفتگو کا محور ان کی سیاست ہوتی ہے اور سیاسی برتری کے لئے وہ ماہرین کی رائے کو مسترد کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔

اس رویہ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لگ بھگ نوّے برس قبل رونما ہونے والی معاشی کساد بازاری جسے ’گریٹ ڈپریشن‘ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، کے بعد ملک میں پہلی بار بیروزگاری کی شرح 19 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس وقت امریکہ میں 3 کروڑ لوگ بیروزگاری الاؤنس کے لئے درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔ 1930 کے بحران میں امریکہ میں بیروزگاری 23 فیصد ہوگئی تھی جبکہ قومی پیداوار میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ تقریباً سو برس بعد امریکہ کو ایک وائرس کی وجہ سے ابتر معاشی صورت حال کا سامنا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس مشکل سے نکلنے کا کیا راستہ ہے۔ کوئی ماہر اس وقت تک کسی معاشی بحالی کے پروگرام کی بات کرنے کا حوصلہ نہیں کررہا جب تک اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے کوئی ویکسین دریافت نہ کرلی جائے۔

امریکی صدر جنہیں نومبر میں نئے انتخابات کا سامنا ہے ، کے پاس انتظار کا وقت نہیں ہے۔ بطور صدر تمام تر سیاسی تنازعات اور بدحواسیوں کے باوجود معاشی استحکام اور بیروزگاری کا خاتمہ ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ وہ ا س کامیابی کی بنیاد پر ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن کو آسانی سے شکست دے لیں گے۔ لیکن کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے ٹرمپ کے سارے اندازے غلط ثابت ہورہے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان رائے عامہ کے دو مختلف جائزوں میں ٹرمپ اپنے حریف کے مقابلے میں بالترتیب 4اور 6 فیصد پیچھے ہیں۔ یہ رجحان جاری رہنے کی صورت میں ٹرمپ کے لئے دوبارہ صدر بننا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی پریشانی میں وہ اپنی ناکامیوں کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

پہلے عالمی ادارہ صحت کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کی گرانٹ بند کی گئی تاکہ امریکی عوام کو یقین دلایا جاسکے کہ ملک میں کورونا کی صورت میں آنے والی آفت کا اصل ذمہ دار کوئی اور ہے۔ اس کے بعد انہوں نے چین پر الزام لگاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وائرس فطری طور پر پیدا نہیں ہؤا بلکہ ووہان کی لیبارٹری میں تیا رہؤا ہے۔ اور انہوں نے خود اس کے شواہد دیکھے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ادارے ایسا کو ئی دعویٰ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ البتہ ٹرمپ اپنی بدحواسی میں چین کو دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین سے معاوضہ طلب کیاجائے گا۔ اس کی مصنوعات پر محاصل میں اضافہ یا چین کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی روک کر امریکی نقصان پورا کیاجائے گا۔ امریکی صدر نے اگر ایسا کوئی اقدام کرنے کی غلطی کی تو دنیا کو ایک بڑے تصادم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کورونا وائرس کا آغاز اگرچہ چینی شہر ووہان سے ہؤا تھا اور شروع میں چینی حکام اس کی تباہ کاری کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر بھی رہے تھے لیکن وائرس کی نوعیت کا تعین کرنے کے بعد اس کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے گئے ۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر ووہان کو مکمل طور سے بند کردیا گیا اور تمام متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح چین نے خاموشی سے اس وائرس کا خاتمہ کیا اور اب چین میں اس وائرس کے نئے مریض سامنے نہیں آرہے۔ اس کے برعکس اٹلی، برطانیہ اور امریکی قیادت نے شروع میں وائرس کے خطرے کو سنجیدگی سے لینے اور احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خاص طور سے ڈونلڈ ٹرمپ تو مارچ کے شروع تک یہی دعویٰ کرتے رہے کہ امریکہ کو اس وائرس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جب وائرس پھیلنا شروع ہؤا تو امریکہ کے پاس نہ ٹیسٹ کرنے کا انتظام تھا اور نہ ہی اس کے ہسپتال اس ناگہانی صورت حال کے لئے تیا رتھے۔ اس وقت دنیا بھر کے ایک تہائی کورونا متاثرین امریکہ میں موجود ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 66 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

اس سنگین ناکامی کو صدر ٹرمپ چین کی ناکامی اور اپنی کامیابی بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے روزانہ کی بنیاد پر منعقد کی جانے والی پریس بریفنگ میں وہ یا تو مبالغہ آمیز دعوے کرتے ہیں یا علاج کے لئے غیر مستند اور مضحکہ خیز مشورے دیتے ہیں۔ ملیریا کی دوا کو رونا کے علاج کے لئے استعمال کرنے پر اصرار یا صفائی کے لئے استعمال ہونے والی جراثیم کش دواؤں کو انسانی جسم میں داخل کرنے کا مشورہ صدر ٹرمپ کی ایسی تجاویز میں شامل ہیں جن سے ان کی بدحواسی اور پریشانی ظاہر ہوتی ہے۔ حالانکہ انہیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ چین کے علاہ جنوبی کوریا، ویت نام، سنگا پور اور جاپان وغیرہ کورونا کی روک تھام میں امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ کامیاب رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی قیادت نے اس خطرے کو سنجیدگی سے لینے اور بر وقت اس سے نمٹنے کے اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ یہ وبا امریکہ میں نہیں پھیل سکتی۔

قیادت کے فقدان کے علاوہ امریکہ و یورپ اور چین و دیگر ایشیائی ملکوں کے عوامی مزاج نے بھی اس وبا سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں عوام ڈسپلن کو مانتے ہیں اور سرکاری احکامات پر پوری تندہی سے عمل کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس امریکہ میں خود صدر ٹرمپ نے سیاسی فائدے کے لئے ریاستوں کے گورنروں اور میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی شروع کی اور عوام میں بے یقینی کو فروغ دیا۔ اس وبا کے خاتمہ کے بعد یہ سوال بھی ضرور سامنے آئے گا کہ کیا مغرب کا جمہوری نظام قومی ڈسپلن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ چین کی غیر جمہوری حکومت اس وبا سے نمٹنے کے معاملے میں سرخرو رہی ہے۔ امریکہ کی طرح اٹلی اور برطانیہ بھی اس وبا کا بر وقت مقابلہ کرنے میں ناکام رہے لیکن جرمنی اور وسطی و شمالی یورپ کے بیشتر ممالک کے علاوہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے کسی حد تک اس وبا سے اپنے لوگوں کو محفوظ رکھا ہے۔

صدر ٹرمپ کی سیاسی بے چینی اور مقبولیت پسندی نے فی الوقت امریکہ کو سنگین طبی و معاشی بحران سے دوچار کیا ہے جو نومبر میں ان کی عبرت ناک شکست کا سبب بننے کے علاوہ، امریکہ میں اس وبا کے ذریعے نئی تباہی لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments