کیا اکیسویں صدی میں کارل مارکس کو پڑھنا ضروری ہے؟



5 مئی 1818 کارل مارکس کی پیدائش کا دن ہے۔ مارکس نے 64 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اکیسویں صدی میں ڈیڑھ دو سو سال کے بعد کیا آج مارکس کو پڑھنا ضروری ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اور ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو جائے گا کہ کیوں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے کیونکہ مارکس سماجی انصاف کا فلسفی تھا اور داعی تھا مگر اس سے پہلے وہ اس سماجی بیماری کی تشخیص کرتا ہے جو انسانی معاشروں کا ناسور بن چکی ہے۔ مارکس اسے ”بیگانگی“ سے تعبیر کرتا ہے۔ انسان کی یہ معاشرتی بیماری اس کی تکمیل ذات کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ یہ بیگانگی انفرادی بھی ہے اور اجتماعی اور معاشرتی بھی۔

مارکس سے پہلے بھی نوع انسانی کے سارے بزرگ نبی اور رسول سماجی انصاف کا درس دیتے رہے ہیں۔ ان سب کی تعلیمات میں زندگی کو دنیا میں بہتر بنانے کا نسخہ ہے مگر ان کے نزدیک اصلی انصاف اور حقیقی زندگی بعد از موت ہے۔ ہمیں اس سے کوئی کلام نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی خوبصورت اخلاقی تعلیمات ہیں جن کا احترام سب پر لازم ہے۔ معاشرے کی بہتری کی خاطر ہمارے سارے بزرگ نبیوں کی تعلیم میں بات یہیں ٹھہرتی ہے کہ انفرادی اخلاق کی تربیت سے پورا معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے۔ یہ تعلیم اور تصور بہت خوبصورت ہے۔

مارکس دوسرے فلسفیوں اور علماء سے کیسے مختلف ہے :

مارکس وہ پہلا فلسفی تھا جس نے سماجی انصاف کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا اور نتیجہ نکالا کہ ذاتی اخلاقیات اور انصاف بہت ضروری ہیں مگر صرف انفرادی اخلاقی تعلیم کے ساتھ پورا سماج بہتر نہیں ہو سکتا۔ تاریخی تجربے کی بنیاد پر یہ بات ایک حقیقت ہے۔ سماج اور معاشرے کی ساخت ایسی ہے کہ اس کے اندر اس وقت تک انصاف نہیں ہو سکتا جب تک معاشرے کی معاشی اور سیاسی ساخت تبدیل نہ ہو کیونکہ اخلاقی قدریں اور معاشی راہیں تاریخی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔

مارکس کی سماجی سائنس کی اس دریافت کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری۔ نیوٹن سے پہلے بھی ہمیشہ سے سیب زمین کی طرف گرتے تھے لیکن نیوٹن نے اس مشاہدے کو تھیوری کے دھاگے میں پرو دیا۔ کسی فلسفی نے کہیں لکھاہے کہ سگمنڈ فرائیڈ سے پہلے بھی انسان خواب دیکھتے تھے مگر ان خوابوں کے نیچے چھپے ہوئے لاشعور کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ مارکس نے سماجی انصاف کی راہ میں روکاوٹ کی مادی تھیوری دریافت کی جس کی بنا پر ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کی ساخت سمجھ میں آنے لگی۔ اس وقت سماجی اور معاشی انصاف کی راہ میں کیپٹل ازم حائل ہے۔ اس سماجی انصاف کی راہ میں جو تمام انسانوں کا حق بھی ہے اور سب کا مشترکہ خواب بھی۔

مارکس کے مطابق اس زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام سماجی انصاف کی راہ میں روکاوٹ ہے جو انسان کی آزادی کی سرشت کے سامنے مستقبل میں سر نگوں ہو کر رہے گا جو تاریخ میں کوئی بڑی بات نہیں۔ نظام بنتے اور ٹوٹتے آئے ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے مارکس نے کیپیٹل ازم کے اندر، بہت دور کئی پرتوں میں پنہاں سرمایہ دارانہ نظام کی ماہیت کو دریافت کر لیا جس کی وجہ سے مادی دنیا میں سماجی بے انصافی پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مارکس کی تھیوری کو ہم باآسانی ”سائیکو انیلے سز آف کیپٹل ازم“ بھی کہہ سکتے ہیں۔

مارکس کی تعلیمات سے ہمیں کیپٹل ازم کو اندر اور باہر سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ مارکس نے بڑی بڑی کتابیں لکھ کر کمیونزم کی تعلیم دی ہے۔ یہ درست ہے، مگر آپ کو حیرانی ہو گی کہ مارکس کی کتابوں کے ہزار ہا صفحات میں کمیونزم پر لکھا ہوا بہت ہی کم ہے۔ مارکس کا اصلی کام کیپٹل ازم کا مادی تجزیہ ہے۔ اس تجزیے کے لئے مارکس نے فلسفے کا ڈائی لیکٹکل طریقہ اختیار کیا۔

مارکس کا نظریہ ڈائی لیکٹیکل مٹیریل ازم یا مادی جدلیات کہلاتا ہے۔ جو بات لوگوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے کہ ”ڈائی لیکٹس“ اصل میں ہے کیا؟ اس نظریے کے خد وخال واضح کرنے کے لئے بنیادی طور پر اسے مکالمہ یا مباحثہ کہہ لیں۔ یہ علم کو پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقہ علمی دلیل کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو کا عمل ہے۔ یہ کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ یہ طریقہ سقراط کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کے لئے بات کو دلیل کے ساتھ آگے بڑھانا۔

جیسے اوپر کہا کہ دلائل اور مباحثے سے نیا علم پیدا ہوتا ہے۔ جدلیات کا طریقہ ہمیں سماج میں بکھرے بے شمار اور بے ترتیب حقائق کا باہمی تعلق سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ طریقہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کون سے مادی حقائق ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق ہے جو ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ کون سی چیزیں ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے متعلقہ ہیں لیکن ان کا آپس میں ایسا رابطہ نہیں ہوتا جیسا علت اور حاصل کا ہوتا ہے۔ یہ طریقہ ہیگل نے بھی استعمال کیا تھا۔ ہیگل نے جدلیات کے ساتھ مادی دنیا سے باہر کی باتیں کی تھیں کیونکہ ہیگل کے نزدیک تاریخ خیال سے شروع ہو کر مادی دنیا سے ہوتی ہوئی ایک مابعدالطبیعاتی حقیقت کی طرف محو سفر ہے۔ ہیگل کا تعلق آئیڈلوجیکل مکتبہ فکر سے تھا۔

مارکس نے مادی اور سماجی حقائق کا تجزیہ کرنے کے لئے اسی جدلیاتی طریقے کو استعمال کیا۔ اس ذریعے سے جب مارکس نے زندگی کو پرکھا تو کہا کہ تاریخ مادی زندگی کا سفر ہے۔ زندگی جامد اکائی نہیں۔ زندگی تاریخ کی بساط پر تبدیل ہوتی ہوئی ایک حقیقت ہے۔ اس کے اندر تبدیلی کے لئے قوت چاہیے اور وہ قوت انسان کی محنت اور اس کا خون پسینہ ہے۔ اس طرح انسان اپنی محنت اور خون پسینے کی وجہ سے تاریخ کا لاشعوری انجن ہے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس کے عمل اور محنت کے ساتھ وابستہ ہے۔ آپ کوئی مادی چیز لا کر کہیں بھی رکھ دیں، وہ ویسے کی ویسے ہی پڑی رہے گی جب تک اس کو انسان کے ہاتھوں کی محنت کے ساتھ ضرورت کی کسی اور قابل استعمال چیز میں نہ ڈھال دیا جائے۔

یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ اس کے ذریعے مارکس نے تھیوری اور عملی جدوجہد کے دو مختلف فلسفوں کو اکٹھا کیا اور انہیں نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ مارکس نے زندگی کی مادی تاریخ کو جد لیاتی تناظر میں تولا تو ظاہر ہوا کہ معاشرے کے اندر انسان کی آزادی کی راہ میں مسائل جیسے نظر آتے ہیں، ویسے نہیں۔ ان کی جڑیں بہت گہری اور مسائل کی اصلی نوعیت بھی بہت مختلف ہے۔ اس تحقیق نے مارکس کو اپنے افکار کو ایک نئی شکل دینے میں مدد کی۔

مارکس کے افکار میں یہ شامل ہے کہ معاشرے اور سماج کی شکل میں تبدیلی کے اصول اور قوانین کیا ہیں اور انسانی معاشرے کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے؟ یاد رہے کہ مستقبل کے بارے میں مارکس نے بہت ہی کم لکھا ہے۔ مارکس مستقبل کا کتنا نقیب ہے، اس کا جواب صرف مستقبل کے پاس ہے مگر اس سے مفر نہیں کہ مارکس ماضی اور حال کے سماج کا عظیم ترین تجزیہ نگار ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیں تاریخ میں حرکت نظر آتی ہے یہ دراصل زندگی ہے۔ اس میں مادی زندگی اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس میں جہد مسلسل ہے جس کی وجہ سے زندگی یا مادہ اپنی شکل بدل کر ایک نئی اکائی میں ڈھل جاتا ہے اور تبدیلی کا عمل ہر وقت جاری و ساری ہے۔ یہ بات صرف بے جان مادے کی نہیں، یہ بات درحقیقت سماج کی بات ہے۔ مارکس کی نظر میں اس تبدیلی کی بنیاد ”تضاد یعنی کنٹراڈکشن“ ہے۔ یہاں ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدلیاتی فلسفے میں ”تضاد“ کیا ہے؟

بات تو عجیب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تضاد یا کنٹراڈکشن کو بہت کم سمجھا گیا ہے۔ مارکسی تضاد کی وضاحت کے لئے اسے دو طرح سے پرکھنا ضروری ہے۔ پہلی چیز منطقی تضاد ہے۔ ایک چیز جسے ہم ”میز“ کہتے ہیں وہ ”کرسی“ نہیں ہو سکتی۔ انہیں ایک ہی شے سے تعبیر کرنا منطقی تضاد ہے۔ اس کے مقابلے میں مارکس اور ہیگل کا نظریہ تضاد بالکل مختلف ہے۔ مارکس کہتا ہے [اور ہیگل بھی] کہ وہ دو چیزیں جو آپس میں جڑی ہوئی ہوں، جن کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہونا ان کی بقا کے لئے ضروری ہو، یہ ”فلسفیانہ تضاد“ ہے۔

اس طرح کی دو چیزوں کا آپس میں ”نسبتی تعلق“ ہوتا ہے کیونکہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شمالی قطب کے بغیر جنوبی قطب کا خیال بے معنی ہے یا اس سے بھی زیادہ سامنے کی مثال جو ہیگل نے دی تھی کہ غلام کے بغیر آقا کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مارکسی تضاد اور منطقی تضاد دو مختلف چیزیں ہیں۔

مارکسی جدلیات میں ”تضاد“ پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ابھی سے واضح کر دیں کہ غربت کے بغیر امارت کا وجود ممکن نہیں۔ اسی بات کو دوسری طرح سے دیکھ لیں کہ یہ امارت ہے جو غربت کو جنم دیتی ہے اور غربت کی وجہ سے امارت کا وجود ہے۔ ہر معاشرے میں غربت اور امارت کا ایک لگا بندھا تعلق ہوتا ہے۔ یہ مارکس کے سماجی تضاد کی ایک مثال ہے۔ ”سماجی تضاد“ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اسے کمزور ہونا چاہیے۔ ایک جانب سے اس تعلق کو توڑ نے کی اور دوسری جانب سے اسے برقرار رکھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

معاشرتی رویے، طبقات اور سیاست کے زاویے اسی تضاد کا اظہار ہیں۔ ان سب کے باہمی عمل سے سماجی رشتے ٹوٹتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں جن کے ذریعے سماج میں تخلیقی تبدیلی ظہور پذیر ہوتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ مارکس کے نظریہ میں تضاد کی حیثیت بہت اہم ہے لیکن مارکس کی خوبی یہ ہے کہ اس نے ایسی کوئی حتمی رائے نہیں دی کہ بس فلاں اور فلاں کا آپس میں تضاد کا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے ہر جگہ اور ہر زمانے میں سماج کے مختلف مظاہر میں انسانوں کو ”تضاد“ کے تعلق کو دریافت کرنے کے لئے آپس میں مکالمہ اور بحث مباحثہ کرنا پڑتا رہے گا اور اسی میں اس کی بقا ہے۔

مارکس نے اپنے فلسفے کی بنیاد مادی تاریخ پر رکھی تھی۔ مارکس پوچھتا ہے کہ اگر حال کی بنیاد ماضی ہے اور مستتقبل کی بنیادیں زمانہ حال میں ہیں تو پھر بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جیسا ماضی تھا زمانہ حال کا سماج ویسا ہی ہونا چاہیے اور مستقبل بھی اسی نہج پر ہو گا۔ در حقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ سماج بدلتا رہتا ہے۔ لیکن کیسے؟ ہم پہلے ہی جدلیاتی حوالے سے دیکھ چکے ہیں کہ زندگی اور تاریخ میں تبدیلی اس تضاد کی بدولت ہے جس کے ذریعے زندگی اور سماج کی مختلف جہتیں ایک کمزور طریقے سے آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ سماجی سائنس کے ماہرین ہر لحظہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ وہ کون کون سی چیزیں ہے جن کا آپس میں تضاد کا رشتہ ہے۔ یہ کوئی لگا بندھا مستقل رشتہ نہیں، اس کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

جدلیات ہمیں سماجی زندگی کے رشتے اور رابطے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ کوئی ایسا رابطہ نہیں جو ”سبب اور نتیجے“ کو ترتیب وار بیان کرتا ہو۔ اور یہ سوال بھی موجود رہتا ہے کہ وہ کون سے دو عوامل ہیں جن کا آپس میں تضاد کا نسبتی رشتہ ہے؟ ہم نے مارکسزم پر ایک کتاب میں ایک مصنف پال ڈیسنگ کا ایک اقتباس پڑھا تھا جس کا حوالہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے : ”دو مختلف تصورات جدلیاتی طور پر اس وقت ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جب ایک کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے کا تصور خود بخود دھیان میں آنے لگے اور یوں لگے جیسے پہلے تصور نے دوسرے کا راستہ روکا ہوا تھا۔ جب ہمیں یہ نظر آنے لگے کہ پہلے تصورکے وجود کے لئے یا اسے استعمال کے واسطے دوسرے خیال کا وجود لامحالہ ضروری ہے ؛ اور پھر ہم پر یہ کھلے کہ نظریاتی مسئلہ دو تصورات کے آپس میں رابطے کا ہے اور ان کو بیان کرتے ہوئے یہ مسئلہ بھی درپیش ہو کہ کسی اور دوسری صورت حال میں ان کا آپس میں رشتہ کیا ہو گا“ ۔

فلسفے کے طالبعلم جانتے ہیں کہ جدلیاتی نظام میں ہیگل کا تعلق آئڈیالوجسٹ مکتبہ فکر سے تھا وہ پہلے سے تمام مظاہر کی اکائی کو مانتے تھے۔ وہ خیال اور اس کی مادی تجسیم کو دو علیحدہ اکائیاں نہیں مانتے تھے۔ مارکس نے مادی جدلیات میں تضاد کو استعمال کر کے واضح کیا کہ سیاست، سماج، شعور اور معاشی رشتے سب مادی سماج کے مظاہر ہیں۔ ان کے اندر تضاد کا تعلق ہوتا ہے جو بے شک چھپا ہوا ہو، اسے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس جگہ یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ جدلیات کا طالبعلم سماج کے اندر بے شمار حقائق کو دیکھتا ہے تو وہ ان کی ظاہری شکل پر نہیں جاتا۔ مارکسی جدلیات کے طالب علم کو معلوم ہے کہ نظام نے سوسائٹی کا ارتقاء اس طرح سے کیا ہے کہ حقیقت کے اوپر بہت سے پردے چڑھا رکھے ہیں۔

روزانہ ہونے والے سماجی واقعات پر یہ پردے سیاسی، معاشی، مذہبی نظام فکر اور کلچر کے ہوتے ہیں۔ اگر حقائق کا تجزیہ مارکسی جدلیات کے محدب عدسے کے نیچے نہ کیا جائے تو سماجی حقائق کے اندر جیسے پہلے کہا کسی قسم کی ترتیب نظر نہیں آ سکتی۔ اور سماجی طالب علم کی نظر صرف ظاہری پرتوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ٹی وی اور اخبار صاف نظر آنے والے واقعات کی گردان کیے رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بے ترتیب حقائق کا علم تو ہو جاتا ہے لیکن اس سے سماجی عمل کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی۔

اور نہ ہی تجزیاتی تفکر میں کوئی اضافہ ہوتاہے۔ اس کے مقابلے میں مارکس کے جدلیاتی طریقہ کار کو اپنا کر ہم سماج کی ساخت کو اور سیاست کو اس کی اصلی شکل میں پہچان سکتے ہیں۔ ”سو معلوم ہوا کہ مارکسی جدلیات کا اصلی ہدف تو وہ جہالت ہے جو نظام کی بنیادوں پر استوار کی جاتی ہے، کبھی کلچر کی شکل میں، کبھی مذہب کی شکل میں یا کبھی سیاست کی شکل میں“ [رابرٹ ہیل برونر سے ماخوذ]۔

مارکس اور تاریخ نویسی:

کلچر، سیاست اور مذہب نے سماجی انصاف کی راہ میں جو روکاوٹیں کھڑی کی ہیں وہ ایک لمبے تاریخی سفر کی داستان ہے۔ اسی وجہ سے مارکس کی بات کرتے ہوئے ہمیں بار بار تاریخ کا لفظ دہرانا پڑتا ہے۔ بات چونکہ مارکس کی ہے تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ نویسی کے شعبے پر بھی مارکس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ مارکس سے پہلے تاریخ بادشاہوں اور فاتح جرنیلوں کی قصیدہ گوئی تھی۔ مارکس نے بتایا کہ تاریخ عام انسانوں کی زندگی اور انسانی معاشرے میں طبقات کا مطالعہ ہے۔

معاشرے کی طبقات میں تقسیم استحصال کا ظاہری چہرہ ہے۔ اس نقطہ نظر سے تاریخ کے مطالعہ کے دوران ہم واقعاتی سطح سے اوپر اٹھ کر زندگی کو دیکھ سکتے ہیں جو واقعات سے زیادہ انسان کی سماجی جدوجہد کا مطالعہ ہے۔ مشہور تاریخ دان کہتے ہیں کہ بات یوں ہے کہ تاریخ نویسی مارکس سے پہلے اور مارکس کے بعد جیسے ہمارے یسوع مسیح علیہ سلام تھے کہ وقت ان سے پہلے یا ان کے بعد۔ طوالت کے ڈر سے ہم مارکس کی تاریخ نویسی کی بات یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔

مارکس کی نظر سے تاریخ کی مادی تشریح:

یہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ مارکس نے جدلیات کے میزان پر مادی سماج کی تاریخ کو پرکھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم سب اس وقت سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں۔ ہم ابتدائی انسان سے قبیلوں میں اور اب ملکوں اور قوموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم اس مقام تک واقعاتی طور پر کیسے پہنچے ہیں، مارکس کے سماجی تاریخ کے تجزیے میں یہ بات زیادہ اہم نہیں۔ مارکس کی توجہ کچھ اور قسم کے سوالوں پر ہے۔ مارکس سوال کرتا ہے کہ نوع انسان کے تاریخی سفر کے نتیجے میں سماج میں سرمائے کانظام وجود میں کیسے آیا؟

سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کے استحصال کے کون کون سے طریقے وضع کیے ہیں اور سماج کے اندرکیسے ان کی پردہ پوشی کی ہے؟ اور اس میں سے بہتری کا سامان پیدا ہونے کی کیا کوئی راہ ہے؟ مارکس کی ساری فلسفیانہ سعی ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی افکار اور تعلیمات کے باب میں مارکس کا سب سے بڑا کام سرمایہ دارانہ نظام کا سماجی تجزیہ ہے۔

مارکس کا کہنا ہے کہ انسان سماجی زندگی کو پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری ضرورت ہے۔ یہ پیداواری رشتے اس کی خواہش نہیں اور نہ ہی امر ربی ہے۔ انسانوں کا پیداوری مقصد کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنا مادی تاریخ میں بندھا ہوا سماجی عمل ہے جو سماجی ارتقاء کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس سارے عمل کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ سماج کا معاشی نظام ہے جس کے گرد سیاست کی بساط پر قانون ترتیب دیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ کلچر ہے جو سماجی طریقہ کار کو راسخ کرنے میں ممد ہوتا ہے۔

مارکس نے ان سب باتوں کو معاشرے کا ”سپر سٹرکچر یعنی ظاہری نظام“ کہا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے ہم واپس جائی٘ں تو یہ بات صاف ں طر آنے لگتی ہے کہ ہیگل کے نزدیک سب سے بنیادی چیز خیال تھی جو مجسم ہو کر تاریخ بناتا ہے۔ مارکس نے اس کو بالکل الٹ دیا۔ مارکس کے یہاں زندگی کرنے کے مادی عمل میں اور مادی رشتوں کے اندر تاریخ کا اصلی جوہر پنہاں ہے۔ خیال مادی تاریخ کے اندر گندھے ہوئے شعور کا نام ہے۔ مارکس کے نزدیک سرمایہ دارانہ نظام کے سارے افکار مادی تاریخ کی بنیاد پر ایستادہ ہیں۔

اس مقام پر چند ایک بنیادی اصلاحات سے آگاہی بھی مناسب معلوم ہوتی ہے جو مارکس کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار سامنے آتی ہیں۔ اگر بہت ابتدائی انسان کی گروہی تاریخ کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے بعد پیداواری سرگرمیوں کے حوالے سے تاریخ کے تین دور نظر آتے ہیں : غلامی کا دور، جاگیر داری کا دور اور اب کے سرمایہ داری کا دور۔ سرمایہ داری دور میں یا نظام میں پیداوری قوتیں استعمال ہوتی ہیں جن میں انسانوں کا خون پسینہ، مشینیں اور خام مال سبھی کچھ شامل ہے۔

وہ انسان جو خام مال پر محنت کر رہے ہیں، یہ ان کی ایک کمزور سی سماجی حیثیت ہے اور ایک دوسرا گروپ ہے جو ان کی محنت اور ان کی پیداوار کا مالک ہے، ان کا پیداواری ذرائع کے ساتھ ایک اور طرح کا رشتہ ہے۔ ان سب کو ہم ”سماجی رشتے“ کہتے ہیں، ۔ سماجی رشتے ساکت و جامد تو نہیں مگر ہر جگہ اور ہر زمانے میں حقیقت تھے اور آج بھی ہیں۔ بات بہت سادہ ہے کہ معاشی معاملات انسانوں کے سماج کو طبقات میں بانٹ دیتے ہیں۔

طبقات یا کلاس:

اس مقام یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ کلاس یا طبقہ کیا ہے؟ طبقہ انسانوں کا وہ گروہ ہے جن کا پیداواری قوتوں کے ساتھ ایک جیسا رشتہ ہو جیسے غلام اور مزدور جن کے پاس صرف ہاتھوں کی محنت اور خون پسینہ ہے، یہ سب لوگ ایک طبقہ ہیں۔ اور ان کی محنت کے بل پر منافع اکٹھا کرنے ولا چھوٹا سا گروہ ایک دوسری کلاس یا طبقہ ہے۔ پیداواری رشتوں میں جڑے ہوئے طبقات میں سے استحصال زدہ طبقہ اپنے لئے بہتر حالات کی کوشش میں جو طریقہ کار استعمال کر سکتا ہے اس وقت ان کی تفصیل کا محل نہیں مگر طبقہ امراء اپنی مراعت یافتہ پوزیشن اور سماجی مرتبے کو اسی طرح برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔

یہ طبقہ اس مقصد کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال میں لاتا ہے جن میں کلچر اور مذہب کا استعمال، سیاست میں حصہ لے کر ریاست کے اداروں پر کنٹرول تاکہ ایسے قانون بنائے جائیں جو ان کے طبقاتی مفاد کے محافظ ہوں۔ اگر کسی وقت بھی مفادات پر سوال اٹھے تو قانون کے مطابق انصاف کو توجیہ کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ طبقاتی سماج میں ریاست سب کی مشترکہ تو ہے مگر یہ غیر جانب دار نہیں ہوتی۔ طبقاتی سماج میں ریاست طاقت ور طبقے کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے۔

بیگانگی

سماج کی طبقاتی تقسیم انسانوں کو اپنی زندگی چلانے کے لئے نہ صرف ان سے ان کی خواہش اور خیالات چھین لیتی ہے بلکہ زندہ رہنے کے لئے انہیں دوسرے انسانوں کا زیر نگیں کر دیتی ہے۔ طبقاتی سماج میں انسانوں کے پاس حقوق اور امکانات برابر نہیں ہوتے اور اس بات کی توجیہ میں روایت، کلچر، مذہب اور نجانے کہاں کہاں سے دلائل ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں کہ سماج میں مفادات اور استحصال کی اس طبقاتی جدوجہد کو صرف نظریاتی مفروضوں کی گفتگو، مذہبی مباحث اور مناظروں میں اور سیاسی اور قانونی معاملات تک محدود کر کے درحقیقت مفادات کا تحفظ مقصود ہوتا ہے، اس حد تک کہ ان مباحث میں حصہ لینے والے انسان بھی اصل حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے۔

ہم نے ذرا پہلے ”سپر سٹرکچر“ کی بات کی تھی۔ اس جگہ پر یہ کھلا کہ سپر سٹرکچر یا ظاہری نظام انسان کی بیگانگی کو قائم رکھنے اور اس کو بڑھاوا دینے کا ایک ہتھیار ہے۔ سر راہ ہم یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ ظاہری نظام تبدیل ہونے کی ضرورت اپنی جگہ لیکن جس بنیاد پر ظاہری نظام وجود میں آتا ہے، اس پر بینڈ ایڈ لگانے سے نظام کی ماہیت میں تبدیلی نہیں آتی۔ نظام کی ماہیت میں بنیادی تبدیلی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سماجی ساخت میں تبدیلی بہت آہستہ سے ہوتی ہے۔ اسے سماجی ارتقاء کہہ لیں۔ مگر سماج کی ماہیت میں تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔ کس طرح سے اور کس رفتار سے؟ ۔

مارکسی انقلاب

ہمارے بہت سے دوست انقلاب کے بارے میں بڑے جوش و خروش سے بات کرتے ہیں۔ وہ منتظر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گمان بھی ہیں کہ جیسے انقلاب کوئی ایک دن کا کھیل ہے جس کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا ہے اور حکومت پر قبضہ ہوتے ہی سارے معاملات خود سے سیدھے ہونے لگیں گے۔ اسے ریاستی حکومت پر قبضہ تو کہا جا سکتا ہے مگر انقلاب نہیں۔ حقیقی انقلاب سے مراد سماجی انقلاب ہے۔ انقلاب ایک علیحدہ موضوع ہے اور تفصیل طلب معاملہ ہے مگر یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ تاریخ میں مارکس کا مقام حکومتی اداروں پر قبضہ نہیں۔

مارکس کے افکار سرمایہ دارانہ نظام کا مطالعہ اور تجزیہ ہیں کہ انسانی استحصال کی بنیاد کیا ہے اور انسانی زندگی میں بہتری کی راہ میں کون سی روکاوٹیں ہیں۔ مارکس کا خیال ہے کہ سماجی بہتری کی راہ روکنے والے عناصر کی تشخیص ہونی چاہیے تا کہ انسانوں کی زندگی میں آزادی کے ساتھ سانس لینے کی فضا پیدا ہو سکے۔ نفسیات کی زبان میں اسے ”سیلف ایکچوئلائزیشن“ کہتے ہیں۔ مارکسی انقلاب کے نتیجے میں یہ نہیں کہ کوئی تصوراتی جنت ارضی پیدا ہو جائے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ مارکس کے افکار اور نظریات کا مطالعہ اس زمین کو جنت بنانے میں مدد گار ہو گا۔ اس طرح انسان خود فریبی سے نکل کر خودداری کی منزل کی طرف گامزن ہو گا۔ یہ وہ مقام ہے جس کے لئے مارکس نے کہا تھا۔ تاریخ کی بجھارت بوجھی گئی جو انسان کو اس کے اصلی مقام تک لے جائے گی۔

گلوبل زمانے میں معاشرے بہت پچیدہ ہیں اور جنت نظیر زندگی کا قیام بھی کوئی آسان کام نہیں۔ انقلاب برپا ہو جانے سے انسان کی آزادی کا سلسسلہ مکمل نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے۔ انقلاب انسان کی ہمہ جہت آزادی کا نام ہے۔ یہ صرف اس کے شعور کی پیداوار نہیں، یہ آزادی انسان کی ہمت، محنت اور اس کے خواب کا حاصل ہو گی۔ مارکس کا آزادی کا نظریہ سارے انسانوں کے لئے سماجی فریب کے پردے ہٹا کر حقیقی زندگی کی تلاش ہے جس کے بارے میں خود مارکس نے لکھا تھا کہ فلسفیوں نے زندگی کی مختلف طرح سے تشریح کی ہے مگر زندگی کے معنی یہ ہیں کہ عملی طور پر زندگی کو بہتری کی جانب لے کر جایا جائے۔ مارکس کی ساری تعلیم کا جوہر اس ایک فقرے میں پنہاں ہے جو مارکس کو انسانی تاریخ میں سماجی انصاف کے ان بڑے بزرگوں کی صف میں جا کھڑا کرتی ہے جن کے ذکر خیر کے بغیر انسان کی کہانی نامکمل رہتی ہے۔ ع: نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments