سیر کر دنیا کی غافل


صاحبانِ فہم کا قول ہے کہ وہی پھول سرچڑھتا ہے جو چمن سے نکل جاتا ہے اور اُسے ہی عزت ملتی ہے جو وطن کی سرحدیں عبور کرلیتا ہے۔ میرا اشارہ سیاحت کی جانب ہے۔

یقیناً کووڈ 19 کے سبب جبکہ پوری دنیا مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، سفر یا نقل و حرکت پر بھی تقریباً پابندی لگی ہے تو ایسے میں سیاحت کی بات مضحکہ خیز ہی لگتی ہے۔ لیکن دوسرے رُخ سے یہ ایک بہترین فراغت کا موقع ہے کہ جس میں شاعیقین و سیّاح اپنے مستقبل کے منصوبہ کو شکل دے سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرہ کا کثیرحصہ سیّاحت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، اگر چند ایک سیر و تفریح کے شائق دکھائی بھی دیتے ہیں تو اس کے پیچھے اکثر منچلا پن، آوارہ گردی یا وقت و پیسہ کے ضائع جانے کی جھلک دکھائی دیتی ہیں۔

سیّاحت ایک دلچسپ اور مقدس عمل ہے جس کی جانب نہ صرف علم الانسان اور سیّاحت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے، بلکہ قرآن مجید میں زمین پر سیاحت کا چھ مقام پر ذکر ہے اور وہ ہے سورۂ آلِ عمران، سورۂ انعام، سورۂ نحل، سورۂ نمل، سورۂ عنکبوت اور سورۂ روم میں۔ ان میں سے ایک مقام پر یعنی سورۂ عنکبوت میں انسانوں کو سیاحت کا اس لئے حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اُن اسرار و رموز کا مشاہدہ کریں جو اللہ کی مخلوقات میں پنہاں ہیں اور دیگر پانچ مقامات پر یہ ہدایت اس لیے کی گئی ہے تاکہ لوگ دنیا کی جابر، ستم شعار اور عصیاں کوش اقوام کے دردناک اور آفت رسیدہ انجام کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ قرآن مسلمانوں کو خصوصاً یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی زندگی کے محدود دائرے سے باہر نکل کے اِس وسیع دنیا کی سیر و سیّاحت کریں کہ اقوام و ملل کی کج رفتاری اور عصیاں کوشی کا انجام کیا ہوتا ہے۔

عصرِ حاضر میں طاقتور اقوام جن میں خاصی تعداد ایسے ممالک کی بھی ہے جو دوسری اقوام کا استحصال کیے ہوئے ہیں نے اپنے نفع اندوزی کے دامنِ حرص کو پھیلانے کے لیے دنیا کی تمام اقوام، تمام ممالک اور زمین کے ہر حصے کی تحقیق کی ہے اور ان کی تہذیب و تمدّن، مادی ذرائع، صنعت و حرفت اور عسکری صنعت و قوت غرض ہر پہلو سے تفتیش کی ہے اور پھر ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

اس کے مقابلے میں قرآن یہ درس دیتا ہے کہ ان جابر اور خون آشام قوموں کے بجائے، اے مسلمانوں! تم زمین میں پھیل جاؤ اور ان کے شیطانی منصوبوں کے بجائے رحمانی درس و سبق حاصل کرو۔

دوسروں کی زندگی سے عبرت حاصل کرنا شخصی تجربے سے زیادہ اہم اور زیادہ قدر رکھتا ہے، کیونکہ شخصی تجربہ تو نقصان اُٹھا کر حاصل ہوتا ہے مگر دوسروں کی زندگی سے زیان و نقصان برداشت کیے بغیر عبرت حاصل ہوتی ہے۔ اسی حکمت کے پیشِ نظر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سفر کرو، تندرست رہو گے اور فوائد حاصل کرو گے۔“ (کنزالعمال)

زمین پر سیّاحت کے بارے میں قرآن کا حکم عین اُن اصولوں کے مطابق ہے جو آج کل علمائے علم الانسان نے اختیار کیے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ کتاب میں اصولی مسائل پڑھانے کے بعد طلبا کو سیّاحت کے لیے لے جاتے ہیں تاکہ وہ بچشمِ خود مطالعہ کریں۔

البتہ آج کل ایک اور قسم کی سیّاحت کا رواج ہوا ہے۔ اس کا نام ٹورازم رکھا ہے۔ اس سیاحت کا رواج شیطانی تہذیب کی مالک قوموں کی طرف سے کسبِ دولت اور ثروتِ حرام کمانے کے لیے ہوا ہے، ان کے زیادہ تر مقاصد غیر اخلاقی ہوتے ہیں، مثلاً نازیبا و ناشائستہ ثقافت کی ترویج، عیاشی، ہوس رانی، عادات کی بے لگامی اور دوسرے ناشائستہ مشاغل وغیرہ، اس قسم کی سیاحت تباہ کُن ہے۔ اسی کے سبب جناب مولا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ ”ایسے سفر پر نہیں جانا چاہیے جس میں دین کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔“

اسلام اُس قسم کی سیْاحت کا حامی ہے جس کا مقصد صحت مند تہذیب کی اشاعت، تجربات سے باہمی استفادہ، جہان انسانیت میں اسرار تخلیق کی جستجو، عالم طبیعی کی تحقیق اور فاسد اقوام کے دردناک انجام سے عبرت حاصل کرنا ہو۔

بدقسمتی سے اسلام کا قلعہ کہلائے جانے والے اس ملک میں عوام سے لے کر ریاستی اداروں تک کوئی بھی اس حکمِ خداوندی پر عمل کرتا یا دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا، جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارا آثارِقدیمہ کا شعبہ ہے جسے کسی آثار سے کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری جانب ہمارا تعلیمی نصاب جغرافیہ سے تقریباً پاک ہے اور اگر کوئی باب موجود بھی ہے تو وہ اس قابل نہیں کہ نسلِ نوع کے باطن میں کوئی چنگاری پیدا کرے جو شعلہ بن کر انہیں چند گز کے مکان اور شاپنگ مالز سے باہر نکال لائے جسے وہ سیر و تفریح کی انتہا جانتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے ماضی میں جو ٹورازم کے شعبہ میں اصلاحات کی ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں مگر صرف زرمبادلہ کی حد تک ہی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے نہ کہ اس کے ذریعے وہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں کہ جن کی طرف دین اسلام ہمیں متوجہ کرنا چاہ رہا ہے۔

اربابِ اختیار کو اس جانب بھی سوچنا اور عملی اقدام اٹھانا ہوگا کہ وہ نسلِ نوع کے لئے وسائل مہیا کرے اور ان میں یہ شوق اور جذبہ بیدار کرے کہ وہ مستقبل میں سیّاحت کے دلدادہ ہوں اور اس فعل کو مقدس سمجھ کر اس کے ذریعے قدیم و موجودہ تہذیب و تمدن سے مثبت نتائج و علوم اخذ کر کے نہ صرف قوم و ملت کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں بلکہ جس سیر و سیّاحت کی قرآن و سنت نے ہمیں تعلیم دی ہے اس کی پیروی بجا لائیں۔ اختتام پر خواجہ میر درد کا شعر عرض ہے :

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments