اٹھارہویں ترمیم پرممکنہ سودے بازی


جمہوریت بہترین انتقام ہے جیسی بات کرنا محض جوش خطابت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ بات اس طلسماتی شخصیت نے کی جس نے اپنے باپ کو پھانسی کے تختہ دار پر اور اپنے بھائیوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل ہوتے ہوئے دیکھا جس نے آمریت کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جس پر ملک دشمنی کے الزام لگے مگر اس سب کے باوجود وہ شخصیت اپنے والد کی پیش گوئی کے مطابق عوام کی طاقت سے دوبار ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت جب یہ کہتی تھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو یہ فقرہ اپنے اندر ایک مکمل سیاسی تاریخ سموئے ہوئے ہوتا تھا۔ وہ شاید تیسری بار بھی ملک کی وزیراعظم بن جاتیں مگر شاید ابھی جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کے لئے مزید خون کی ضرورت تھی اسی خاطر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر 2007 میں ممکنہ طورپر تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بے رحمی کے ساتھ قتل کردیاگیا۔

محترمہ کی شہادت کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ رہی تھی۔ کچھ بعید نہیں تھا کہ خدانخواستہ ملک کے لئے کچھ برا ہوجاتا ایسے میں آصف علی زرداری نے حوصلے اور جرات کے ساتھ پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور یہ نعرہ جلتی ہوئی آگ پر پانی کا کام کرگیا۔ 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت قائم ہوئی اورپیپلزپارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری ستمبر 2008 میں ملک کے گیارہویں صدر منتخب ہوگئے۔

پارلیمان کی بالادستی کے لئے کام شروع کردیا گیا اور 8 اپریل 2010 کو 1973 کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کو قومی اسمبلی نے پاس کیا۔ اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین کے 83 آرٹیکلز متاثر ہوئے اور آئین میں کم وبیش 100 کے قریب تبدیلیاں ہوئیں۔ اس ترمیم کے تحت جنرل مشرف کے دور کی 17 ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو ختم کردیا گیا اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھ دیا گیا۔ بدنام زمانہ آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کو بھی ختم کردیا گیا تاہم 18 ویں ترمیم کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کے دیرینہ مطالبے کو عملی شکل دی گئی اور بجلی کی پیداوار کا معاملہ، قومی فنانس کمیشن، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات اور ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر امور پر قانون سازی کے معاملات کو مکمل طورپر صوبائی اختیار میں دے کر صوبوں کو خودمختار اکائیوں میں تبدیل کردیا گیا۔

1973 میں متفقہ آئین بنانے کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دوسری بار تھا جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے پختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18 ویں ترمیم کے ذریعہ جمہوریت کو مضبوط کیا۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کے مابین مالی وسائل کی تقسیم کا تنازعہ ختم ہوا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈاور 18 ویں ترمیم سے صوبوں کے مابین کدورتوں اور نفرتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس ترمیم سے پنجاب کے خلاف دیگر صوبوں اور خاص طورپرسندھ کی قوم پرست تنظیموں کی نفرت میں کمی ہوئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان دنوں اقتدار کی غلام گردشوں میں این ایف سی ایوارڈ اورقومی محاصل میں صوبوں کے حصہ کو کم کرکے وفاق کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا کرنے سے متعلق سوچ وبچار جاری ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے 18 ویں ترمیم کی کچھ شقوں کو حذف کرنا یا پھر اس میں ترامیم بہت ضروری ہیں۔ چونکہ یہ ترامیم دوتہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں ہیں اس لیے حکومتی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی درپردہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

شنیدہے کہ ممکنہ تبدیلیوں کے عوض نیب آرڈیننس میں ایسی ترامیم کی پیشکش کی جائے جس سے اپوزیشن کی زیر احتساب قیادت کچھ راحت کا سانس لے سکے۔ اس کے بعد نیب شیخ سعدی کی حکایت والے اُس شیر کی طرح کا ہوگا کہ جس کے نا تو دانت ہوں گے اور ناہی پنجے ہوں گے۔ مدعا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت سہولتیں لینے اور دینے والے ہر طرح سے فائدے میں ہوں گے سوائے عوام کے۔

اگریہ سچ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم اور اس کے عوض نیب آرڈیننس پر بات ہورہی ہے تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ اس سے مسئلہ کس کو ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کی وفاق سمیت پنجاب اور کے پی کے میں حکومت ہے جبکہ بلوچستان میں بھی ان کی رضامندی سے حکومت قائم ہے۔ صرف سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر وفاقی حکومت کی دال نہیں گل رہی ہے۔ کیا صرف صوبہ سندھ کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے یا پھر صوبوں کی مالیاتی خودمختاری اچھی نہیں لگ رہی۔

کیا کوئی بتانا پسند کرئے گا کہ وفاق کیوں مالیاتی وسائل اپنے ہاتھ میں رکھ کر صوبوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ملک کا فائدہ ہوگا تو کیا کوئی صاحب اختیار بتائے گاکہ وفاق نے اپنے محاصل میں اضافہ کے لئے اس کے علاوہ کیا کوئی پالیسی بنائی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں بنائی گئی۔ جمہوریت میں ہرنیا دن عوام کی فلاح وبہبود کے مشن میں پیشرفت کا دن ہوتا ہے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں عوام کی فلاح کے نت نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں ایسا تو کہیں بھی نہیں ہوتا کہ ایک دہائی بعدبھی بجائے آگے بڑھنے کے واپسی کا سفر شروع کردیا جائے۔ حرف آخر یہ کہ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم اور اس کے عوض نیب آرڈیننس میں اگرممکنہ تبدیلیاں ہوئیں تو یہ ہماری بدنصیبی ہوگی۔ جمہوریت میں یہ واپسی کا سفر ہوگا اور قوموں کی تاریخ میں واپسی کا سفر بہت ہی تکلیف دہ اور بھیانک ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments