کہیں آپ بھی تو قید نہیں؟


ہم اکثر کچھ لکھنا چاہتے ہیں پر لکھ نہیں سکتے۔ بہت سے الفاظ ہماے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن وہ الفاظ ہم کبھی کبھی لکھنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ الفاظ کوئی پڑھ لے۔ ہم ہمیشہ انہیں دل کے کسی کونے میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ چند الفاظ ہماری زندگی کی کہانی ہے۔ وہ الفاظ ہم ہمیشہ قید کر کے رکھتے ہیں۔ پھر احساس ہوتا ہے کہ کب تک؟ کسی کو قید کیا جائے جنہیں ہم ساتھ لے کر اس دنیا سے جانا چاہتے ہیں۔

پھر ایک روز وہ اچانک بے ساختہ ہماری زبان سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ آزاد ہوتے ہی رخ کرتے ہیں۔ اس انسان کی طرف جس کے لئے یہ الفاظ ہوتے ہیں۔ کچھ لمحے کے لئے ہماری آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ اور جب کھلتی ہیں تو ہمیں معلوتا ہوتا ہے۔ کل تک جو صرف الفاظ قید تھے، آج الفاظ کے ساتھ ساتھ، روح بھی قید ہو گئی ہے۔ ہم خود کو کسی کے سامنے سرینڈر کر دیتے ہیں۔ اور وہ انسان ہمیں ان الفاظ کی طرح قید کر لیتا ہے۔ وہ الفاظ کی قید سے زیادہ تکلیف دل اور روح کی قید ہے، ہمارے وہ الفاظ جس انسان کو محافظ سمجھ کے ملے تھے۔

پھر اس انسان کا بدلتا ہوا روپ دیکھتے ہیں۔ وہ انسان جسے ہم آسمان سمجھتے ہیں پھر وہی ہمیں کہیں دور بادلوں میں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ جسے ہم اپنی زمیں سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں دور کسی جزیرے پہ چھوڑ دیتا ہے۔ اور وہاں سے شروع ہوتی ہے ہماری اصل قید۔ پھر ہم ابن آدم کا وہ روپ دیکھتے ہیں جسے ہم آزاد تھے، تو خواب میں دیکھنے سے ڈر جاتے تھے۔ آج وہ قید ہو کر حقیقت میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم روتے ہیں تڑپتے ہیں۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہیں، ہمارے د ل اور روح کے ساتھ ساتھ، ہماری آواز بھی قید ہو گئی تھی۔

ہم پکاریں بھی تو کوئی فر ق نہیں پڑتا۔ قیدیو ں کی آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں۔ اصل میں وہ دیواریں دل کی دیواریں ہوتی ہیں۔ وہ د ل کی دیواریں پکارتی ہیں، ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ پر سنے بھی تو کون، دل کی آواز تو وہی سن سکتاہے، جو دل کے قریب ہو۔ اب جو دل کا مذاق اڑا کے زندان میں قید کر لے وہ ہمارے دل کی پکار کیسے سن سکتا ہے؟ پھر ہمیں احساس ہوتا ہم نے وہ الفا ظ صیحح وقت پہ آزاد نہیں کیے۔

وہ صحیح وقت پہ آزاد نہ کرنے کا کفارہ ہم ادا کر رہے ہیں۔ اور پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس زندان میں کوئی ہمارے ساتھ نہیں، کوئی ہمارے پاس نہیں، کس کو پکاریں، ہم کس سے فریاد کریں؟ کون ہمیں اس قید سے آزاد کرے گا؟ ان دیواروں میں قید ہم رستہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ سنا ہے ہر قیدی کو آزاد کرنے کا کوئی نہ کوئی کوئی رستہ ضرور ہوتا ہے۔ پھر وہ رستہ ہمیں کیوں نہیں دکھائی دے رہا؟ پر شاید ہم اس زندان میں ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں، پھر اس زندان میں بہت قریب سے ایک آواز سنائی دیتی ہے، ہم سوچتے ہیں یہ تو رات کا آدھا پہر ہے۔

اس وقت تو سب انسان سو رہے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی اور بھی قید ہے اس زندان میں؟ وہ آواز سنتے ہی آنسو بہنے لگتے ہیں۔ غور کرنے پہ معلوم ہوتا ہے ارے یہ تو اذان کی آواز ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے رات کے اس پہر کوئی ازان نہیں ہوتی۔ ایک نماز ہوتی ہے تہجد کی۔ یہ توتہجد کی اذان سنائی دے رہی ہے۔ کیا تہجد کی بھی اذان ہوتی ہے؟ دل سے آواز آتی ہے یہ اذان تو اللہ کی پکار ہے۔ مجھے اللہ پکار رہے ہیں۔ یا اللہ سنا ہے تو اس وقت تو اپنے بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے۔ مجھے آزاد کر دے، میرا دل قید ہے میری تو روح تک قید ہے۔ میرے دل کی دیواروں سے ایک اور آواز باہر آنے لگتی ہے۔ آزاد تو تم اس وقت ہو گئی تھی۔ جب دل سے ازان سننے پر تمھارے آنسو نکلے تھے۔ میں آزاد ہو گئی۔ اور ہاں کہیں آپ بھی تو قید نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments