عوام کی جان بچائیں، سیاست کے لئے بڑا وقت ہے


کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی وبا اور رمضان المبارک کا مقدس مہینہ بھی ہمارے سیاستدانوں بالخصوص حکمران جما عت کی ترجیحات کو بدل نہیں سکا۔ ملک ایک بڑے بحران میں گھرا ہوا ہے لیکن یہاں بحث ہو رہی ہے کو احلال ہے یا حرام؟ جمعے کو کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں 1226 کا اضافہ سامنے آیا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اسی روز متاثرین کی تعداد پہلی مرتبہ سندھ میں پنجاب سے بڑھ گئی اور ایک روز میں ملک بھرمیں 47 اموات ہوئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ سندھ میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ سب سے زیادہ کی جا رہی ہے اور پنجاب میں روزانہ پانچ ہزار ٹیسٹ کا ٹارگٹ مقرر کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ پہلے سے بھی کم ہو گیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسی روز تفصیلی پریس کانفرنس کر ڈالی جس میں انہوں نے گلہ کیا کہ وفاق صوبوں کی مدد نہیں کر رہا اور حکومت کی کورونا کے خلاف حکمت عملی نالائقی اور بدانتظامی پر مبنی ہے لہٰذا انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیں۔

گویا کہ بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مار دیا، جواباً حکومتی ترجمانوں نے ان پر لفظی یلغار کر دی۔ ظاہر ہے کہ ایسا وزیراعظم کے کہنے پر سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہی کیا ہو گا۔ اس پر تو بات ہو سکتی ہے کہ اس مرحلہ پر بلاول بھٹو کو عمران خان کا استعفیٰ مانگنا چاہیے تھا یا نہیں لیکن کیا حکومت خود کو اتنی غیر مستحکم اور کمزور سمجھتی ہے کہ بلاول کے مطالبے سے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔

ایک طرف ڈاکٹر شہباز گل ہیں جن کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے، انہوں نے مخصوص انداز میں بلاول بھٹو اور سندھ حکومت پر چڑھائی کر رکھی ہے۔ اتفاق سے اسی روز حال ہی فارغ کی جانے والی معاون خصو صی اطلاعا ت فردوس عاشق اعوان نے الزام لگایا کہ کچھ خود ساختہ وزیر اطلاعات ان کے معاملات میں مسلسل مداخلت کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا نام تو نہیں لیا لیکن واضح اشارہ ان کی طرف ہی تھا۔ دوسری طرف پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کب نچلے بیٹھنے والے تھے انہوں نے بھی بلاول بھٹو کے خلاف بیان داغ دیا۔

اسی بہانے نئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کی بھی رونمائی ہو گئی، ان کے مطابق بلاول بھٹو سندھ حکومت کی ناکامی کو وفاق کے سر تھونپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر موصوف نے موجودہ صورتحال میں پہلی مرتبہ دو ٹوک انداز میں حکومت کے اس بیانیے کی تجدید کی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ 18 ویں ترمیم ہے جس کے تحت صوبوں کو مالی وسائل اور اختیارات حاصل ہیں۔ وہ یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ بلاول بھٹو کا تعلق اشرافیہ سے ہے، انہیں غریبوں سے کیا سروکار؟

لیکن کیا پاکستان کے حکمران طبقے کا تعلق ایلیٹ کلاس سے نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب کوئی بزنس ٹائیکون ہیں اور نہ ہی جاگیردار۔ ان کا دامن کسی مالی سکینڈل سے صاف ہے۔ لیکن سینکڑوں کنال پر محیط گھر میں رہنے والی شخصیت کا شمار کس طرح غریبوں میں کیا جا سکتا ہے نیز یہ کہ اگر کسی جماعت کو اشرافیہ کی اکثریت کی حمایت ملی تھی تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔ بلاول بھٹو اپنے نانا کی طرح جتنے بڑے فیوڈل بھی ہوں، پیپلزپارٹی کی سپورٹ بیس آج تک غریب عوام اور ہاری ہیں جو آج بھی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ہیں۔

جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے، شریف فیملی بہت بڑی ملکی اور اب غیر ملکی ارب پتی خاندان ہے۔ ان کی حمایت بھی زیادہ تر پنجاب میں جی ٹی روڈ کے ارد گرد متوسط اور لوئر مڈل کلاس لوگ کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بحث ہی لا حاصل ہے۔ کون غریب آدمی ہے جو کروڑوں روپے کا خرچ کیے بغیر پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن، جزوی لاک ڈاؤن یا سمارٹ لاک ڈاؤن کی ایسے وقت میں بحث جبکہ کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہو رہی نامناسب بلکہ بے وقت کی راگنی ہے۔

سائنس کے بھی کچھ اصول ہیں، اسی طرح کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے اگرچہ ابھی تک کوئی موثر ویکسین ایجاد نہیں ہوئی لیکن لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ کون چاہتا ہے کہ غریب بھوکے مر جائیں جو سیاسی جماعت بھی ایسا کرے گی اس کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں انہوں نے عجیب منطق دی ہے کہ کسی سند ہی ان پڑھ نے انہیں وائرس لگا دیا ہے۔

اس سے زیادہ ایلیٹ بیان کیا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ پہلے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روک کرگراف کو نیچے لانا ہے، اس کے بعد ہی لاک ڈاؤن کو ایک طریقہ کار کے مطابق بتدریج ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لازمی سروسز اور روزمرہ کے استعمال کی دکانیں کھولنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا بھی جو ایک لحاظ سے اطلاعا ت پہنچانے کی لازمی سروس ہے، اس کے بعض ورکرز کورونا وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

لہٰذا حکومتوں کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ بے روزگار ہونے والوں کو مالی مدد پہنچانے کے علاوہ ان کی غذائی ضروریات پوری کریں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کافی تگ ودو کر رہی ہیں لیکن جب تک کورونا کے حوالے سے سیاسی سطح پر اتفاق رائے سے فیصلے نہیں ہوں گے موجودہ غیر یقینی صورتحال ختم نہیں ہو گی۔ ادھر عوام بھی کسی قسم کے لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے۔ حال تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سرکاری میٹنگز اور دیگر مصروفیات میں ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے حالانکہ انھیں عوام کو ترغیب کی خاطر بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔

میڈیکل ڈاکٹر اور پروفیشنلز کافی عرصے سے متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھی تو ہسپتالوں میں جگہ رہے گی اور نہ ہی ان کے پاس وافر طبی سامان ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹرجیسے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، فوج بھی مقدور بھر اس مہلک وبا سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں میں شامل ہے لیکن وقت کی ضرورت سیاسی سطح پرمکمل ہم آہنگی ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اس حوالے سے ایک ہی پالیسی اور بیانیہ ہونا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا، عذر لنگ ہے۔ وہ لوگ جو کرپشن کے الزام میں نیب کے کیسز بھگت رہے ہیں جب تک انہیں سزا نہیں ہو جا تی وہ اپنی پارٹیوں کے لیڈر ہیں لہٰذا خان صاحب کو انہیں آن بورڈ لینا چاہیے چونکہ کورونا وائرس کسی غریب اور امیر ملک یا امیر اورعوام میں امتیاز نہیں کر رہا، اس لئے حکومتی جماعت کے لوگ ہوں یا اپوزیشن، پورا ملک اور علاقے اس سے متاثر ہوں گے یہ وقت مناظروں کا نہیں بلکہ ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کا ہے۔ پاکستان کی موجودہ لیڈر شپ، حکومت اوراپوزیشن دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کورونا کے نام پر سیاست نہ کریں۔ ایک بار مل کر ہم نے اس موذی وبا پر قابو پالیا تو سیاست کرنے کے لیے بہت وقت پڑا ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments