منٹو اور بھٹو کے بعد عرفان خان


یہ جو کچھ خاص افراد حساس لوگوں کو کسی نہ کسی حوالے سے بہت زیادہ متاثر کرنے والے ہوتے ہیں یہ آتے ہیں، چھا جاتے ہیں اور بظاہر عام وقت سے پہلے غروب ہو جاتے ہیں لیکن ان کا اثر اور یا تاثر بہت دیر تک قائم رہتا ہے۔

میں گزشتہ دو روز سے تلاش کر کر کے عرفان خان کی فلمیں دیکھ رہا تھا اگرچہ میں خود بڑی اذیت میں ہوں مگر عرفان خان کی موت نے مجھے اس تکلیف کے عالم میں دو برس پہلے اپنے ایک دوست کو لکھا وہ خط یاد دلا دیا جس میں انہوں نے انتہائی درد کے عالم میں بے یقینی کو یقینی قرار دیا تھا۔

اس خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ درد خدا سے بھی بڑا لگا۔ اس اظہار پر معترض ہونے کے شوقین بھلے معترض ہوں مگر انسان کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اس کے بعد وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ میرے بہنوئی جو ایک معروف صحافی تھے اور دارالندوہ سے فارغ التحصیل، محمد ظفیر ندوی ان کا نام تھا، اعتدال پسند عملی مسلمان تھے، جب ان کے لبلبے کے سرطان کا درد بہت بڑھا تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے زہر کا ٹیکہ لگا دو، اللہ معاف کرے گا۔

عام حالت میں وہ ایسی بات کر ہی نہیں سکتے تھے۔ Euthanasia یعنی اذیت سے نجات دلانے کی خاطر طبی طور پر سہولت کی موت دیے جانا، کے اسی طرح مخالف تھے جس طرح کوئی مذہبی شخص ہو سکتا ہے۔ عام حالت میں ایسا کہنے کے لیے منٹو ہونا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی کوئی حالت عام حالت نہیں تھی، تبھی انہوں نے اپنا کتبہ لکھا جس میں کہا گیا تھا، ”یہاں سعادت حس منٹو سو رہا ہے، جو آج بھی سوچ رہا ہے کہ منٹو بڑا افسانہ نگار تھا یا خدا“ ۔

ظاہر ہے خدا افسانہ نگار نہیں ہے، اس لیے اس بات کو افسانہ نگار کی بڑ سمجھا گیا اور مرنے کے بعد ان کی قبر پہ جو لوح لگائی گئی اس پہ درج ہے، ”یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو آج بھی سمجھتا ہے کہ اس کانام لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں تھا، منٹو“ ۔ پسماندگان خدا والوں سے بھلا کیوں دشمنی لیتے۔

جس مرض نے مجھے تلپٹ کیا ہوا، اس کا درد درد کے علاوہ بہت سے دوسرے تکلیف دہ احساسات بھی ابھارتا ہے۔ بہت دیر تک بیٹھا جانا ممکن نہیں۔ کمر تکیے سے بھی لگے تو یوں لگتا ہے جیسے زخموں سے چھو گیا ہو۔ ایک جانب سے شکم تنا ہوا اور درد بھرا۔ جلد میں لمس کا احساس گم لیکن بن چھوئے ایسے لگے جیسے اللہ نہ کرے جل گئی ہو اور جل رہی ہو۔ میں کمرے میں اکیلا ہوتا ہوں تو ہائے اللہ کہتے ہوئے، اللہ سے گلہ کرتا ہوں اور لڑ بھی پڑتا ہوں۔

انسان اپنے وجود میں بالکل تنہا ہوتا ہے۔ اس کا دکھ اس کا درد اس پونے چھ ضرب دو فٹ میں بالکل اپنا ہوتا ہے۔ ماں ہو یا بہن، بھائی ہو یا بیٹا، بیوی ہو یا بیٹی کوئی بھی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ درد دے کے دنیا میں لوگوں سے وہ کچھ اگلوایا جاتا رہا ہے، جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں ہوتا۔ درد کی دین ان جھوٹے اعترافات کو بنیاد بنا کر لوگوں کی جان بھی لی جاتی رہی جس سے پہلے انہیں مزید دردناک اذیت سے بھی گزارا جاتا رہا۔

مگر بات انسان کے انسان کو دیے گئے درد کی نہیں بلکہ اس درد کی ہے جو جس کسی ایک کو ہوتا ہے وہ اسی کا ہوتا ہے۔ انسان کو درد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ عرفان خان ایسے درد کے بعد بھی کسی حد تک ٹھیک ہو گئے تھے مگر بالآخر درد کے ساتھ ہی وہ اس جہان سے چلے گئے۔ مجھے نحیف بھٹو کی گردن میں پھندہ کسے جانے کا درد بھی یاد آیا جو چاہے عارضی تھا مگر ہوگا بہت زیادہ اپنا درد جو کم از کم ضیاء الحق کی رعونت سے کہیں سوا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments