کورونا وائرس: ریاست اور سماج


کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت نے پاکستانی ریاست اور سماج کے کچھ ایسے پہلوؤں کو عیاں کیا ہے جس کی بناء پر کسی بھی بحران پر قابو پانے میں ممکنہ ناکامی کا احتمال رہتا ہے۔ کورونا سمیت کسی بھی ایسے بحران میں جس میں انسانی جان اور مادی وسائل داؤ پر لگے ہیں پر قابو میں ناکامی ایک بڑے اور ناقابل تلافی انسانی المیے کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت میں ریاست اور سماج نے جس طرح کا رد عمل دکھایا اس میں خوف، ضعف، ہٹ دھرمی اور لاپرواہی کے عناصر واضح ہیں۔

کورونا وائرس کی وبا نے جب ملک میں سر اٹھانا شروع کیا تو ریاست کے بندوبست پر مامور ارباب حل و عقد نے اسے پہلے پہل اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی ضرورت تھی۔ کسی طوفان کی آمد سے پہلے محفوظ کمین گاہوں میں منقلی ہی دانشمندی ہوتی ہے لیکن ہماری ریاست کا نظم و نسق چلانے والوں نے اس کی مطلق پروا نہیں کی۔ یہ بات تو طے تھی کہ کورونا وائرس نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑنے ہیں لیکن اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ریاست امور کے نگہبانوں کی عاقبت نا اندیشی اور غیر سنجیدگی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔

حکمران اس بحث میں الجھے رہے کہ لاک ڈاؤن پر جانا ہے یا نہیں اور پھر لاک ڈاؤن اور کرفیو کی بے معنی بحث میں الجھے رہے کہ جس کا خمیازہ ملک کو نقصان کی صورت میں ہی اُٹھانا پڑا۔ حکومت کو روز اول عزم اور ارادے سے ملک کو مکمل لاک ڈاؤن پر ڈال دینا چاہیے تھا اور میری ناقص رائے میں اگر دو ہفتے کو کرفیو بھی لگا دیا جاتا ہے تو یہ ایک بہترین حکمت عملی ہوتی۔ ایک ڈھیلے ڈھالے لاک ڈاؤن نے کاروبار اور معاشی سرگرمیاں تو روک دیں لیکن لوگوں کو گھروں میں بٹھانے میں ناکام رہا۔

معیشت کا جو نقصان ایک ڈھیلے ڈھالے لاک ڈاؤن میں ہوا وہی کرفیو میں ہوتا لیکن کم از کم یہ سماجی میل جول کو روک پاتا جو لاک ڈاؤن میں بھرپور طریقے سے جاری رہا۔ دوسری جانب ریاستی امور کے ذمہ داران خوف کا شکار بھی رہے اور اس سے بڑھ کا ان کا ضعف پن آشکار ہوا کہ جب وہ کورونا کے پھیلاؤ کے روکنے کے لیے اپنے ہی فیصلوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ غربت کے مزید پھیل جانے کا خوف ان کو دامن گیر ہوا تو مذہبی معاملات میں وہ ضعف کا شکار ہوئے۔

پر ہجوم جگہوں پر کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی دنیا بھر میں تصدیق ہو چکی ہے لیکن ہماری ریاست عبادت گاہوں کو بند کرنے میں گو مگو کیفیت کا شکار رہی ہے۔ ریاست کا بیانیہ اس سلسلے میں ابہام کا شکار رہا۔ وہ دنیا بھر میں ہر مذہب کے بڑے سے لے کر چھوٹے مذہبی مقام کے بند ہونے کی مثالیں تو دیتی رہی لیکن ملک میں اسے نافذ کرنے سے قاصر رہی۔ انسانی جان کو بچانے کے لیے عبادت گاہوں کو بند کرنے کے لیے اس کے بیانیے میں جان تھی اور نا ہی اسے نافذ کرنے کے لیے مطلوبہ توانائی اور قوت کہ وہ ہر صورت انسانی جان کی حفاظت کو مقدم رکھتی۔

دوسری جانب اس بحران میں بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وہ گھٹیا سوچ و فکر غالب کے جو ہمارے سیاسی طبقے کا خاصہ بن چکا ہے جو انسانی المیوں سے بھی سیاسی مفادات کشید کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ بحران میں۔ قومی اتفاق رائے کی بجائے قوم کو تقسیم کرنے کا گر کوئی ہماری سیاسی قیادت سے سیکھے۔ بلاشبہ کسی حکمت عملی پر اختلاف تو ایک قابلِ فہم امر ہے کہ انسانی فکر

میں تنوع مختلف سوچ کے دھاروں کو جنم دیتا ہے لیکن سیاست بازی کے لیے یہ کون سا میدان ہے کہ جس میں انسانی جان داؤ پر لگی ہو۔

سماج کا معاملہ تو اور بھی بگڑا ہوا ہے کہ اسے اس بحران کو ایک عظیم المیہ ماننے میں ابھی بھی تامل ہے۔ پاکستانی سماج میں پائی جانے والی اقلیت کو استثنیٰ حاصل ہے کہ جو کورونا وائرس کو ایک وبا اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کی قائل ہے وگرنہ اکثریت تو ابھی بھی اسے بیرونی سازش، حکومتی چال اور آفت سماوی کے پیمانوں میں تولنے میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کی لغزش اور کوتاہی سے پھیلنے والی اس وبا کو وہ ماہر طب کے مشورے کی بجائے ایک بوسیدہ اور دقیانوسی سوچ سے رفع کرنے کی خام خیالی کا شکار ہے۔

سماج کا رویہ یہ ہے کہ حکومت کے لاک ڈاؤن کی مطلق پرواہ نہیں کرنی۔ جن پر ریاست کا زور چلتا ہے تو وہاں لاک ڈاؤن نافذ ہو جاتا ہے جیسے تاجر، دکاندار، مزدور طبقہ وغیرہ۔ جہاں اس کا بس نہیں چلتا ہے وہاں یہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتی ہے جیسے کہ ہمارا مذہبی طبقہ۔ اگر ریاست کی مشینری ذرا سی رٹ قائم کرنے کی کوشش کرے تو اس قدر رد عمل سخت آتا ہے کہ ریاست خوفزدہ ہو کر پچھلے قدموں پر پلٹ جاتی ہے۔ سماجی رویوں میں اس قدر غیر سنجیدگی ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ ماضی میں چاہے دہشت گردی کے واقعات ہوں یا انتہا پسندی کے خلاف جنگ ہر بار عجیب و غریب بیانیے تراش کر قوم میں فکر ی یکسوئی کو مسخ کیا جاتا رہا۔ آج کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ میں بھی یہی طرز فکر پوری طرح نمایاں ہے۔

جب ریاست اور سماج میں اس قدر فکری پراگندگی ہو اور عملی طور پر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جانے کا سفر جاری ہو تو پھر اس وبا کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ مرض کس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کے لیے ہر روز اس مرض میں مبتلا مریضوں اور اس سے جان بحق ہونے والے افراد کے حکومتی اعداد و شمار ہی کافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments