کتاب کا نام: علم و آگہی کا سفر: قدیم یونیورسٹیوں کی مختصر تاریخ



مصنف: ڈاکٹر شیر شاہ سید
مبصر: گوہر تاج
مشی گن، ڈیٹرائٹ، امریکہ

پچھلے دنوں جو کتاب زیرِ مطالعہ رہی وہ دلچسپ اور متحرکن قسم کی معلومات سے مزین ”علم و آگہی کا سفر“ (قدیم یونیورسٹیوں کی مختصر تاریخ) ہے۔ جس کے مصنف ڈاکٹر شیر شاہ سید ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ کسی مصنف نے دنیا کی قدیم جامعات کی تاریخ کو اردو زبان میں مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا ہو۔ دقیق تحقیق اور انتھک مطالعہ کا حاصل اس کتاب کی حیثیت ایک انسائیکلوپیڈیا کی سی ہے جس سے استفادہ اٹھانے والے یقیناً اسے اہم گردانیں گے۔

کتاب نہ صرف ان قدیم یونیورسٹیوں کے قیام کی تفصیل بلکہ ان سے فارغ التحصیل شاگردوں اور اساتذہ کے سراغ اور علمی کردار کو مختصراً بیان کرتی ہے۔ یہ کام یقیناً سہل نہیں لیکن ڈاکٹر شیر شاہ سید عادتاً مشکل امور کی انجام دہی کو آسانی سے بجا لانے میں کمال رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب علم و آگہی کے سفر میں وہ قاری کو قدم بہ قدم پوری دلچسپی کے ساتھ شریک رکھتے ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد تاریخ میں گزرے ان علم دوست افراد کی عظمتوں کا معترف ہونا پڑتا ہے کہ جنہوں نے قابلِ ذکر تعلیمی درسگاہیں قائم کیں کہ جہاں سے علم کی سیرابی حاصل کرنے والوں نے علم کی ترویج حق اور سچائی کے لیے زہر پینا اور زندہ جل کر مر جانا تو منظور کیا مگر جستجو، تحقیق اور علمیت کا سلسلہ منقطع کرنا قبول نہیں کیا۔ ویسے تو 134 صفحات پر مبنی اس کتاب کا ہر صفحہ ہی دلچسپ معلومات پر مشتمل ہے مگر ان کی تفصیل لکھنا تبصرہ کا مقصد نہیں۔ تاہم وہ چند اہم نکات حاصلِ مطالعہ ہیں کہ جو تاریخی حقائق ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر حال اور روشن مستقبل کے لیے راہ متعین کرنے میں معاونت کر سکتے ہیں۔

ان جامعات کی تاریخ کے مطالعہ کے بعد جو سب سے اہم بات مشاہدہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی ذہن خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو علم اس کا متلاشی اور تجسس سے مالامال ہے اور جستجو کا یہ سلسلہ ازل سے ہے۔ پاکستان کے ضلع راولپنڈی میں ٹیکسلا یونیورسٹی کی دریافت (جو 600 قبلِ مسیح میں وجود میں آئی) بہار میں نالندہ یونیورسٹی ( 500 قبلِ مسیح) کا قیام ہو یا تازئبنگ یونیورسٹی چین ( 250 قبلِ مسیح) کی ابتداء اس بات کا ثبوت ہے کہ فطرت نے انسان میں کھوج اور علم کی جستجو کا جذبہ رکھا ہے لہذا اس کو دبانا اس پر قدغن فطرت کے خلاف ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ جب مختلف مذاہب کے داعیوں نے انسانی فکر کو قید کرنے کی کوشش کی علم کی ترسیل میں رکاوٹ ہوئی۔ مثلاَ آکسفورڈ یونیورسٹی ( 1187 عیسوی) کی ابتداء مذہبی ادارہ کے طور پر ہوئی مگر اس کی ترقی اور عظمت میں اضافہ اس وقت ممکن ہوا جب مختلف شعبوں کے علوم کو شامل کیا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ مذہبی اثر و رسوخ ابتدائی دور میں اس قدر زیادہ تھا کہ بڑی بڑی سلطنتوں کے حکمرانوں نے اس وقت تک اپنی سرپرستی نہیں کی جب تک مذہبی اداروں نے رضامندی نہیں ظاہر کی۔ مراکش کی القروئین یونیورسٹی بھی ابتداء میں عبادات تک محدود تھی لیکن بعد میں دوسرے علوم کی شمولیت ہی سے اس کی عظمت اور مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) جس کی بنیاد 1375 عیسوی میں ہوئی، اس میں کلیسا کے اثرات کی وجہ سے وہ مضامین نہیں پڑھائے جاتے تھے جو روشن خیال لوگوں میں عام اور کلیسا کے نظریات سے متصادم تھے لیکن پندرہویں صدی کے آغاز میں یونیورسٹی میں کشادگی آ گئی۔ یہاں کے کئی سائنسدانوں کو نوبل پرائز مل چکا ہے۔

ایک اور اہم نکتہ جو غور طلب ہے وہ یہ کہ جامعات کی ترقی اور علم کی ترویج میں حکمرانوں کی سرپرستی کا اہم کردار رہا ہے۔ تاہم ایسے منہ زور سرکش حکمران بھی رہے ہیں کہ جنہوں نے دوسرے ممالک کی طاقت کو توڑنے کے لیے ان کے علوم کے خزینوں پر حملہ کیا اور یہ حملہ تھا یونیورسٹی یاجامعات پہ کہ جن کی کتابوں کو جلا کے بھسم کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی ملک کی ترقی کا زیور اس کا علم ہے لہذا کتابوں کو آگ لگانے سے ترقی جامد کرنے کا خیال کسی شر پسند کا ہی ہو سکتا ہے مثلاً تالندہ جیسی یونیورسٹی کہ جہاں دنیا سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے آتے تھے کئی بار حملہ آوروں کی زد میں آئے لیکن تیسرا بڑا حملہ ترک فوج کے قائد بختیار خلجی نے کیا اور لاکھوں کی تعداد میں موجود کتابوں کو جلایا جن کے بھسم ہونے میں نوے دن سے زیادہ لگ گئے۔ اسی طرح گوندھی شاہ پور (ایران) کی یونیورسٹی پر 630 عیسوی میں عربوں نے حملہ کیا اور لائبریری جلا دی گئی۔

گو حکمرانوں کے پیسے کی طاقت نے اداروں کو پروان چڑھایا مگر ان یونیورسٹیوں کی بنیادوں پر انفرادی کاوشوں کا بھی دخل رہا۔ مثلاً مراکش کی القروئین یونیورسٹی ( 650 عیسوی) کا سہرا پڑھی لکھی مالدار بہنوں فاطمہ فہری اور مریم فہری کے سر ہے۔ جنہوں نے وراثت میں ملنے والی دولت کو یونیورسٹی کی مد میں صرف کیا۔

عجیب بات ہے کہ ان مسلمان خواتین نے کئی سو سال قبل علم کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا اور آج اسلام کے داعی عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور اسکولوں کو مسمار کر رہے ہیں۔ یہی مراکش کی القروئین یونیورسٹی ہے کہ جس نے ابن الرشد، ابنِ عربی، ابن الحطیب جیسے عالموں کو جنم دیا۔

اس کتاب میں درج حقائق ہمیں فکر کی دعوت دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کس راستے کو اختیار کرنا ہے۔ انسانی شعور کے ارتقاء، سماجی ترقی اور ملکوں کی بقا کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے علم کی ترویج، فکری آزادی اور رواداری کا سلوک۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قارئین کے ذہن سے کئی پردے اٹھتے ہیں۔ بحیثیت قاری میں آپ کو اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں لانے کا مشورہ ضرور دوں گی۔

اس کتاب کو مشہور اشاعتی ادارے ”شہرزاد“ نے کراچی سے شائع کیا ہے۔ اس کی تاریخ اشاعت مارچ 2015 ہے۔ کتاب کے دام پانچ سو ہیں جو اس کتاب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ نہیں۔

مصنف نے پہلے صفحہ پہ ماں کی گود کے نام کو انتخاب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’دنیا کی سب سے اولین اور قدیم یونیورسٹی، ماں کی گود کے نام، جہاں کی بنیادی تعلیم بچے کے دماغ کے دریچوں کو کھولتی اور بند کرتی ہے۔ جہاں کی ابتدائی تربیت اسے جہل اور علم کے راستوں پر ڈالتی ہے۔ جہاں کی اعلیٰ تعلیم اس کے ذہن کے دریچوں میں آگہی کے سورج روشن کرتی ہے۔

۔ ۔
”علم و آگہی کا سفر“ سے اخذ شدہ چند دلچسپ حقائق
کیا آپ کو معلوم ہے کہ

1۔ دنیا کی پہلی جامعہ ’ٹیکسلا یونیورسٹی‘ پاکستان کے راولپنڈی ضلع میں حضرت عیسٰی کی پیدائش سے چھ سو سال قبل بنائی گئی جہاں بدھ مت اور ہندومذہب کے علوم کے علاوہ طب، قانون، فلسفہ، زراعت، جنگ اور فنِ تعمیر کی تعلیم دی جاتی تھی۔

2۔ نالندہ یونیورسٹی بھارت کے صوبہ بہار میں پانچ سو سال قبلِ مسیح میں قائم کی گئی جہاں کئی منزلہ عمارات پہ مبنی لائبریری، دو ہزار استاد اور دس ہزار سے زائد طالب علم دنیا کے ہر حصہ سے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ جس میں گوتم بدھ کا بھی شمار تھا۔ یونیورسٹی کو کئی بار تاراج کیا۔ تیسرا بڑا حملہ ترک فوج کے قائد بختیار خلجی نے کیا۔ جس نے ہزاروں طلبا کے سر قلم کیے اور لاکھوں کی تعداد میں کتابوں کو جلانے میں نوے دن سے زیادہ لگ گئے اور پھر یہ تعلیمی ادارہ بحال نہ ہو سکا۔

3۔ مراکش کی القروئین یونیورسٹی کی بنیاد 859 عیسوی میں دو بہنوں فاطمہ الفہری اور مریم فہری نے اپنی وراثت میں ملنے والی خطیردولت سے ڈالی۔ اس میں ابنِ خلدون، ابنِ بطروحی، ابنِ حرزم وغیرہ کے علاوہ یورپ کی مشہور شخصیات بھی شامل تھیں۔ جن میں ایک نام یورپ کے سلوسٹر دوئم کا بھی ہے۔

4۔ الازہر یونیورسٹی، قاہرہ، مصر ( 973 عیسوی) فاطمی حکمرانوں نے جامعہ فاطمہ الزہرا کے نام سے شروع کی۔ صلاح الدین ایوبی نے حملے کے بعد یونیورسٹی کے کتب خانے کو تباہ و برباد کر دیا۔ بعد ازاں فاطمی خاندان کی حکمرانی کو ختم کر کے شافعی مسلک کے سلسلے کی ایوبی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور یونیورسٹی کا نام بدل کر جامعہ الازہر کر دیا گیا۔

5۔ مغربی افریقہ میں 1100 عیسوی میں قائم ہونے والی مسلمانوں کی پہلی یونیورسٹی ٹمبکٹو یونیورسٹی تھی جہاں دور دراز سے طلبا تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ بارہویں صدی میں پچیس ہزار طلبا نے داخلہ لیا۔

6۔ 1676 میں دنیا کی پہلی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے والی خاتون ایلیا تھیں۔ جنہوں نے پیڈووا یونیورسٹی (اٹلی) سے یہ اعلی سند حاصل کی۔

7۔ آج کی دنیا کی نامور آکسفورڈ یونیورسٹی مذہبی ادارے کے طور پر شروع ہوئی۔ جہاں 1875 تک بھی لڑکیوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا۔ جب کہ سپین کی یونیورسٹی آف سلامنکا میں پہلی خاتون کا داخلہ 1585 ء میں ہوا۔

8۔ 215 عیسوی میں قائم ہونے والی گوندھی شاہ پور (ایران) کی یونیورسٹی اپنے وقت میں علم و دانس کا مرکز تھی۔ جسے ارد شیر کے بیٹے شاہ پور اول اور اس کی بیوی نے پروان چڑھایا اور میڈیکل کالج، ہسپتال اور یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کیے۔ بعد ازاں 630 عیسوی میں عربوں نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ لائبریری جلا دی گئی اور درس و تدریس کا سلسلہ بند ہو گیا۔

9۔ ایرانی بادشاہ جنرو اول کے دورِ حکومت میں ہندوستانی، یونانی، ارمینی اور ایرانی طبیبوں نے مل کر دنیا کا پہلا باضابطہ ہسپتال ”بیمارستان“ بنایا۔

10۔ کیمبرج یونیورسٹی، انگلینڈ کے نوے سے زیادہ لوگوں کو نوبل انعام مل چکا ہے۔ اس کے مشہور طلباء میں برٹرینڈر رسل، چارلس ڈارون، سر آئزک نیوٹن اور اسٹیفن ولیم ہاکنگ شامل ہیں۔ جن کی زیرِ نگرانی 39 افراد نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ باوجود اس کے وہ موٹر نیورون کی بیماری کی وجہ سے معذوری کا شکار تھے۔

11۔ پیڈووا یونیورسٹی (اٹلی) 1212 عیسوی میں قائم ہوئی۔ جو ابتدا ہی سے آزادیِ فکر کی علمبردار بن گئی تھی۔ اس کے ایک طالبِ علم گلیلیو گلیلی تھے۔ جو 1564 ء میں پیدا ہونے اور بجا طور پر بابائے علمِ فلکیات اور بابائے طبیعات کہا جاتا ہے۔ کائنات کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے روم کے مذہبی رہنماؤں اور حاکموں نے مذہب دشمن قرار دے دیا تھا اور طویل مقدمہ کے بعد سزا دی گئی۔ انہوں نے تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

گیلیلیو سے کہا گیا کہ اپنے نظریات واپس لیں۔ سنا ہے کہ عدالتی حکم کے دوران گیلیلیو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔ ”میں اپنے نظریات واپس لیتا ہوں لیکن زمین تو سورج کے گرد ہی گھومتی رہے گی۔“ واضح ہو کہ ان کی عمر کا بڑا حصہ قید میں گزرا۔ یہ بات بھی حقیقت یہ کہ مارچ 2008 میں گیلیلیو کے 400 ویں یومِ وفات پر یورپ کی سائنس کونسل نے گیلیلو کو ہیرو قرار دیا۔

12۔ اٹلی کی میسی ریٹا یونیورسٹی ( 1290 ) کا شمار وہاں کی قدیم یونیورسٹیوں میں ہے کہ جہاں صرف فنونِ لطیفہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور جہاں کے طلبہ کی اوسط عمر چالیس سال ہوتی ہے۔

13۔ 1364 عیسوی میں قائم ہونے والی جگی لونین یونیورسٹی پولینڈ کی ترقی میں شاہی خاندان کے شاہ وڑیا سلوا جگیٹو اور ملکہ جادویگا کا بہت اہم کردار ہے۔ 1390 عیسوی میں ملکہ نے اپنے تمام زیورات یونیورسٹی کو دے دیے اور فلکیات، ریاضی اور مذہبی تعلیمات کے شعبے قائم کیے۔

14۔ چارلس یونیورسٹی پراگ، چیکو سلواکیہ ( 1416 عیسوی) کے ایک استاد جان ہمس، جو فلسفی، مذہبی رہنما اور کیتھولک چرچ کے مخالف تھے، ان کو اس بنا پر لکڑیوں کے ڈھیر پر رکھ کر زندہ جلا دیا گیا کہ وہ اپنی تقریروں اور مضامین سے پاپائے روم کی مخالفت کرتے تھے۔

15۔ 1875 میں سرسید احمد خان نے مدرسہ ِعلوم مسلمانانِ ہند کے نام سے شروع کیا جس کا نعرہ تھا ”وہ پڑھاؤ جو انسان کو پتہ نہیں“ 1920 میں یہ ادارہ علی گڑھ یونیورسٹی بن گیا۔ جس کی پہلی چانسلر ریاست بھوپال کی حکمران سلطان شاہ جہاں بیگم تھیں۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments