کیا ”سائیں فردوس“ کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا حق نہیں؟


غور سے دیکھیں تو موجودہ حکومت تین مضبوط ستونوں پر کھڑی ہے۔ یہ ستون اس قدر مستحکم ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کی دہائی، اتنی بڑی اپوزیشن کی کار فرمائی اور بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی رونمائی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ ستون بنی گالا کی روحانی پھونکوں، مولانا طارق جمیل کی درباری سرکاری دعاٶں اور ”حکمران اشرافیہ“ کی جادو کی چھڑی پر مشتمل ہیں۔

خود وزیر اعظم صاحب روحانیت کو سپر سائنس بناتے ہوئے ہر وقت ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر غیبی طاقتوں کی اعانت کے ذریعے حکومت چلا تے دکھائے دیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلٰی سائیں عثمان بردار سمیت زیادہ تر وزرا اور مشیران درویش منش اور نہا یت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔

جنرل مشرف کی ق لیگ اور آصف علی زرداری کی پی پی سے ہوتی ہوئی عمران خان کی پی ٹی آئی تک پہنچنے والی فردوس عاشق کا نام بھی ان کے ڈیرے پر پڑے رہنے والے ”سائیں فردوس“ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ موصوفہ کے مطابق انہیں بچپن میں ماڈلنگ کا شوق تھا مگر بھاری بھرکم جثے اور مردانہ ہیئت کی وجہ سے ماڈلنگ میں تو اپنا سکّہ نہیں منوا سکیں البتہ سیاست میں آ کر شوقیہ اداکاری میں ضرور نام کمایا۔ جس پارٹی میں بھی گئیں اس کے سربراہ کی شان میں پورے خشوع و خضوع سے اس کمال کی نثری قصیدہ خوانی کی کہ سب عش عش کر اٹھے۔

سیّد پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک سبھی نے اپنی پارٹیوں کے وفاداروں پر فردوس عاشق کو ترجیح دی۔ انہوں نے بھی ہر بار اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا اور سابقہ پارٹی چھوڑتے ہی اس کے سربراہ سمیت تمام قیادت پر پل پڑتی رہی ہیں۔ عمران خان کو بھی ان کی یہی خوبی پسند آئی تھی جس کی وجہ سے پارٹی کے اہم اور سرکردہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود انہیں مشیر اطلاعات کا منصب عطا کیا گیا تھا۔

بر سبیل تذکرہ سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ فردوس عاشق کو ایک مدت کی سیاسی سیاحت کے بعد بمشکل تمام اپنے مزاج اور موڈ کی پارٹی ملی تھی جس کے پلیٹ فارم سے وہ اپنی خوابیدہ اور پوشیدہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر نے لگی تھیں۔ وہی سب و شتم، الزام تراشی و اتہام بازی، فحش نگاری و بد کلامی اور فضول گفتاری و یاوہ گوئی جو حکمران پارٹی کے قائدین و کارکنان کا خاصا ہے، فردوس صاحبہ نے اس کو خوب برتا ہے۔

زرداری صاحب نے جن کو سیاسی اداکار کہا تھا، موجودہ حکمران پارٹی ا داکاری اور ریاکاری میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ حقیقی اداکار اداکاری عبادت سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ تسبیح بردار حکمران عبادت کو بھی اداکاری بنا رہے ہیں۔ فردوس عاشق کی وزارت سے رخصتی اکثر لوگوں کے لیے اچنبھے کی بات ہے۔ وزارت سے فراغت کے بعد وہ جہانگیر ترین کی طرح دم سادھ کر بیٹھنے کے بجائے خم ٹھونک کر میدان میں آ گئی ہیں اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

انہوں نے خود پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی پر زور تردید کی۔ نو نو بندے رکھنے کے الزام کے جواب میں انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں فرمایا کہ اتنے بندوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سب حاسدین اور مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ میری وزارت میں بہت سے لوگ بے جا مداخلت کرتے تھے۔ اس پر ہم عرض کریں گے کہ اگر وزارت اتنی بڑی اور پر کشش ہو تو لوگوں کو دخل اندازی کا موقع مل ہی جاتا ہے۔

وزارت سے نکالے جانے پر بے شمار چاہنے والوں نے ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ وہ سب کی شکر گزار ہیں سوائے اس کلموہی آٹھ بچوں کی ماں کے جس نے اس موقعے پر بھی انہیں فون کر کے ان کے زخم تازہ پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکا۔

انہوں نے دبی زبان میں وزیر اعظم سے بھی شکوہ کیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان کا اصل دکھ یہ ہے کہ درویشوں، روحانی بابوں اور پہنچے ہوئے بزرگوں کے دور میں جہاں وزیراعظم کے قریب ترین ساتھی آٹے، چینی، بجلی، گیس اور ادویات پر اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگاتے تھے وہاں دس ماہ میں اگر ”سائیں“ فردوس عاشق نے اگر بارہ پندرہ کروڑ کی دیہاڑی لگا بھی لی ہو تو کون سی قیامت آ گئی تھی؟

انہوں نے اپنی اہمیت جتلاتے ہوئے کہا کہ جس مشکل اور عظیم وزارت کا بوجھ انہوں نے تن تنہا اٹھا رکھا تھا اب خان صاحب کو اسے سنبھالنے کے لیے دو بندے رکھنا پڑے ہیں۔ ایک سادہ اور دوسرا سادہ کپڑوں میں ملبوس۔ ممکن ہے کہ انہوں نے دل ہی دل میں یہ دعا بھی مانگی ہو کہ جس نے میری جگہ باجوہ صاحب کو بٹھایا، اللہ کرے اس کی جگہ کوئی اس سے بھی بڑا باجوہ آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments