سورج کی موت


سورج اچانک یکایک کسی لمحے اور سیکنڈ کے کسی حصے میں بجھ گیا۔ کروڑوں میل دور عظیم سورج پر ایک ایسا شدید دھماکہ ہوا کہ پورا شمسی نظام ہل کر رہ گیا تھا۔ دھماکہ اس قدر شدید اور اتنا طاقتور تھا کہ سورج خود اس دھماکے کو نہیں سہہ سکا اور فوری طور پر شدید آگ کے لاکھوں بڑے بڑے گرم ترین گولوں میں تقسیم ہوکر ہزاروں میل کی رفتار سے اپنے ہی شمسی نظام کو چھوڑ کر ہماری کہکشاں کے گہرائیوں سے نکل کر کائنات کے لامتناہی انجان سفر پر روانہ ہوگیا۔ شاید کسی نے بھی، کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہوگا یا ایسا ہوسکتا ہے، ایسا ہونے والا ہے مگر ایسا ہوچکا تھا۔

سورج جو سڑسٹھ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے کائنات میں کہکشاں کے ساتھ اپنے نوسیاروں کو لے کر انجانی سمت میں مسلسل ہزارہا کروڑوں سال سے چلا جا رہا تھا، جب بکھرا تو بکھرتا ہی چلا گیا۔ نو کے نو سیارے بشمول زمین سورج کی قید سے آزاد ہوچکے تھے۔ اب ان کا کوئی مدار نہیں تھا، وہ کسی سورج کے تابع نہیں تھے۔ انہیں کسی طاقت کا طواف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سب آزاد تھے، کروڑوں اربوں سالوں کی غلامی کا طوق بکھر گیا تھا۔

تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں جس زاویے پر تھے اسی زاویے پر سیدھے اسی رفتار سے بھاگ نکلے تھے جیسے کسی پتھر کو کسی رسی کے ذریعے گول گول گھما کر چھوڑدیا جائے تو وہ گھومنا بند ہوجاتا ہے مگر ایک خاص زاویے پر دور تک سیدھا چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ زمین کی کشش اسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ نظام شمسی کے سیاروں کے لیے کوئی اور کشش نہیں تھی جو جس سمت میں تھا اسی سمت میں روانہ ہوگیا تھا، کچھ پتا نہیں تھا کہ آئندہ ہزاروں لاکھوں کروڑوں سالوں میں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔

شاید اپنی ہی کہکشاں میں کسی اور سورج کے مدار میں داخل ہوکر اس سورج کے غلام بن جائیں۔ شاید کسی اور سورج کی کشش سے مغلوب ہوکر اس میں گر کر اس کا ایندھن بن جائیں۔ کسی عظیم ترین بلیک ہول کے رب سے گزریں اور وہ اسے مناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لے جہاں وہ کسی اور عظیم ادثے کے انتظار میں قید ہوجائیں۔ شاید کائنات میں بکھرے ہوئے سورجوں کے سیاروں سے یا کسی اور انجانے گمنام سیارے سے ٹکرا کر خود بھی پاش پاش ہوں اور انہیں بھی پاش پاش کردیں اور ہزاروں لاکھوں دمدار ستارے کی شکل اختیار کرلیں۔ شاید اس کہکشاں کو چھوڑ کر لامتناہی خلا میں موجود ارب ہا ارب کہکشاؤں میں جا کر ان کا ایندھن بن جائیں یا ان کے کسی بڑے سورج کے مدار میں داخل ہوکر ان کی زمین ان کا چاند بن جائیں۔ لامتناہی کائنات میں اربہا ارب سالوں سے یہی کچھ ہورہا ہے اور ارب ہا ارب سالوں تک ہی ہوتا رہے گا۔

سورج کے بجھتے ہی چاند بھی بجھ کر بڑی تیزی سے غائب ہوگیا تھا۔ چاند کے غائب ہوتے ہی زمین کا سمندر چاروں طرف سے سکڑ کر ایک بہت بڑی پالتو جھیل بن گیا۔ لاکھوں ایکڑ زمین خشک ہوگئی اور لاکھوں سمندری جانور، عجیب و غریب مخلوق اور ہزارہا نسل کی مچھلیاں خشک زمین پر موت کا شکار ہوگئی تھیں۔ وسیع عریض سمندر کے لاکھوں جانوروں کے لیے اس چھوٹی سی جھیل میں جگہ نہیں تھی۔

اس نے سوچا تھا کہ اب آٹھ منٹ میں جب سورج کی آخری کرنیں زمین پر پہنچ کر ختم ہوجائیں گی تو زمین تیزی سے ٹھنڈی ہوتی چلی جائے گی۔ باقی ماندہ سمندر، دنیا میں موجود جھیلیں اور دریا تیزی سے برف بن جائیں گے۔ اوپر کئی فٹ برف بننے کے بعد نیچے جو گرمی ہے اس گرمی سے کچھ سالوں تک پانی پانی کی طرح رہے گا اور جب تک پانی رہے گا اس وقت تک آبی حیات زندہ رہے گی پھر آہستہ آہستہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ کبھی کسی نے خواب میں نہیں دیکھا تھا کہ سمندر کے اندر سمندری حیات کا اس طرح سے خاتمہ ہوجائے گا۔

اس نے سوچا تھا کہ کاش انسانوں کو پتا ہوتا کہ سورج پر یہ ہونے والا ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے تمام آلات آسمانوں کو کھنگھالنے والی تمام رصدگاہیں، خلا میں گردش کرتے ہوئے سیارے اور دوربینیں انسانوں کو نہیں بتاسکی تھیں کہ سورج پر اتنا بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔ سورج بجھنے والا ہے، کسی بلب کسی ٹیوب لائٹ، کسی قمقمہ، کسی دیے، کسی موم بتی، کسی چراغ کی طرح آخری دفعہ بھڑک کر ہمیشہ کے لیے بجھنے والا ہے، ختم ہونے والا ہے۔ بڑے بڑے بے شمار ذرّوں کی صورت میں بکھرنے والا ہے۔

اس نے سوچا تھا کہ اگر پتا ہوتا تو انسان کچھ کرلیتا۔ ایٹم کی انرجی کے دیو کو اس نے قابو میں کرلیا تھا۔ بے شمار جگہوں پر اٹامک انرجی کے پلانٹ لگائے جاسکتے تھے جن سے مستقل طور پر زمین کو گرم رکھا جاسکتا تھا۔ ایک بہت بڑے اٹامک انرجی کے پلانٹ کو زمین کے مدار پر بنا کر زمین کے گرد گھمایا جاسکتا تھا جو زمین کو مستقل طور پر سورج کی طرح گرمائش مہیا کرسکتا تھا۔ اگر جو کچھ سالوں پہلے پتا ہوتا کہ سورج زمین کو دھتکار کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر جائے گا تو انسان میں تو اتنی صلاحیت تھی کہ اپنے ساتھ کئی طرح کے زمینی اورآبی حیات کو بچالیتا، درختوں کو تباہ نہیں ہونے دیتا۔

زمین پر تو بہت بڑی مقدار میں وہ تمام معدنیات موجود ہیں جن سے ایٹمی توانائی لامحدود وقت کے لیے حاصل کی جاسکتی تھی اس وقت تک، جب تک زمین اپنے اس نئے سفر کے دوران کسی اور شمسی نظام کا حصہ بن جاتی، یا کسی اور کہکشاں کے قابو میں آجاتی، یا کسی سیارے، کسی سورج سے ٹکرا کر ختم ہوجاتی۔ انسانوں کو تو موقع ہی نہیں ملا۔ اس نے بڑے درد سے سوچا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید ٹھنڈک کی ایک لہر سرایت کرتی چلی گئی تھی۔ سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔

اسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس دفعہ انسان کو موقع نہیں ملا لیکن ساتھ ہی اس نے سوچا کہ جب موقع ملا تھا تو انسانوں نے ہی زمین پر رہنے والے چرندپرند، زمین کوزندگی دینے والے درختوں جنگلوں، ندی نالوں، دریا، جھیلوں، آبشاروں، کارزاروں، سب کو تباہ کردیا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے جیسے انسانں کو بھی۔ کبھی مذہب، کبھی رنگ، کبھی نسل اور کبھی زبان کے نام پرتاراج کیا تھا۔ ایٹم بم کا دھماکہ کرکے لاکھوں انسان ماردیئے، جراثیم کی جنگ چھیڑ کربچوں کو موت کی نیند سلادیا، کیمیائی عناصر سے زمین پر بسنے والے حیاتیات کو تباہ کردیا، یہاں تک کہ انسانوں کو ہی غلام اور عورتوں بچیوں کوفخریہ پامال کیا۔ اسے رونا آگیا تھا۔

بحیثیت سائنس دان اسے پتا تھا کہ پچھلے چند دھائیوں میں انسان نے مادّی سائنس میں جو ترقی کی ہے اس سے تو وہ ایک الگ دنیا بناسکتا تھا۔ زمین کے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ سمندروں کی سطح پر بھی اور سمندر کی گہرائیوں میں بھی مگرایسا ہو نہیں سکا۔ انسانوں کے بنائے ہوئے تمام آلات نے انسانوں کو بڑا دھوکہ دے دیا تھا۔ رونے کے ساتھ اسے شدید غصہ آیا مگراب تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔

سورج کی آخری کرن اور چاند کے غائب ہونے کے بعد دنیا کو پہلے تو شدید اندھیرے نے گھیرلیا تھا پھر آہستہ آہستہ حدنظر تک نظر آنے والے ستاروں کی روشنی آنا شروع ہوگئی تھی، تاروں سے بھرا ہوا ایسا آسمان کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ کائنات کے ہر سمت کی گہرائیوں میں موجود ستارے اپنی چمک دمک سے عجیب منظر دکھارہے تھے، زمین کے چاروں طرف اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے حدِّنظر تک اوران سب کے اندر زمین سورج سے آزاد ہوکر تیزی سے کہیں چلی جارہی تھی، بغیر ابتدا اور انتہا کے۔ وقت سے بے نیاز، حکم سے بے خبر، جبر سے آزاد، قدر سے بے فکر۔

اس طویل سفر کے آغاز کے ساتھ ہی سردی بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔ اسے پتا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں ہر چیز سرد ہوتی چلی جائے گی۔ درجہ حرارت کتنا کم ہوگا اس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں تھا اسے پتہ تھا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی سردی سب سے پہلے جانوروں کو قتل کردے گی اور اس کے تھوڑی دیر کے بعد انسان بھی مرنے شروع ہوجائیں گے پھر درخت جنگل آبی حیات کا خاتمہ ہوگا، دریا اورسمندر کسی دھات سے بھی سخت برف میں ڈھل جائیں گے۔

اس نے گھبرا کر ٹیلی ویژن کے بٹن دبانے شروع کردیے تھے اس امید کے ساتھ کہ کچھ پتا چلے کہ سورج کی موت کے بعد کیا ہورہا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک کیا کررہے ہیں؟ اقوام متحدہ نے کوئی لائحہ عمل بنایا ہے کہ نہیں؟ کیا زمین، انسان، حیوان سب تباہ ہوجائیں گے؟ اس کے سر کے اندر جیسے جنگل اُگ رہے تھے مگر زیادہ تر چینلوں پر معمول کے مطابق پروگرام ہورہے تھے، وہی پروگرام جو روز ہوتے ہیں۔

اس کے پسینے چھوٹنے لگے تھے۔ موت آہستہ آہستہ اس کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ اسے اپنے مرے ہوئے ماں باپ کا خیال آیا، بیوی بچے یاد آئے، دوست رشتہ دار سب کے سب برف کے سانچوں میں ڈھلنے والے تھے۔ ایک ایسے سیارہ پر جو زمین کہلاتی تھی، اب برف میں ڈھلی ہوئی یہ زمین بغیر کسی منزل کے تیزی سے کسی سمت میں چلی جارہی تھی۔ اس کے آنسو نکل آئے تھے اور اسے لگا تھا جیسے اس کے پیر بالکل ٹھنڈے ہوگئے ہیں۔

ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ لحاف اس کے بدن سے کھسک کر زمین پر پڑا تھا۔ اس کے سرد پیر سخت سردی میں وہ تھرتھرا رہے تھے۔ سردی کے باوجود اس کا بدن پسینے میں شرابور تھا۔ دور سے آنے والے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز نے اسے زندگی کا پیغام دیا۔ اس نے ہاتھ نیچے کرکے لحاف کو کھینچ کر اپنی ٹانگوں کو اس کے اندر سمودیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments