ڈاکٹر کی ڈائری


محنت دیسی ماؤں کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ہم سب نے ہی گھروں میں اپنی ماؤں کو بے تحاشا کام کرتے دیکھا ہوا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیال بھی پختہ ہوتا جاتا ہے کہ اکثر انتہائی ضروری سمجھے جانے والے تہایت محنت طلب کام بالکل غیر ضروری تھے۔ یا کم مشقت اور کم وقت میں بھی کیے جا سکتے تھے۔ اکثر گھروں میں صفائیاں ستھرائیاں شروع ہوتی تھیں تو اتنی باریک بینی سے ہوتی تھی کہ ہمت کے ساتھ برداشت بھی جواب دینے لگتی۔

میرے بہت بچپن کی یادوں میں محفوظ ہے کہ ہم عید کرنے گاؤں جاتے تھے، عید سے ایک دو دن پہلے کمروں میں موجود سیمنٹ کے بنے ریکس پر تانبے اور پیتل کے ترتیب سے سجائے برتنوں کو، (جو کہ کبھی استعمال نہیں ہوتے تھے ) سرف، لیموں ہلدی اور مختلف ٹو ٹکے کر کے چمکا کر صاف کر کے دھویا جاتا۔ میں اس وقت بھی سوچتی تھی کہ ان برتنوں کو شوکیس یا الماریوں میں کیوں نہیں رکھا جاتا کہ مٹی پڑنے کا چانس ذرا کم ہو۔ اور اتنا رگڑ کر ٹوٹکے کر کے دھونے کی ضرورت کیا ہے جبکہ استعمال تو کبھی ہونے نہیں ہیں۔

ہمارے گھر سال بھر کی گندم گاؤں سے آیا کرتی تھی۔ ایکدن والدہ گندم کھول کر گھر کے صحن میں پھیلاتیں اور گھر کے سب بچوں کو کنکر، مٹی کے چھوٹے ڈھیلے اور گندم کے خراب دانے چننے پر لگا دیتیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ ہوتا کہ پھر والدہ گندم کو دھوتیں، اور چھت پر پڑی چارپائیوں پر کپڑے بچھا کر وہ گندم سکھاتیں، اور چھت تک اس گندم کی ٹرانسپورٹ مطلب مختلف برتنوں میں بھر کر لے جانا بھی، بچوں کا کام ہوتا۔

حالانکہ بھائی اکثر کہا کرتے کہ چکی والوں کے پاس صفائی کی بڑی مشینیں ہوتیں ہیں وہ بہتر صفائی کر دیں گے۔ مگر والدہ نہ مانتیں کہ مشینوں کی صفائی کا کیا اعتبار۔

اسی طرح کسی دن بچوں کو لحافوں کے ڈورے نکالنے پر لگا دیا جاتا، مشکل سے ڈورے نکالے جاتے پھر لحافوں کے کور اتار کر دھوئے جاتے، اور پھر والدہ کور چڑھا کر دوبارہ سلائی کرتیں۔

میرے لئے ایک اور محنت طلب کام جو مجھے یاد ہے وہ لوبیا کی پھلیوں سے دانے نکالنا تھا۔

( ہم جوائنٹ فیملی میں نہیں رہتے تھے مگر سندھ کے کلچر میں ایک خوبصورت بات یہ بھی تھی کہ اگر کوئی ایک شخص پڑھ لکھ کر اچھی نوکری لگ جائے اور شہر میں آ بسے تو اس کی خود ساختہ ذمہ داری ہوتی کہ گاؤں میں رہنے والے اپنے بھائی بہن کے بچوں کو شہر میں اپنے گھر میں رکھے تاکہ ان کے لئے تعلیم کا حصول آسان ہو۔ ہمارے گھر میں بھی ہمارے چھ عدد کزنز رہتے تھے۔)

تو اتنے زیادہ لوگوں کے لئے کھانا بھی زیادہ بنتا۔ ماشاءاللہ۔ مگر دو ڈھائی کلو لوبیا میں سے دانے نکالنا یا کافی سارا لہسن چھیلنا انتہائی تکیف دہ ہوتا۔ (اس وقت لہسن بھی شاید خالص ہوتا تھا، چھیلا ہی نہیں جاتا تھا)۔ اسی طرح گاجر کا حلوہ بنانے کے لئے جب پانچ کلو اور اکثر اس سے بھی زیادہ گاجروں کو کدو کش کرنا پڑتا تو۔ افففف۔

آج جب میں مختلف برینڈز اور کم زیادہ قیمت کے مختلف کوالٹی کے لحاف دیکھتی ہوں، ہر طرح کی گندم، چکی سے بہترین صاف کی ہوئی، اور لوبیا کے پیکٹ میں بند خشک دانے، فریز کیے دانے اور فریش سبزیاں کاٹنے کے لئے مختلف طرح کے کٹر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں۔ کہ وقت گزرنے کے ساتھ، جب تعلیم کے ساتھ ساتھ ایکپوژر بھی زیادہ ہو اور وسائل بھی تو سمجھ آتی ہے کہ بہت سارے بظاہر مشکل نظر آنے والے وقت طلب کام اسانی سے کیے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments