تختی سے وائٹ بورڈ تک کا سفر


اگر ہم آج سے بیس پچیس سال پیچھے چلے جائیں۔ تو ہمیں ایک ایسا زمانہ دیکھنے کو ملے گا۔ جہاں لوگ سادہ، معاشرہ خوشحال، اساتذہ محنت کش اور بچے فرمانبردار نظر آتے تھے۔ اک ایسا تعلیمی دور دیکھنے کو ملے گا جب قلم دوات کا دور تھا۔ جب تختیاں پوچی جاتی تھیں۔ جہاں استاد بچوں کو پکی پنسل جسے عموماً ہم ”بال پن“ کہتے ہیں، کا استعمال اس لیے نہیں کرنے دیتے تھے کہ اس کے استعمال سے لکھائی گندی ہو جاتی ہے۔ عموماً پانچویں جماعت میں پہنچ کر قلم ہاتھ سے پکڑ کر سیاہی ولا پن تھمایا جاتا تھا۔ جس کو آدھا دن سیاہی بھرنے میں ہی گزر جایا کرتا تھا۔ بچے اسکول سے آتے ہی تھوڑا آرام کرنے کے بعد تختیاں پوچ کر دھوپ میں سکنے ”خشک“ ہونے کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اک ایسا زمانہ جب بچے استاد کے ڈر سے استاد کو گلی میں آتا دیکھ کر گلی تبدیل کر جایا کرتے تھے۔

اک ایسا دور جہاں نمبر کم لیکن علم زیادہ ملتا تھا۔ جہاں اساتذہ یہ سوچ کر بچوں کو نمبر کم دیتے تھے۔ کہیں بچہ زیادہ نمبر لے کر خود کو ماہان سمجھ کر گھمنڈی بن کر پڑھنا نہ چھوڑ دے۔

جہاں بچے اسکول سے پٹنے کے بعد گھر آ کر اس لیے مار کھانے کا نہیں بتاتے تھے، کہیں اور پٹائی نہ ہو جائے۔ جہاں مائیں خود اسکول میں جا کر ماسٹر صاحب کو کہہ آتی تھیں۔ ماسٹر جی یہ آج سے ہمارا بچہ نہیں آپ کا بچہ ہے۔ بیشک اس کی کھال ادھیڑ کے رکھ دیں۔ ہم اف تک نہ کریں گے۔ کیونکہ اس وقت استاد کی مار کو بچوں کی صحیح تربیت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ جس دور کے بچے واقع عقل اور شکل دونوں سے بچے تھے۔ استاد سے مار کھا کر دوستوں میں فخر سے بتاتے تھے۔ آج میری یہ جگہ بخش دی گئی ہے۔ کیونکہ اس وقت استاد کی مار کو بخشش سمجھا جاتا تھا۔

رمضان آتے ہی مجال ہے جو کسی گھر میں دن کے وقت دھواں نکل جائے۔ اگر بھولے بھٹکے سے کہیں دھواں نظر آ جائے سہی۔ چاروں طرف سے اسے لعن طعن پڑتی تھی۔ جب مائیں بچوں کی روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے کے لئے چڑی روزہ کا لالچ دیا کرتی تھیں۔ جب چڑی بولی تو تم روزہ افطار کر لینا۔ آدھ رمضان گزرتے ہی دوستوں رشتہ داروں سہیلیوں کے مابین خط لینے دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ جو عید کے روز تک جاری رہتا تھا۔ سہیلیاں سکھیاں خوشی بخوشی ایک دوجے کے لئے میک اپ اور رنگ برنگی چوڑیاں خریدا کرتی تھیں۔

ڈبے میں ڈبا ڈبے میں کیک
میرا یار لاکھوں میں ایک

جب ایسے سادہ فہم شعر یاد کرنے لکھنے اور اک دوجے کو بھیجنے کا دور تھا۔ جب بچے شب برات کی خوشی میں رات دیر تک پٹاخے چلاتے تھے۔ گلی محلے کوچوں میں شادیانے بجتے تھے۔ جب کلی باندری اور ککلی کلیر دی تے پگ میرے ویر دی جیسے لوک کھیل مل بیٹھ کر کھیلے جاتے تھے۔ ہر محلے میں ایک پی۔ سی۔ او کی دکان ہوا کرتی تھی۔ جہاں سے دوسرے شہر گاؤں میں بسنے والے اپنے پیاروں سے روابط رکھا جاتا تھا۔ کال ایک کی آتی تھی لیکن اس ایک کال کی خبر ایک اعلان کے ذریعے پورے محلے کو ہوتی تھی۔

کتنا سہانہ دور ہوتا تھا۔ جب نفرت نامی بیماری کا نام تک نہ تھا۔ صرف محبتیں بانٹی جاتی تھیں۔ دکھ حسد کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔

پھر نجانے کب کیسے اور کیوں وقت نے ایسی کروٹ بدلی۔ سب کچھ ہی بدل گیا۔ آہستہ آہستہ مکان پکے، رنگ برنگے لیکن رشتے کچے اور پھیکے پڑنے لگے۔ دیکھا دیکھی ماسٹر جی کی جگہ پرنسپل نے لے لی۔ پی۔ سی۔ او کو سیل فون سے تبدیل کر دیا گیا۔ آئے دن نت نئی ایجادات ہونے لگیں۔ پٹاخے چلانے والے بچے بڑے ہو کر ایٹم بم چلانا سیکھ گئے۔ الف انار ب بکری والے قاعدے میں بکری کے ساتھ گوٹ کا استعمال ہونے لگا۔

ڈگری کالج کی جگہ یونورسٹی نے لے لی۔ بچوں کو مار نہیں پیار کی لت لگا دی گئی، جس کے بل بوتے ان کے دل سے آتے دن اساتذہ کا عزت و احترام یوں ناپید ہوا۔ جیسے دنیا سے ڈائنوسار ناپید ہو گئے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کو اللہ کا نام سکھانے کی بجائے ہاتھ میں ٹیبلٹ پکڑا دیا گیا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بچے اپنے فیصلے خود کرنے لگ گئے۔ حق تو یہ تھا بچے ماں باپ سے ڈرتے۔ لیکن یہاں الٹ ہو چلا ماں باپ بچوں سے ڈرنے لگ گئے۔ ہائی سٹینڈرڈ اسکول کالج نے گورنمنٹ اسکول اور کالج کا سٹینڈرڈ ڈاؤن کر دیا۔

کچی پنسل کو صرف ڈرائنگ بنانے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ بلیک بورڈ اور چاک کی جگہ وائٹ بورڈ اور بلیک مارکر نے لے لی۔ استاد بچوں کو اس ڈر سے مارنے سے ہٹ گئے کہیں اس نے گھر جا کر بتا دیا۔ میں جاب سے جاؤں گا۔ پروفیسرز کو کالج سے گھر جاتے اس لیے مارا پیٹا گیا کیونکہ اس نے کالج ٹائم کلاس لیتے ایک بچے کو ڈانٹا تھا۔

ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سناتا ہوں اپنے جاہل عوام اور گھٹیا و کمتر سوچ رکھنے والی عوام کا۔

کالج کے زمانے میں ہمارے کالج میں ایک دفعہ ایک اشو بن گیا۔ ایک پروفیسر نے بچے کو تھپڑ مار دیا کیونکہ اس بچے نے کلاس میں ان ٹائم پروفیسر کو گالی دی تھی۔ اس بچے نے بیگ اٹھایا اور گھر کو چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہی بچہ اپنی ماما کے ساتھ واپس کالج میں داخل ہوتا نظر آیا۔ اس کی ماما نے پرنسپل آفس میں پروفیسر کو بلوا کر اس کی بے عزتی کی۔ نہ صرف بے عزتی کی بلکہ یہ بھی کہا پھر میرے بچے کو ہاتھ لگایا تو جاب سے نکلوا دوں گی۔

بچوں کو یوں ڈھیل دینا اس میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس ماں کا حق تو یوں تھا۔ بچے کو کان سے پکڑتی دو اور لگاتی پھر اس میں ایسی حرکت کرنے کی جرات پیدا نہ ہوتی۔ مگر ہم نے لاڈ پیار کے نام پر اپنے ہاتھوں ہی اپنی اولاد کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ پھر ایسی اولاد سے عزت و احترام اور سیوا کی امید رکھنا بہت بڑی بے وقوفی ہے۔

سچ پوچھو تو ایڈوانسمنٹ کے نام پر ہم نے اپنی اصلیت کھو دی۔ ہم کیا تھے کیا ہو گئے کیسے ہو گئے کسی کو کچھ خبر نہیں کچھ فکر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments