حسن منظر کا ناولٹ ”وبا“ (ایک بیانیہ)۔


گزشتہ پچاس سال میں اردو ادب کے ایسے قلم کار جن کا بنیادی تعلق طب کے شعبے سے رہا بہت اچھا ادب تخلیق کرچکے ہیں۔ ان میں تین نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن منظر، ڈاکٹر شیر شاہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخی، تینوں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر بھی ہیں اور مصنف بھی۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے شاندار افسانے لکھے اور ترجمے کیے۔ اس کے علاوہ ایک ادبی مجلہ بھی نکالتے رہے۔ پھر ادبی میلوں کوپاکستان میں متعارف کرایا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید نے اپنے افسانوں سے بہت جلد ادبی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ خاص پر 2005 کے زلزلے کے بعد ان کے ذاتی تجربات پر مبنی افسانے ہمیں ضرور پڑھنے چاہئیں خاص طور پر افسانوں کا مجموعہ ”دل میرا بالا کوٹ“ اس میں ہمیں زلزلے کی تباہ کاریوں کا آنکھوں دیکھا حال بھی ملتا ہے اور اس کے بعد کے واقعات میں انسانی رویوں کی عظمت اور خباثت دونوں نظر آتے ہیں۔

لیکن یہاں ہم ڈاکٹر حسن منظر کے ناولٹ ”وبا“ پر کچھ بات کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے خود حسن منظرکا مختصر تعارف۔ حسن منظر اس وقت چھیاسی برس کے ہیں اور اب بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی ولادت 1934 میں یوپی میں ہوئی اور انہوں نے ابتدائی تعلیم مراد آباد سے حاصل کی۔ تیرہ سال کی عمر میں لاہور آگئے اور ایم بی بی ایس کرنے کے بعد نہ صرف پاکستان بل کہ دنیا کے کئی ممالک میں طبی خدمات انجام دیں۔ اس دوران ادب سے شغف جاری رہا اور انہوں نے تقریباً پچاس سال کی عمر میں اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”رہائی“ شائع کیا۔ اب تک ان کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور کئی ناول جن میں ”العاصفہ“ اور ”دھنی بخش کے بیٹے“ شامل ہیں۔

ان کے زیر نظر ناولٹ ”وبا“ جسے وہ اپنا ایک بیانیہ قرار دیتے ہیں ایک ہسپتال کی کہانی ہے جو 1960 کے عشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ گوکہ اس کہانی میں کسی سن کا ذکر نہیں ہے مگر بیانیے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ 1960 کے عشرے کے اوائل کی بات ہے جب کراچی میں مختلف وبائیں پھوٹا کرتی تھیں۔

حسن منظر نے 2008 میں لکھے جانے والے اس کے انتساب میں لکھا ہے ”اس عالمی وبا سے جنگ کرنے والوں کے نام جس نے کم زور نہتے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے“ آج کے دور کی کرونا کی وبا کیا کم زور اور کیا طاقت ور سب ممالک کو اپنی زد میں لے چکی ہے اور حسن منظر کے اس ناول سے ہمیں طب کے پیشے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر، نرسوں اور دیگر عملے کی محنت اور جانفشانی کا اندازہ ہوتا ہے

اس بیانیے کے شروع میں ہمیں ایک ایسے سرکاری ہسپتال کا احوال ملتا ہے جہاں گردن توڑ بخار اور چیچک کے مریض کا تانتابندھا ہے اور ڈاکٹر اور نرسیں اس صورت حال سے بمشکل مقابلے کررہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پچاس قبل بھی پاکستان میں لوگوں کے رویے غیر سائنسی اور توہمات پرمبنی تھے۔ اکثر والدین مریض کو ایسے حالت میں ہسپتال لاتے جب اس کی حالت انتہائی خراب ہوچکی ہوتی۔ اس سے قبل وہ جادو ٹونے، تعویذ گنڈے، دم درود اور جنتر منتر کراچکے ہوتے اور پھر مریض جب قریب المرگ ہوتے تو ہسپتال پہنچتے۔

نہ صرف مریض اور ان کے اقارب بل کہ حسن منظر ہمیں بتاتے ہیں کہ خاصے پڑھے لکھے لوگ حتیٰ کہ ڈاکٹر بھی غیر سائنسی رویوں کا شکار نظر آتے اور کئی ڈاکٹر طب کی سند لینے کے باوجود طب کی بنیادی بنیادی باتوں سے متفق نہیں ہوتے یا پھر ان پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

مثلاً حسن منظر لکھتے ہیں۔

”کوڑھیوں کے ہسپتال کے انچارج ڈاکٹرسمیع اللہ چیچک کے ٹیکے پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔ ان کی پشتوں میں اور ان کے گھرانے میں کبھی کسی نے ٹیکا نہیں لگوایا کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد چیچک نکلتی ہے لیکن اگر کسی کو چیچک ایک بار ہوجائے پھر ساری عمر چیچک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی“

”ڈاکٹر سمیع اللہ اگر ملک کے وزیر صحت ہوں تو ممکن ہے ٹیکا لگانے کا سسٹم ختم کردیں اور یہ حقیقت ہے کہ چیچک کی وبا اب کتنی بھی شدت اختیار کرے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے نہ ان کی بیٹی مہر النساءکا (صفحہ نمبر گیارہ)

اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل کرونا کی وبا کے مقابلے میں پاکستان میں ہم جن جاہلانہ رویوں کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں ان کی جڑیں بڑی گہری ہیں اور اب بھی کئی ڈاکٹر آپ کو دوا کے ساتھ ساتھ جنتر منتر پڑھنے کے مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔

حسن منظر کے بیانیے میں ہمیں پاکستان کے ایک ہسپتال نظر آتا ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اصل ناموں سے کام کرتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ اس میں فرانسس بھی ہیں اور لولو بھی، ڈاکٹر مصطفی بھی ہیں اور ڈاکٹر انیس بھی۔ ایک نرس سسٹر ہاشمی ہیں جو تقسیم سے قبل شانتا ہوتی تھیں۔ وہ ایک مرہٹا ہیں لیکن اب سارہ ہاشمی بن چکی ہیں۔ ایک مسیحی سسٹر رتھ ہیں تو ایک یہودی سسٹر حنہ۔ یہ وہ دور تھا جب نرسوں کو تمیز کے ساتھ سسٹر کہہ کر بلایا جاتا ہے اور انہیں نرس نہیں کہا جاتا تھا نہ ہی کسی کو ان میں انجکشن لگنے کے بعد حوریں نظر آتی تھیں۔ ماحول باہمی رواداری اور مفاہمت کا تھا۔ جو پاکستان میں بتدریج ہوتا گیا یا ختم کردیا گیا۔

وبا امراض کے وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی ہیں حسن منظر لکھتے ہیں۔

” ڈاکٹر مصطفی کفایت شعار آدمی ہیں۔ شاید اسی وصف نے ان میں اور بیوی میں مواسنت کو بڑھنے سے عمر بھر روکے رکھا۔ بچے ہوئے آدھے انجکشن کو بھی نہیں پھینکا جاتا۔ ڈاکٹر مصطفی گورنمنٹ کے خرچے کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے وہ ان کی جیب سے جا رہا ہو۔“

آج پچاس سال بعد سرکاری ہسپتالوں میں کتنے ڈاکٹر ایسے ہوں گے جو سرکاری مال کی اتنی حفاظت کرتے ہوں۔ حسن منظر کا ناول پڑھتے ہوئے ہمیں جابجا ایسے مناظر ملتے ہیں جو تاریخ میں گم ہوگئے ہیں۔ مثلاً آج کے نئے ہسپتالوں میں یہودی نرسیں ہوں گی شاید ایک بھی نہیں۔ حسن منظر کے بیانیے میں جس یہودی سسٹر حنہ کا احوال ہے اس کے بارے میں یہ پڑھیے۔

”سسٹر حنہ اسرائیل جارہی ہے جہاں کا یہاں کا تجربہ کسی کام کا نہ ہوگا۔ اس کے جانے کے بعد یہاں کا (Synagogue) یعنی یہودی عبادت خانہ پتا نہیں کھلا رہے گا یا ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے گا۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے سسٹر حنہ اس شہر کی آخری یہودی ہے۔“

کراچی کے رہنے والے پرانے قارئین کو یاد ہوگا کہ لارنس روڈ (موجودہ نشتر روڈ) پر رنچھوڑ لائن کے قریب ایک یہودی معبد تھا جسے بعض لوگ اسرائیلی مسجد کہتے تھے۔ 1970 اور 1980 کے عشرے تک وہ عبادت خانہ بند پڑا تھا اور پھر خاصے عرصے کے بعد راقم کا وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہاں اب نیچے دکانیں اور اوپر فلیٹ بن چکے ہیں اور پرانے عبادت خانے کی باوقار عمارت کا نام و نشان نہ تھا۔ اس طرح ہم نے اپنے تاریخی ورثے کو تباہ کیا ہے اور اپنے معاشرے کی رنگا رنگ اور وسیع المشربی کو ختم کیا ہے حسن منظر کے بیانیے سے وہ تمام یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔

حسن منظرکے بیانیے میں ہمیں پچاس ساٹھ قبل کے کراچی میں استعمال ہوئے الفاظ بھی ملتے ہیں اور اس دور کے سماجی مسائل اور افراد کے ہالات بھی۔ ہسپتال کا ایک ملازم ہے جو ڈاکٹر مصطفیٰ کے بنگلے میں بجلی نہ ہونے کی صورت میں آتا ہے۔ لکھتے ہیں۔

”اندھیرا پڑنے پر یہی آدمی لالٹین کی چمنی چمکا کر اس میں گھانسلیٹ یعنی مٹی کا تیل ڈالتاہے۔ بتی کو کاٹ کر سیدھا کرتا ہے اور جلاکر برآمدے میں ٹانگ آتا ہے۔ ۔ ۔ سسٹر حنہ کو دیکھ کر وہ بھی خوش ہوتا ہے اور ہر بار پوچھتا ہے۔ سسٹر جی آپ اپنے ملک کب جاری ہیں؟ حالاں کہ اس ملک میں نہ سسٹرحنہ پیدا ہوئی نہ کبھی گئی۔“ (صفحہ نمبر 24 )

ڈاکٹر مصطفی ریٹائرڈ ہونے والے ہیں جس کا دکھ سارے اسٹاف کو ہے اس میں کوئی قید نہیں کہ کون کس مذہب کا ہے اور کون سی زبان بولنے والا ہے۔ سب نے کتنی ہی وباؤں کی یلغار کو ایک ساتھ جھیلا ہے جن کا ذکر گفت میں اس طرح آجاتا ہے جیسے کسی ملک کے حملے کا جس میں اتنے مرے تھے اتنے اپاہج اور لاپتا۔ حسن منظر کے الفاظ میں۔

”مثلامینجائی ٹس کا 1955 کا ریلا کتنے بچوں، بڑوں کو بہالے گیا تھا۔ بخارسے کھولتے جسم، الٹی کرتے ہوئے بچے، سردرد سے کراہتے ہوئے بڑے ہسپتال لائے جاتے تھے۔ کتنوں کو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ بڑوں تک کو ہوش نہیں ہوتا تھا۔ کون ہیں کہاں سے لائے گئے ہیں۔ ان کی ریڑھ کی نالی سے لیا جانے والا پانی تک گدلا ہوتا تھا۔“ (صفحہ نمبر 25 )

اس ناولٹ میں چیچک کی وبا کا تفصیلی بیان ہے کہ کس طرح مریضوں دانوں کی تکلیف برداشت کرتے کرتے زیادہ تر فوت ہوجاتے اور کچھ اندھے بھی۔

مثلاً ایک منظر میں ایک بوڑھا ایک کاغذ پکڑے بیٹھا ہے نرس کہتی ہے ”بابا صبح سے یہ کاغذ پکڑے بیٹھا ہے پوچھو تو کہتا ہے ڈاکٹر انیس کو دکھاؤں گا۔ ڈاکٹر انیس اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔

”معمولی سا کاغذ ہے۔ جیسے یہاں اڑتے پھرتے ہیں۔ جنہیں ویسٹ پیپر باسکٹ میں ڈال دیا جانا چاہیے تھا یا ویسے جن پر تیمارداروں کو لکھ کر دیا جاتا ہے بازار سے مریض کے لیے کیا لے آئیں : مینتھول پاؤڈر، بدبو دور کرنے کا لوشن، جہاں سے کھرنڈ جھڑ چکے ہیں۔ وہاں سلبلاہٹ دور کرنے کے لیے لگانے کا کوئی تیل۔

”ڈاکٹر انیس کاغذ کھول کر دیکھتا ہے اور اس میں دو پچکی ہوئی نیم شفاف چھوٹی چھوٹی گولیوں کو دیکھ کر بوڑھے کے چہرے کو۔ لیکن نرس جھٹکا کھاکر پیچھے ہٹ گئی اور کہتی ہے۔

”ڈاکٹر یہ صبح سے اپنے پوتے کی آنکھوں کے لینسوں کو لیے پھر رہا ہے جو آنکھوں کو پانی کے پھولوں سے صاف کیے جانے پر باہر نکل آئے تھے۔ ہر ایک سے کاغذ مانگتا پھرا۔ پھر نجانے کہاں سے یہ کاغذ اس کے ہاتھ آگیا اور اب آپ کو دیکھا جا رہا ہے۔“

ڈاکٹر انیس ایک بار پھر آنکھ کے موتیوں کودیکھتا ہے اور پھر بوڑھے کو۔
بوڑھا کہتا ہے۔ ”لڈن کے یہ پھر سے نہیں اگ جائیں گے؟“ ڈاکٹر نے مایوسی سے سرہلایا
”پھر تو وہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔“

ڈاکٹر انیس سے کوئی جواب بن نہیں پڑھا ہے بوڑھے کے رونے کے دو آنسو بھی نہیں بچے ہیں۔ پیر لٹائے وہیں کھڑا ہے۔ ”

حسن منظر کے ناولٹ ”وبا“ میں ایسے کئی منظر ہیں جنہیں پڑھ کر دل دل جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی امید بھی پیدا ہوتی ہے کہ پچھلے پچاس ساتھ برس میں میڈیکل سائنس کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ اب چیچک کو اس خطہ زمین سے دیس نکالا مل چکا ہے اور یہ بیماری سائنس نے ختم کردی ہے مگر ہم ہیں کہ اب بھی پاکستان میں پولیو جیسی بیماری کے ٹیکے لگانے سے انکار کررہے ہیں۔ اب 2020 میں افغانستان اور پاکستان غالباً دنیا کے واحد دو ممالک ہیں جہاں پولیو اب بھی باقی ہے اور اس کی وجہ ہماری سراسر جہالت اور ہٹ دھرمی ہے جس کے باعث ہم اپنا اور اپنے بچوں کا نقصان کررہے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی رویے ہمیں اب کرونا کی بیماری کے سلسلے میں دیکھنے کو مل رہے اور ایسے جاہلوں کی کمی نہیں جو کم کھلا کھلم لوگوں کو گمراہ کررہے اور کہتے ہیں کرونا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حسن منظر کے مطابق:

”مریض کو اس کے گھر والے اور فیملی ڈاکٹر یہاں جب لاتے ہیں جب گھر پر اس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے۔ ڈفتھیریا کی دبیز سفید جھلی نے سائنس کے آنے جانے کے لیے راہ ہی نہیں چھوڑی ہوتی ہے ٹیٹنس اور سگ گزیدگی کے بروقت ٹیکے لگنے کا وقت گزرچکا ہوتا ہے۔“ (صفحہ نمبر 29 )

اس ناولٹ میں اچانک ایک موڑ اس وقت آتا ہے جب اخبارات میں وبا کی خبریں لگتی ہیں اور مارشل لا حکام ایک دم جاگ جاتے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹر کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر انیس نے کہہ دیا کہ کہ وبا محکمہ صحت کی غفلت سے پھیلی ہے اور ہسپتال کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں یہ خبر چھپتے ہی بھونچال آجاتا ہے۔

ڈاکٹر انیس کے ذہن میں ایک ہی سین مختلف شکلوں میں بار بار مسلط ہوجاتا ہے :

”بریگیڈئیر مناف کے اوفس میں اسے بلایا گیا ہے جو روز مرہ کی زبان میں اس پر گرم ہورہا ہے کہ تمہارا خیال ہے صفائی کا انتظام ناقص ہے اور لوگوں کو Vaccinate نہیں کیا گیا ہے اس لیے شہر چیچک کی لپیٹ میں ہے!

اس خوف کی حالت میں بھی ڈاکٹر انیس کو اندر ہی اندر ہنسی آرہی ہے کہ وہ شخص کا جس کا علم ہتھیاروں اور جنگی نقشوں تک محددود ہے مجھ سے پبلک ہیلتھ کے بارے میں جرح کررہا ہے اس کے تو پڑاؤ میں اگر کسی کو مرا ہوا چوہا نظر آجائے تو طاعون کے ڈر سے بھاگنے والوں میں موصوف کی جیپ سب سے آگے ہوگی ”(صفحہ 38 )

پھر ہسپتال میں ایک دم چہل پہل ہوگئی۔ چمکتی ہوئی ایمبولینسیں آگئیں، چمکتے ہوئے بوٹ اور یونی فارم، ملٹری ہیٹ کے نیچے دبے خاکی وردی والے برآمد ہورہے ہیں۔ کاریں، ملٹری جیپیں اور لینڈر روور۔ ۔ ۔ لگتا تھا ہسپتال میں وکٹری ڈے منایا جا رہا ہے۔ ہسپتال کے باہر پریس والوں کی گاڑیاں تھین۔ فوجی ڈاکٹوں اور شہر کے مشہور کنسلٹنٹ، فزیشن وغیرہ۔

ڈاکٹروں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ وہ گردن توڑ بخار اور چیچک کا معائنہ یک ہی جگہ کررہے ہیں۔ اس طرح تو وبائیں پھیلیں گی بل کہ ایک بیماری والے کو دیگر بیماریاں بھی لگ جائیں گے۔

ڈاکٹر انیس نے کہا ”رجسٹریشن ٹیبل ایک ہے۔ نرسنگ اسٹاف ایک ہے۔ بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلہ ایک ہے۔ ڈاکٹر انیس نے اپنے اسٹے تھی اسکوپ کے چیٹ پیس کو تھپتھپاتے ہوئے کہا“ اوراس سے میں ہر مریض کا معائنہ کرتا ہوں۔ ”(صفحہ 41 )

حسن منظر نے اپنے ناولٹ میں ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح اس وقت بھی ہمارے ملک میں صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا جاتاتھا اور ہسپتالوں میں مطلوبہ وسائل نہیں تھے اور کس طرح اس وقت بھی ڈاکٹروں اور دیگر طب عملے کے ساتھ ہمارے رویے ہمدردانہ ہونے کے بجائے جارحانہ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت کے بجائے اب ڈاکٹر اپنی ذاتی پریکٹس اور دواخانوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

جس شعبے کو ملک کا بہترین شعبہ ہونا چاہیے اس کو وسائل کی کمی کا شکار کرکے پرائیویٹ ہسپتالوں کے سپرد کردیا گیا ہے، جہاں غریب عوام علاج توکجا معائنہ بھی نہیں کراسکتے۔ ایک ایک ماہر داکٹر صرف ایک مشورے کی فیس اب ہزاروں روپے میں لے رہے ہیں۔ حسن منظر لکھتے ہیں۔

”وبا جہاں اور تبدیلیاں لاتی ہے ایک دوسرے کے لیے غیر لوگوں کو نزدیک بھی لے آتی ہے۔ سماج میں مرتبے اور رکھ رکھاؤ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں دونوں ہی کے گزر جانے پر حساس طبع افراد کو خیال آتا ہے ایک ساکت بے حس معاشرے کے لیے شاید وبا بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی جنگ اور اس اچانک خیال کے دماغ سے گزر جانے پر سہم جاتے ہیں۔“ (صفحہ 42 )

اسی طرح حسن منظر ہمیں بتاتے ہیں کہ وارڈ کے پاس اتفاقی ضرورت کے لیے رقم اتنی کم ہوتی ہے کہ اس سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لکھتے ہیں۔

”وبا نہ آتی تو کسی وارڈ کی ڈبلیو سی ٹوٹ جانے پر ڈاکٹر مصطفی کو مہینوں ہیڈ اوفس سے خط و کتابت کرنی پڑتی۔ وہاں سے ایک ٹیم ٹوائلٹ کا معائنہ کرنے آتی، جاکر رپورٹ دیتی تب جاکر کہیں فیصلہ ہوتا کہ یہ کام“ اتفاقی رقوم ”سے نہیں کرایا جاسکتا۔ (صفحہ نمبر 43 )

حسن منظر کے ناولٹ کو غالباً سب سے دلچسپ بات اس میں موجود کرداروں کے رویوں کی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں کے رویے ان کے لواحقین کے رویے جو ڈاکٹر حسن منظر نے اپنی آنکھوں سے دیکھے انہیں قلم بند کردیا ہے ہمیں معلوم ہوتا ہے آج پچاس ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی کم و بیش رویے کم از کم عوام کی حد تک تو ویسے ہی ہیں۔ مثلاً یہ دیکھیے۔

”ٹیکے لگائے جاتے تو کئی لوگ کہتے ہمیں لگ چکا ہے اور جل دے کر بغیر لگوائے نکل جاتے۔ روز گھرں پر جاکر ٹیکے لگانے والے لوگوں کی بنتی کرتے رہے کہ ٹیکا لگواؤ اور چیچک سے محفوظ ہوجاؤ بری بلا ہے۔ پھر انہوں نے بھی جگہوں جگہوں پھرنا کردیا اور اس نتیجے پر پہنچے جس پر شہر والے ہمیشہ پہنچے ہوئے تھے : جس کو ہونی ہے ہوگی، جس کو نہیں ہونی ہے نہیں ہوگی۔

اب دیکھیے آج کل کرونا کی وبا میں کتنے لوگ یہی کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھی عقل اور سمجھ کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ ایسے رویے ہیں جن کا خمیازہ ہم پون صدی سے بھگت رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ ڈاکٹر حسن منظر کا ناولٹ ”وبا“ جیسے وہ ایک بیانہ کہتے ہیں بہ مشکل سو صفحات کا ہے مگر اسے پڑھنے سے ہمیں خاصی سمجھ ملتی ہے۔ ڈاکٹر حسن منظر جدید پاکستانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ قارئین ان دیگر کتابیں مثلاً ”جان کے دشمن“ ”ایک اور آدمی“ اور ”انیس کا دیش“ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سب اچھا ادب ہے جو ہمیں آج کے پاکستان اور اس میں موجود لوگوں اور ان کے رویوں سے روشناس کراتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments