اٹھارویں ترمیم پر سودے بازی سے گریز کیا جائے


ہر اخبار نویس کو مقتدر حلقوں کا پیامبر بننا نصیب نہیں ہوتا۔  وہ جو چنے جاتے ہیں گو کہ وہی خود کو ’اصل‘ صحافی  سمجھتے ہیں  اور  شہرت ، دولت اور قدر افزائی بھی انہی کے حصے میں آتی ہے لیکن خبریں پہنچانے   یا پلانٹ کرنے والوں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ  آئینی تقاضوں کا کیا بنے گا، جمہوریت کے ساتھ  کئے جانے والے سلوک کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور   براہ راست حکومت کرنے کے   طویل دورانیہ کے بعد اب بالواسطہ حکمرانی کی ڈاکٹرائن  کیوں کر نظام حکومت سے عوام کا اعتبار  ختم کردے گی۔ یہ اعتبار ختم ہوگیا تو کوئی طاقت اس بوسیدہ اور ناکارہ نظام کو  تباہ ہونے سے بچا نہیں پائے گی۔

ملک کے سب سے بڑے  اور قدیمی میڈیا گروپ جنگ کے مالک و  ایڈیٹر گزشتہ سات ہفتوں سے نیب کی حراست میں ہیں۔  قومی و عالمی صحافی و انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی گرفتاری کو  آزادی صحافت پر حملہ قرار دے چکی ہیں لیکن  ملک میں احتساب کا ’شفاف‘ نظام اس شدت سے جاری و ساری ہے کہ کوئی  دلیل میڈیا  کی اس بڑی شخصیت کی رہائی کا سبب نہیں بن سکی۔ آج پیمرا نے نیو ٹی وی کا لائسنس معطل کرکے اسے اپنی نشریات بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح نیب کے علاوہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے  ’شفافیت، غیر جانبداری اور خود مختاری ‘کی ایک نادر روزگار مثال قائم کی ہے۔    ایک روز پہلے ہی فلپائین میں ملک کے سب سے بڑے  نشریاتی ادارے اے بی ایس۔سی بی این کا لائسنس معطل کرکےمنگل سے  اس کی نشریات بند کروا دی گئی تھیں۔ اس طرح  یہ واضح کیا گیا تھا کہ مقبولیت پر استوار کئے گئے جدید جمہوری مزاج میں میڈیا کی خود مختاری کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ یہ بات زیادہ ضروری ہے کہ کوئی میڈیا ہاؤس اپنے ملک کے مقبول لیڈر کو کس قدر خوش رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امریکہ اور پاکستان کے مقبول لیڈر اپنے اپنے  میڈیا کو فیک نیوز کہتے ہوئے  بالواسطہ انتباہ   دیتے رہتے ہیں تاہم ایسے وقت  میں فلپائین کے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے میڈیا کا قبلہ درست کرنے کے لئے   اصطلاحات استعمال کرنے اور بالواسطہ دھمکیاں دینے  کی بجائے  اے بی ایس۔سی بی این کو بتا دیا تھا کہ   حکومت کی مخالفت اور ان کے فیصلوں پر تنقید کے بعد ان کے پاس دو  ہی آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے مقبول صدر کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا جائے یا اس  نشریاتی ادارے کے مالکان  اپنی کمپنی کو ایسے لوگوں کے پاس فروخت  کردیں  جو صدر کے خیر خواہ  ہوں اور جن کی ’کارکردگی‘ سے صدر مملکت  خوش و مطمئن ہوں۔  جب ان دونوں طریقوں کو ماننے سے انکار کیا گیا تو صدر ڈوٹیرٹے کے پاس ایک ہی آپشن  باقی بچا تھا کہ وہ  اے بی ایس۔سی بی این کی نشریات بند کردیں۔ لہذا مجبوراً انہیں یہ طریقہ استعمال کرنا پڑا۔

 بھارت میں نریندر مودی بھی اسی طریقہ کو بہترین قومی مفاد کے لئے تیر بہدف نسخہ سمجھتے ہیں ۔ ملک کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکانہ  حقوق مودی حکومت کے  حامی  سرمایہ داروں کے پاس ہیں۔ اس لئے مین اسٹریم میڈیا پر وہی نشر ہوتا ہے جو حکومت چاہتی ہے۔ جو مٹھی بھر صحافی آزادی صحافت کے نام پر خبر کی کھوج لگانے اور قومی بیانیہ کو چیلنج کرنے کی کوشش  کرتے ہیں انہیں ملک و قوم سے غداری کے الزامات کا سامنا ہوتا ہے اور  وقتاً فوقتاً انہیں بتادیا جاتا ہے کہ اس ’آزادی‘ کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستان میں  میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے باوجود  پاکستانی میڈیا کے جن حصوں کو اس بات سے آگاہی حاصل نہیں ہوئی کہ اصل صحافت حکومت کے کام میں کیڑے نکالنا نہیں  بلکہ  ’اہم پیغامات‘ کو شہباز شریف اور عمران خان  جیسے مقبول لیڈروں تک پہنچانا ہوتا ہے، انہیں اب نیو ٹی وی کا لائسنس معطل کرکے بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ  ’طریقے سے کام کرو ورنہ سانس لینا بھی دوبھر کیا جاسکتا ہے‘۔  پاکستان کے کتنے میڈیا مالکان یا صحافی اس انتباہ سے بے خوف ہو کر فرائض منصبی ادا کرنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں؟

گھٹن کے اس ماحول میں    فضا پر مکمل  خوف   حاوی ہونے   اور  حق بات کو  براہ راست یا بالواسطہ کہنے کا ہر راستہ بند ہونے سے پہلے ، صحافی پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خوف کی بجائے ضمیر کی  آواز  سنے،  سرکاری بریفنگ کی بجائے وقوعہ کو رپورٹ کرے اور جو قدم تباہی کی طرف اٹھ رہے ہوں، ان کی نشاندہی کردے۔  صحافی رپورٹ کرسکتا ہے یا رونما ہونے والے واقعات پر اپنی صوابدید کے مطابق دیانت دارانہ رائے دے سکتا ہے۔ اس کا قلم ہی اس کی طاقت اور اس کے الفاظ ہی  عوام تک  پیغام پہنچانے کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔  جبر و استبداد سے اسے خاموش تو کروایا جاسکتا ہے۔ اس کے قلم پر قدغن لگا کر اس کے الفاظ کی ترسیل روکی جاسکتی ہے لیکن حالات کا رخ تبدیل کرنا کسی ظلم کے بس میں نہیں ہوتا۔

کسی بھی قوم کے حالات ان فیصلوں سے تبدیل ہوتے ہیں  جو اگر عوام کی رائے اور رضامندی سے کئے جائیں تو فلاح اور ترقی کا راستہ کشادہ ہوتا ہے ۔ تاہم   عوام اور ان کے نمائیندوں پر جبر  مسلط کرکے حالت کو موافق بنانے کی کوشش کی جائے  تو    ایسے  فیصلے تاریکی کے ایک نئے دور کا نقطہ آغاز  ثابت ہوتے ہیں۔ ان  فیصلوں کی تباہ کاری کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر ماضی کے تجربات اور اسی نوعیت کی صورت حال سے مرتب ہونے والے اثرات پر نظر رکھی  جائے تو   مستقبل کی   واضح تصویر بنانا مشکل نہیں ہوتا۔   دیانت دار صحافی اسی تصویر کو اجالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بروقت خطرات سے آگاہ کردیا جائے اور بھٹکے ہوئے قدموں کو رکنے کا مشورہ دیا جائے۔ صحافی کے پاس اس سے زیادہ طاقت نہیں ہوتی  لیکن وہ یہ بتا سکتا ہے کہ اگر اس کی نحیف آواز دبانے   اور صفحہ قرطاس پر  لکھے  الفاظ کو کھرچنے کی کوشش کی جائے گی  تو اس کے نتیجے میں  جبر حاوی تو ہوسکتا ہے فتحیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس  راستے میں خرابی بسیار کا سامان مضمر ہوتا ہے۔

پاکستان کو بھی پوری دنیا کی طرح اس وقت کورونا سے لاحق ہونے والی طبی مشکلات  اور اس وائرس کی  روک تھام کے لئے  نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی بربادی  کا سامنا ہے۔ پاکستان البتہ ایک ایسا بدنصیب ملک ہے جہاں فیصلہ سازوں کی  پوری توجہ اس  وائرس یا اس  سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کی بجائے مستقبل کا نقشہ بنانے اور ملکی معاملات پر گرفت مضبوط کرنے کے نت نئے ہتھکنڈے تلاش کرنے پر مبذول ہے۔  قیاس کیاجارہا ہے کہ  کورونا وائرس تو جلد یا بدیر ختم ہوجائے گا  لیکن جب عوام کو اپنی زندگیاں بچانے اور روزگار کا راستہ تلاش کرنے کی  پریشانی لاحق ہو تو ایسے میں حکمرانی کے نظام میں ضروری اصلاحات نافذ کرنا اہم ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ قیاس درست ہو لیکن اس قیاس کی بنیاد پر جس  طرح ملکی آئین کی اٹھارویں ترمیم کو نشانے پر لیا گیا ہے ، اس سے نہ نظام درست ہوگا اور نہ ہی قومی یگانگت کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا۔

خبر ہے کہ اٹھارویں ترمیم مرکز کو کمزور اور صوبوں کو ناجائز طور سے طاقت ور اور مالامال کرتی ہے۔ کچھ آوازیں اس دلیل کو مسترد بھی کررہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ’ٹارزن‘ کی واپسی کے نام پر ان آوازوں کو دبانے اور سودے بازی کی میزان پر تولنے کا اہتمام بھی ہورہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف  2018 میں انتخابات سے پہلے  ہونے والی  بولی میں ناکامی کے بعد اب  اقتدار کی دوڑ میں  خود کو نئی سودے بازی کے لئے پیش کرچکے ہیں۔  اس  ترازو کے ایک پلڑے میں   ضمیر کی  آواز  اور دوسرے میں نیب آرڈی ننس میں تبدیلیاں اور شریف خاندان کی قانونی  مشکلات سے نجات کو دھرا گیا ہے۔ شہباز کی بات  مانی جائے تو سیاسی ضمیر صرف اقتدار کی چاپ سنتا ہے ۔  ایسے میں ’ووٹ کو عزت دو ‘ کی تال اٹھانے والے بدستور خاموش ہیں۔ ملک میں  مکمل جمہوریت کی بجائے انجینئرڈ  نظم حکومت کو قبول کرنے کے بعد  اب   اٹھارویں ترمیم    کی تبدیلی پر رضامندی کو نیب قانون کی ساخت سے منسلک کرنے  کی آوازیں گردش میں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

یہ بات البتہ نوٹ کرلی جائے کہ اگر پنجاب سے  ووٹ لینے والی اپوزیشن کی اس سب سے بڑی پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم کی روح کچلنے کے  منصوبہ میں حصہ داری کا فیصلہ کیا تو  معاملہ صرف آئینی ترمیم تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پنجاب کے  جبر اور اختیارات پر تصرف کی حرص کا مقدمہ مضبوط ہوجائے گا۔ چھوٹے صوبوں کے عوام پنجاب کی نمائندہ جماعت کی طرف سے اس دھوکہ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔  اب معاملہ ووٹ کو مکمل عزت دینے یا  عوامی حاکمیت پر مقتدر حلقوں کی حصہ داری قبول کرنے تک محدود نہیں ہے۔ اب سر فہرست یہ سوال ہوگا کہ   وفاق کے سب سے بڑے صوبے کے طور پر پنجاب کیا اپنے مفاد کے لئے چھوٹی اکائیوں کے حقوق پر سودے بازی   کرے گا؟

مسلم لیگ سوچ لے۔ اسے  وقتی سیاسی مفاہمت اور قیادت کے لئے سہولت کی قیمت  ، ریاست پاکستان میں مستقل بداعتمادی  کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔  قوم کو بڑے بحران کی طرف  دھکیلنے سے پہلے شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے یہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ پیامبر صحافیوں  کا لایا ہؤا پیغام سننے کے  علاوہ ان آوازوں کو بھی سن لیں جو ایک بڑے قومی بحران کا پیغام دے رہی ہیں۔  قوم و ملک کے بہترین مفاد میں یہی ہوگا کہ اٹھارویں ترمیم پر سیاسی سودے بازی سے گریز کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments