اباجی کی یاد میں۔ ۔ ۔


ہوش سنبھالا تو ابو کا پہلا تاثر جو پڑا وہ ڈر کا تھا۔ وہ دور ہی ایسا تھا۔ ہم 80 اور اس سے قبل کی دہائیوں میں پیدا ہونے والے بچے عموماً اپنے بچپنے میں والد سے ڈر کر ہی رہتے تھے۔ اباجی پیشے کے اعتبار سے زمین دار تھے اور اس قدیم مقولے پر دل و جان سے عمل پیرا تھے کہ اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے۔ بسا اوقات انہیں کئی کئی دن ڈیرے پر گزارنے پڑتے جبکہ ہم پانچوں بہن بھائی شرارتیں کرکے امی کی ناک میں دم کیے رکھتے۔ اسی دوران وہی روایتی ڈائیلاگ سننے کو ملتا ”آنے دو تمہارے باپ کو، طبیعت صاف ہو جائے گی“

تمام بہن بھائیوں میں سب سے شرارتی بچہ میں ہی تھا۔ اسی لیے الحمدللہ اباجی کے ہاتھوں سب سے زیادہ پھینٹی بھی اسی خاکسار کے حصے میں آئی۔ مزے کی بات ہے کہ ان کا لاڈلا بھی میں ہی تھا۔ بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوئے اور کچھ شعور آیا تو پھینٹی میں بھی ذرا کمی آئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ڈر میں احترام کا عنصر شامل ہو گیا تاہم چونکہ ایک ذرا سی جھجک بھی تھی اس لیے ہمارے درمیان تھوڑا فاصلہ بھی رہا۔

فرمائشوں اور ضروریات کے حصول کے لیے امی کا واسطہ درمیان میں رہا۔ سکول سے کالج میں پہنچے تو آہستہ آہستہ ڈر کی دیوار گری اور ابو سے دوستی کا دور شروع ہوا (میں سمجھتا ہوں ہماری نسل کے بچوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ ڈر سے دوستی کا یہ سفر زندگی کی دو ابتدائی اور قیمتی دہائیاں نگل جاتا ہے ) اباجی سے مل کر کرکٹ کھیلی۔ کئی گیندیں گمائیں۔ لڈو کھیلی۔ کیرم پر ہاتھ سیدھا کیا۔ بارہ ٹینی اور پھر شطرنج کے داؤ پیچ سیکھے۔

منگ پتا تک کھیل بیٹھے لیکن یہ دور بڑا مختصر رہا۔ اجل نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ ابو کو سرپرائز دینے کی عادت تھی۔ محفلوں کے بھی آدمی تھے۔ گھر سے باہر جاتے اور اکثر و بیشتر واپسی میں دیر لگ جاتی تو امی حسب عادت پریشان ہو جاتیں۔ کہتیں تمہارے ابو جہاں جاتے ہیں بیٹھ ہی جاتے ہیں۔ پیچھے گھر والوں کی فکر ہی نہیں ہوتی۔ پھر ہم تین بھائیوں کی صورت میں تین ہرکارے مختلف سمتوں میں یعنی ابو کے ممکنہ ٹھکانوں کی طرف دوڑائے جاتے۔

اسی دوران اچانک دروازے سے مخصوص لہجے میں ان کی آواز گونجتی ”السلام علیکم“ امی شکایتوں کے دفتر کھولتیں۔ گلے شکوے شروع ہوجاتے لیکن اباجی بھی عادتوں کے پکے تھے۔ پنجابی زبان کا محاورہ ہے ”ادائیں سر تائیں“ یعنی عادتیں قبر تک انسان کے ساتھ جاتی ہیں، اباجی دنیا سے بھی گئے تو جاتے جاتے سرپرائز دے گئے۔

نانی کی عیادت کے لیے اپنے سسرال گئے۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہیں میزبانوں کے ہاتھوں سے پھسل گئے، اب بھلا انہیں کون بتائے ابوجی سرپرائز دینے کی یہ عادت ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ آج سترہ برس ہونے کو آئے۔ انتظار کرتے کرتے امی بھی چلی گئیں لیکن کان ہیں کہ اب بھی دروازے پر لگے ہیں۔ شاید ابھی آہٹ ہو اور ان کی آواز آ جائے ”السلام علیکم“ ۔

غالب نے اپنے منہ بولے بیٹے کا نوحہ کہا تھا۔ ابوجی میری اتنی بساط کہاں۔ درد کے کتنے پل اور وچھوڑے کے کتنے ہی موسم بیت گئے لیکن زبان اب بھی گنگ اور قلم مفلوج ہے۔ اس لیے بس یہی کہنے پر مجبور ہوں

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments