وبا، بیماری اور سائنسی طرز فکر


انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہر ملک، ہر قوم اور ہر عہد میں چند ایسے دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے انسانی شعور کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک وہ دور تھا جب انسان مافوق الفطرت طاقتوں پر یقین رکھتے تھے اور ایک یہ دور ہے کہ انسان قوانین فطرت جاننا چاہتے ہیں اور منطقی انداز سے اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل، بیماریوں اور وباؤں سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

جب ہم دانشوروں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان فلسفیوں اور سائنسدانوں نے اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے آدرش کے لیے قربانیاں دیں : بعض کو جیل میں ڈال دیا گیا، بعض کو سولی پر چڑھا دیا گیا، بعض کو ملک بدر کر دیا گیا، بعض کی کتابوں پر حکومتی اور مذہبی اداروں نے پابندیاں لگا دیں اور بعض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔

وباؤں اور بیماریوں کی وجوہات اور علاج کے حوالے سے انسانی تجسس اور شعور کے ارتقا کی داستان بھی کافی طویل ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اس کا آغاز یونان میں آج سے 2500 قبل اس وقت ہوا جب بقراط نامی سائنسدان اور طبی ماہر نے مذہب، بیماری اور وباؤں کے بارے میں ایک نیا اصول پیش کیا۔ 460 قبل مسیح میں یونانی جزیرے کوس میں پیدا ہونے والے بقراط، وہ پہلے طبیب تھے جنہوں نے طب کو مذہب سے علیحدہ کر کے سائنسی طرز فکر سے روشناس کروایا۔

انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ انسان کی بیماری اور صحت کے راز جاننے کے لیے ہمیں ما فوق الفطرت اعتقادات کی بجائے قوانین فطرت پر غور کرنا چاہیے۔ بقراط کے اکثر مریض ایسے تھے جو جب بیمار ہوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ ان کو ان کے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ وہ اپنی صحت کے لیے دعائیں مانگتے تھے اور دیوتاؤں کے آگے قربانیاں پیش کرتے تھے۔ بعض کا ایمان تھا کہ ان پر کوئی جن یا بھوت غالب آ گیا ہے۔

بقراط نے انہیں بتایا کہ ان کی جسمانی اور ذہنی بیماری کا گناہوں اور دعاؤں سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے اپنے مریضوں کو سمجھایا کہ وہ اس وجہ سے بیمار ہیں کہ وہ مضر کھانا کھاتے ہیں، ورزش نہیں کرتے، نیند کا خیال نہیں رکھتے اور غیر صحتمندانہ طرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں۔ بعض بیماریاں وبأوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھیلنا شروع کر دیتی ہیں۔

بقراط اپنے مریضوں کو مشورہ دیتے کہ تھے کہ گناہوں کی معافی مانگنے اور خدأوں کے آگے قربانیاں دینے کی بجائے وہ کوشش کریں کہ: متوازن غذا کھائیں۔ نیند کا خیال رکھیں۔ پانی زیادہ پئیں اور روزانہ ورزش کریں۔ بقراط روزانہ سیر کرنے کو بہترین ورزش سمجھتے تھے۔

بقراط ایک ہمدرد طبیب تھے۔ وہ اپنے طبیبوں کو سمجھاتے تھے کہ ان کو اپنے پیشے کے بارے میں سنجیدہ رویہ اپنانا چاہیے۔ وہ طبیبوں کومشورہ دیتے تھے کہ وہ مریضوں کی ہسٹری اور علاج کا ریکارڈ رکھیں تا کہ ان کی غیر موجودگی میں کوئی دوسرا طبیب بھی مریض کا علاج جاری رکھ سکے۔

بقراط طبیبوں سے کہتے تھے کہ وہ حلف اٹھائیں اور عہد کریں کہ اگر وہ مریض کا کوئی فائدہ نہیں کر سکتے تو نقصان بھی نہیں پہنچائیں گے۔ یہ عہد اب بقراطی حلف کہلاتا ہے۔ بقراط طب کے بارے میں اعلیٰ اقدار کے حامل تھے۔ بقراط کا کہنا تھا کہ ایک طبیب کو قوانین فطرت کا احترام کرنا چاہیے اور مریض کے علاج میں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

بقراط نے جب مذہبی پیشوأوں اور روایتی طبیبوں کو چیلنج کیا تو ان کو باغی قرار دے کر بیس سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں بھی بقراط نہ تو افسردہ ہوئے اور نہ ہی غصے میں آئے۔ انھوں نے جیل میں طب بارے ایک کتاب لکھنی شروع کر دی۔ جس کا نام انھوں نے پیچیدہ جسم رکھا۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے طبی تجربوں، مشاہدوں، بصیرتوں، اور علاجوں کو قلمبند کیا۔ یہ کتاب کئی سو برس تک دنیا کی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ جیل سے رہائی کے بعد بقراط نے دور دراز کا سفر کیا۔ ان کی موت لیرسا میں ہوئی۔ انھوں نے نوے برس کی عمر پائی۔

جودانشور اور طبیب بقراط کا احترام کرتے تھے۔ ان میں افلاطون، جالینوس، اور بو علی سینا شامل ہیں۔ جوں جوں علم کی روشنی دنیا میں پھیلتی گئی سائنسی طرز فکر بھی دوام حاصل کرتی چلی گئی۔

یوں وبا اور بیماری بارے جو سائنسی طرز فکر متعارف کرنے کی خاطر جو قربانی بقراط نے آج سے ڈھائی ہزار برس پہلے دی تھی، رائیگاں نہیں گئی۔ شعوری ارتقا کا یہ سفر مزید آگے چلا اور آج بھی جدید طب کی صورت دنیا میں زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments