آغا شورش کاشمیری کی شعلہ بیانی کے چند شاہکار


آغا شورش کاشمیری کے بہت سے تعارف ہو سکتے ہیں۔ وہ بیک وقت ایک اسکالر، لکھاری اور سیاستدان تھے۔ مذہب کے حوالے سے کافی متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ معروف ہفتہ وار میگزین چٹان کے مدیر بھی تھے۔ ان کا ایک تعارف شعلہ بیان مقرر کا بھی ہے اور بلا شبہ ان کی چار چار گھنٹے کی تقریروں میں مجمعے کو سانپ سونگھ جاتا۔ اپنی شعلہ آفاق تقریروں کی بدولت کئی بار جیل یاترا نصیب ہوئی۔ تاہم زبان و بیان کے حوالے سے ان کی تقاریر میں کچھ چیزیں کمال کی ہوتی تھیں۔

ذیل میں ان کے مجموعہ تقاریر ”خطبات شورش“ مرتب کردہ شیخ مجیب الرحمان بٹالوی میں سے چند اقتباسات درج کیے جا رہے ہیں۔

میری قوم عجیب ہے اخبار ظفر علی خان کا پڑھتی ہے، فتویٰ کفایت اللہ کا مانگتی ہے، بیلچہ علامہ مشرقی کا اٹھاتی ہے، شاعری علامہ اقبال کی پڑھتی ہے، زندہ باد قائد اعظم کو اور نوکری انگریز کی کرنا پسند کرتی ہے۔

حسن رانی میں ہو یا حکمرانی میں، حسن حسن ہی ہوتا ہے۔
دن کو کابینہ کا اجلاس اٹینڈ کرتے، ہیں، رات کو کسی ثمینہ کا گلاس اٹینڈ کرتے ہیں۔

مجھے، نصر اللہ اور مودودی کو ماں یا بہن کی گالی دینے میں ان کی زبان اس طرح چلتی ہے جس طرح بازار میں نوابوں کے نوٹ چلتے ہیں۔

جھریاں بھری ہوئی تھیں اس کے چہرے پر، میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جھریاں نہیں ہیں ایسے لگتا تھا جیسے تاریخ طمانچے مار کر پاس سے گزر گئی ہو۔

آپ کی سات نسلیں اور بھی پیدا ہو جائیں مگر محمد عربی کے ملک میں محمد کی میم چلے گی، ماؤ کی میم نہیں چلے گی، مدینے کی میم چلے گی، ماسکو کی میم نہیں چلے گی۔

سرمایہ داری رزق چھینتی ہے، سوشلزم رازق چھینتا ہے۔
اخلاق جتنا پست ہوتا چلا جاتا ہے، مہنگائی اتنی بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔
میرا خیال ہے مجھے ایک وقت میں مختلف موضوعات پر ایک ڈیڑھ لاکھ سے کیا کم شعر یاد ہوں گے۔
لوگ یونیورسٹیوں میں پڑھتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ میں جیل خانوں میں پڑھتا اور پروان چڑھتا رہا۔
میری عمر کے سات دنوں میں تین دن جیل میں گزرے ہیں۔

یہ اگر مجھے چھیڑیں گے تو میں ان کو ننگا کر دوں گا، اور اگر مجھے نہیں چھیڑیں گے تو میں اپنے موضو ع پر بات کروں گا۔

ٹیپو سلطان کے ساتھ جو جوانمردی اور بہادری سے لڑا تھا، جس سے ( انگریز ) خوفزدہ تھے وہ خان سامان وزیر جنگ تھا۔ اسے خان سامان کہتے تھے۔ اس کی ہتک کرنے کے لئے لفظ خانساماں بنا دیا۔

کاش میرے پاس اتنا علم ہوتا کہ میں اسے اس طرح سے تقسیم کرتا جیسے ستارے رات کو اپنی چمک تقسیم کرتے ہیں۔
سرور کائنات کی سیرت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر زمانے کے مطابق بولتی ہے۔

تصویر کھینچنے والے سے مخاطب ہو کر، یار میں کیمرہ توڑ دوں گا، میری تصویر کیا کرو گے۔ تیری تصویر سامنے رکھ کر میں اپنا انجام سوچتا ہوں۔
کبھی روس، کبھی چین، ہماری حالت اس عورت کی طرح ہو چکی ہے جو بیک وقت کئی آشنا رکھتی ہے۔

ایک قطعہ:
تہذیب خطابت ہو کہ تہذیب صحافت
ان دونوں محاسن کا نمائندہ رہوں گا
تاریخ مرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آیندہ رہوں گا
قومیں جسمانی موت سے نہیں مرا کرتیں، ذہنی موت سے مرا کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments