پشتون تحفظ موومنٹ کیوں بنی اور چاہتی کیا ہے؟


پشتون تحفظ موومنٹ ایک پرامن اور عدم تشدد پر مبنی ایک سیاسی تحریک ہے جو جنوری 2018 میں وزیرستان سے شروع ہوئی تھی اب دنیا میں جدھر بھی پشتون آباد ہیں سب اس کے حمایتی ہیں۔ اس تحریک کے اب دوسال مکمل ہوگئے ہیں۔ باوجود کئی لاشیں اٹھانے کے اس تحریک کی طرف سے کوئی پرتشدد کارروائی یا ردعمل دیکھنے میں نہیں آئی۔ بلکہ اب تک یہ پرامن رہی ہے۔ یہ لوگ پرامن جلسوں اور مظاہروں کے ذریعے دہشت گردی اور جنگ کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ اور اپنے وطن میں امن کی بحالی اس تحریک کا بنیادی محور اور مطالبہ ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا یہ تحریک شروع کیوں ہوئی اس کی وجوہات کیا ہیں؟ پھر اس کے مطالبات دیکھنے ہوں گے کہ یہ چاہتے کیا ہیں؟ اور پھر اس کا حل ڈھونڈنا ہوگا کہ کس طرح اس تحریک سے نمٹا جائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تحریک نہ تو کسی سازش کے نتیجے میں بنی ہے نہ کوئی بیرونی عناصر اس کے پیچھے ہے۔ بلکہ یہ ایک مکمل عوامی تحریک ہے اس تحریک کے شروع ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ تحریک اچانک اور ایک دم شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ پختونخوا وطن پر جاری گزشتہ چالیس سالہ جنگ کے ردعمل کے طور پر نمودار ہوئی ہے، یہ جنگ جو انقلاب افغانستان 1979 سے شروع ہوئی تھی اور اب تک جاری ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے پختونخوا وطن آگ اور خون میں جل رہا ہے۔

اور اب تک افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں لاکھوں لوگ اس جنگ کے ایندھن بنے ہیں۔ لاکھوں لوگ مارے جاچکے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں اور ہزاروں مائیں بیوہ ہوچکی ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے اور لاکھوں معذور اور بیروزگار ہوگئے ہیں، ان کا کاروبار زندگی مکمل تباہ اور یہ لوگ دربدر پھرنے پر مجبور ہیں۔ اور بالخصوص 2000 سے سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر کئی آپریشن ہوئے۔

فاٹا کے سارے ایجنسیوں میں یہ آپریشن ہوئے ان آپریشن کے نتیجے میں سوات میں ستائیس لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ان کے گھر اور دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوئے اسی طرح دونوں وزیرستان میں متعدد آپریشن ہوئے جس کے نتیجے میں ان کے گھر بار سب کچھ تباہ ہوئے۔ حتی کہ میران شاہ، میر علی، اعظم ورسک اور وانا کے بازار بھی بلڈوز ہوئے اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان کو بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، اور ٹانک کے کیمپوں میں مقیم ہونا پڑا اور اب تک بیچارے ان کیمپوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

اور وزیرستان کے جن علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کیا گیا ہے وہاں پر جو لوگ دوبارہ آباد ہوئے ہیں ان کی طرح طرح سے تذلیل ہوتی رہی ہے ان سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے بوڑھوں اور بچوں کو لائنوں میں کھڑا کیا جاتا ہے اور معمولی کوتاہی پر ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ ان کی عزت نفس مجروح کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ فاٹا سے ہزاروں لوگ غائب ہیں۔ ان کے پیارے روز ان کی یاد میں مرتے ہیں۔

تیسری بات علاقے میں مائنز بچھائے گئے ہیں جو آئے روز حادثات کے باعث بنتے ہیں اب تک سینکڑوں لوگ ان مائنز کے پھٹنے سے ہلاک ہوچکے ہیں حتیٰ کہ مال مویشی بھی ان مائنز کا نشانہ بن چکے ہیں۔

تو یہ تھیں تحریک کی وجوہات۔ ایسے میں یہ لوگ تحریک نہ چلائیں تو اور کیا کریں؟

اب یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تحریک چاہتی کیا ہیں؟ اس کے مطالبات کیا ہیں؟ تو ان کے سارے مطالبات جائز، آئینی، آسان اور سادہ ہیں۔ یہ کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کررہے ہیں۔ چونکہ یہ تحریک شروع جنگ کے خلاف ہوئی ہے تو اپنے وطن پر کئی دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ اس تحریک کا بنیادی مطالبہ ہے۔ یہ لوگ جنگ سے تنگ آگئے ہیں اب امن کی فوری بحالی ان لوگوں کا خواب اور آرزو ہے۔

دوسرا مطالبہ اپنے پیاروں کی بازیابی کا ہے بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ان گرفتار نما اغوا شدہ لوگوں میں جس جس نے قانون توڑا ہے ان کو سامنے لا کر ان پر مقدمات چلائے جائیں۔

تیسرا مطالبہ اپنے علاقے میں بچھائے گئے مائنز کی صفائی کا ہے۔ چوتھا مطالبہ لوگوں سے چیک پوسٹوں پر اچھے اور انسانی برتاؤ کا ہے۔ کہ لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے سے گریز کیا جائے۔

آخری مطالبہ اس چالیس سالہ طویل جنگ کی انکوائری کے لئے مصالحتی کمیشن کے قیام کا ہے۔ کہ یہ جنگ کس مقصد کے لئے پشتون علاقوں میں لڑی گئی اور اس کے کیا کیا نقصانات ہوئے ہیں۔ تو یہ سارے مطالبات جائز، اور آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ کوئی مطالبہ غیر آئینی نہیں اور نہ کوئی ناقابل عمل ہے۔

تو اب بال ریاست کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس پرامن اور عدم تشدد پر مبنی تحریک سے کس طرح نمٹتی ہے؟ اگر ریاست ان مظلوموں، یتیموں، بیواؤں اور زخمیوں کی تحریک سے ذمہ داری اور سنجیدگی سے نمٹتی ہے تو اس کے بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں پھر نہ مزید خون خرابہ ہوگا اور نہ یہ لوگ تشدد کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور اگر ریاست غیر ذمہ داری سے اس تحریک سے پیش آتی ہے (جس طرح ابھی تک پیش ہو رہی ہے ) تو اس کے نتائج بڑے خطرناک نکل سکتے ہیں جو کہ ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور ریاست پہلے سے بلوچوں کے ساتھ یہ غلطی کر چکی ہے جس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔

آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک مکمل پرامن تحریک ہے اس سے امن اور قانون کے مطابق نمٹا جائے۔ جنگ اور تشدد سے گریز کیا جائے اور ان نوخیز نوجوانوں کو تشدد پر نہ اکسایا جائے۔ اس میں سب کی خیر اور بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments