نہ ختم ہونے والی وبا؟


سوچ رہا تھا کہ اس عنوان کی تمہید کیسے باندھی جائے ابھی تک اس ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا ہی خیال آیا کہ جس عنوان کا مضمون ہی انسان ہو اس عنوان کو تمہید کی کیا ضرورت۔ چونکہ تاریخی اعتبار سے انسان ایک پیچیدہ عنوان رہا ہے اور ماضی میں بے شمار مسائل سے دو چار ہوا ہے اور اس کے مجموعی حل کے لیے کبھی امید تو کبھی نا امیدی کے ساتھ ہمت تو باندھی ہی ہے مگر ہمیشہ جستجو اور تحقیق کا سہارا لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتا گیا ہے۔

اس کی بہتر مثال دو عالمی جنگوں میں ملتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم ( 1914۔ 1918 ) کے اختتام میں معلوم ہوا کہ اس جنگ نے 30 ملین سے زائد لوگوں کو لقمہ اجل کر دیا ہے تو امیدی کا دامن تھام کے لیگ آف نیشن کا قیام وجود میں لایا گیا تا کہ آئندہ ایسی کوئی جنگ و جدل نہ ہو جس میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ دوسری تباہیاں بھی عروج پہ ہوں۔ ابھی دنیا سکون کا سانس لے ہی رہی تھی کہ انسان کی انا نے اسے للکارا اور اس کے غلبہ پانے والے حسد نے اسے لعن طعن کیا کہ آخر وہ کیسے شکست کے بعد وہ خاموش رہ سکتا ہے تو اس نے دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں ( 1939۔1945 ) ہتھیار اٹھا لیے تو دنیا نے ایک مرتبہ پھر سے نا امیدی سے امید کا دامن تھامے رکھا تاکہ کوئی حل نکل آئے۔

آخر کار 50 ملین سے زائد لوگوں کی جانوں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو نیست و نابود کرنے کے بعد عقل ٹھکانے آئی تو ایک اور ادارے (یو۔ این۔ او) کا وجود عمل میں لایا گیا جس نے اس بات کا تعین کیا کہ ”جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں جنگ بذات خود ایک مسئلہ ہے“ یو۔ این۔ او ”۔ لہذا جب تک یہ بات سمجھ آئی تب تک ان دونوں عالمی جنگوں کی زد میں مجموعی طور پہ 80 ملین سے زائد جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ پھر ذہن میں ایک سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ آخر ان جنگوں کا حاصل وصول کیا بنا؟

انسان نے اپنی تاریخ سے ایک دوسرے کو دھوکہ دینا، حسد رکھنا، دشمنی اور کینہ جیسی لعنتوں سے خود کو مالامال کیا ہوا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو فخر اور وثوق سے اس کی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ کیسے کسی کو گرا کر خود آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اسی ضمن میں موجودہ صورتحال میں کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جس نے پوری دنیا کو ایک ذہنی گراوٹ میں دھکیل دیا۔ اس وقت پوری دنیا ایک وبا کی لپیٹ میں ہے جسے بین الاقوامی طور پر کرونا وائرس یا پھر کوویڈ۔ 19 کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جس سے اب تک لوگ متاثر ہو چکے جس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے 80 سے زائد فارماسوٹیکل کمپنیاں اور لیبارٹریز کام کررہی ہیں تاکہ جلد از جلد اس کی ویکسین تیار کی جا سکے اور لوگوں کو ذہنی تناؤ کے اس ماحول سے باہر نکالا جا سکے۔

جہاں لوگ اس کی ویکسین تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں تحقیق و تجربات کر رہے ہیں وہی پہ کچھ عناصر اس کام میں سرگرم عمل ہیں کہ کیسے افواہوں کے ذریعے انسانوں کو اس کوویڈ 19 کے وبا کے مطلق ورغلایا جائے کہ یہ وبا کچھ نہیں صرف اور صرف سامراجی ریاستوں کی ملی بھگت ہے تاکہ پوری دنیا میں وہ اپنی اجارہ داری قائم کر سکے۔ چونکہ ان عناصر کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ رائٹرز انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کو ورغلانے اور افواہوں کے ذریعے غلط معلومات لوگوں تک پہنچانے والوں میں سوشل میڈیا، سیاستدان اور سماجی شخصیات موجود ہیں جو ایک خاص مقصد کے تحت اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔

بالکل اسی طرح کبھی یہ عناصر مذہبی ٹولوں کی شکل اختیار کر کے انسانی جانوں کا ضائع کر دیتی ہیں (جن کی مثال ماضی قریب میں ملتی ہیں ) کبھی یہ پیاز کھانے، زیادہ دھوپ سیکھنے اور کبھی گائے کے پیشاب سے وائرس کا علاج تشخیص کر دیتی ہیں تو کبھی ٹرمپ لالا کے ٹوٹکے کے تحت یہ تجویز کر دیتی ہیں کہ کلوروکین سے ویکسین بنائی جاسکتی ہے تو اس ضمن میں ان کی طرف سے دوسری ریاست کو دھمکایا بھی جاتا ہے کہ اگر ہمیں کلوروکین نہ دی گئی تو نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔

جہاں انسانی شعور انسان کو بہتر سے بہتر کی طرف اشارہ دیتی ہی کیا وہیں انہی افواہوں کے تحت انسانی زندگی کو داؤ پہ لگایا جاتا رہے گا یا پھر تحقیق و تخلیق کے ذریعے انسانی زندگی کو بہتر بنایا جائے گا؟ اس کا فیصلہ آپ خود ہی کریں تو بہتر ہوگا۔ مگر آخر میں اتنی سی گزارش کرنا چاہوں گا کہ اگر اس وبا جس کا نام ”افواہ“ ہے جس کا دائرہ کار صرف اور صرف انسانوں کے گرد گھومتا ہے اگر اس کی کوئی ویکسین تیار ہوتو ضرور آگاہ کیجئے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments