احمد فراز سے شبلی فراز تک


احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز جب عمران خاں کی جماعت میں شامل ہوئے تھے تو اسی وقت ہم حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ فراز کا بیٹا اور اس جماعت میں جس کے مشیر اعلیٰ جنرل ضیاالحق کے ایک قریبی ساتھی لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن تھے۔ وہی جو نفسیاتی جنگ کے ماہر مانے جاتے تھے اور جو اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے حوالے سے ضیاالحق کے مشیر خاص تھے؟ ان دنوں ملتان میں ہمارے ساتھ جو ہوا، ہم وہ بیان کر کے اپنے اور آپ کے منہ کا مزہ خراب کرنا نہیں چاہتے۔ صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ ان دنوں انہی صاحب کے دربار میں ہماری حاضری ہوتی تھی اور ہمیں اپنی وضاحتیں پیش کرنا پڑتی تھیں۔ اب رہا احمد فراز، تو یاد آتے ہی چہرے پر بشاشت پھیل جاتی ہے۔ یاروں کا یار، منہ پھٹ کی حد تک صاف گو، چٹکلے باز۔ زندگی بھر جو ہر آمر اور ہر مطلق العنان کے خلاف رہا۔ فراز نے شروع میں ہی اپنا رشتہ عوامی نیشنل پارٹی اور اس کی جمہوری اور عوامی سیاست سے جوڑ لیا تھا۔ آخر وقت تک یہ تعلق برقرار رکھا۔

آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے موقع پر انہوں نے جو نظم لکھی، اس پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے وزیر دفاع ٹکا خاں نے انہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دیا تھا۔ خیر، یہ الگ قصہ ہے۔ فیض صاحب کے کہنے پر فراز نے اکادمی ادبیات پاکستان کی سربراہی تو سنبھال لی تھی لیکن اپنے خیالات اور نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھٹو صاحب نے ولی خاں کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر فراز کی تڑپ دیکھنے کے قابل تھی۔ شیرپائو کے قتل کے بارے میں بھی فراز کا اپنا ہی بیان تھا۔ وہ اپنے خیالات کسی سے چھپا کر نہیں رکھتے تھے۔ وہ دل کی بھڑاس اپنے شعروں اور اپنی بزلہ سنجی میں نکال لیا کرتے تھے۔

ہم نے ان کے ساتھ پندرہ دن چین میں گزارے۔ ہمارے وفد کے قائد بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خاں تھے۔ قیوم خاں کے ساتھ ان کے ایک قریبی ساتھی بھی تھے۔ وہاں فراز نے قیوم خاں کے بارے میں جو لطیفے گھڑے وہ یہاں بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ضیاالحق کے زمانے میں فراز صاحب کہاں رہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ان کی وابستگی کا مطلب یہ تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے اختیارات کی تقسیم اور صوبوں کو ان کے جائز اختیارات دینے کے حامی ہیں۔

یہاں فراز ہمیں اس لئے بھی یاد آئے کہ ان کے صاحب زادے شبلی فراز نے اطلاعات کی مشترکہ وزارت سنبھالنے کے بعد آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں جو خیال ظاہر کیا، وہ ان کے والد گرامی احمد فراز کے خیال سے بالکل ہی مختلف ہے۔ مشترکہ وزارت میں نے اس لئے کہا کہ یہاں وہ اکیلے وزیر نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحبِ اختیار معاون اور مشیر ہیں۔ شبلی فراز نے ایک سوال کی شکل میں یہ کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش کی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم پر بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ گویا ان کے خیال میں اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کی جانی چاہئے۔

اگر انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھی ہے تو انہیں یاد ہو گا کہ صوبوں کو ان کے اصل حقوق دینے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سب سے پہلے یہ آواز مشرقی پاکستان سے اٹھی تھی اور اس آواز کو دبانے کے لئے ہی ”ون یونٹ‘‘ کا شوشہ چھوڑا گیا تھا۔ اچھا، اب اس ون یونٹ کا قصہ بھی پڑھ لیجئے۔ ون یونٹ بنانے کے لئے اوپر ہی اوپر ایک خفیہ دستاویز تیار کی گئی تھی۔ ان دنوں ہم میاں افتخارالدین کے اخباری ادارے پروگریسیو پیپر لمیٹڈ کے روزنامہ امروز سے وابستہ تھے۔ ون یونٹ والی یہ خفیہ دستاویز کسی طرح میاں افتخارالدین کے ہاتھ لگ گئی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس انگریزی دستاویز کا اردو ترجمہ میں نے ہی کیا تھا‘ اور وہ دستاویز لوگوں تک پہنچی تھی۔ بہرحال یہ ضمنی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کے بعد ہمارے اخباروں پاکستان ٹائمز اور امروز نے باقاعدہ ون یونٹ کے خلاف مہم شروع کر دی تھی لیکن اس ملک کی بد نصیبی یہ ہے کہ خود مشرقی پاکستان سے ہی ایسے سیاست داں مل گئے تھے جنہوں نے ون یو نٹ کی حمایت کر دی تھی۔ ایوب خاں کو یہی چاہئے تھا۔

مشرقی پاکستان والوں کو شکایت یہ تھی کہ بیرون ملک پٹ سن برآمد کرکے ان کا صوبہ غیر ملکی زر مبادلہ کماتا ہے لیکن یہ زر مبادلہ ان کے اپنے صوبے کے بجائے مغربی پاکستان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ایوب خاں کراچی والوں کی ہنگامہ آرائی سے تنگ آ کر پاکستان کا ایک نیا دارالحکومت آباد کر رہے تھے۔ اس کا نام اسلام آباد رکھا گیا تھا۔ حالانکہ پاکستان اور اسلام کی محبت میں لاہور کے کرشن نگر میں رہنے والے مہاجروں نے اپنے علاقے کا نام پہلے ہی اسلام آباد رکھ لیا تھا۔ یہ ہمیں اس لئے یاد ہے کہ ایوب خاں نے 1958 میں مارشل لا لگایا تو تمام اخبار سینسر کی زد میں آ گئے۔ ہم اپنے اخبار کی کاپی تیار کرکے جن انفارمیشن افسر کی منظوری کے لئے بھیجا کرتے تھے، ان کا نام تھا مشتاق اسلام آبادی۔ وہ اسلام آباد ہمارا کرشن نگر تھا۔ مشرقی پاکستان کہتا تھا کہ زر مبادلہ ہم کماتے ہیں، اور وہ خرچ ہوتا ہے مغربی پاکستان میں اسلام آباد پر۔ بعد میں بنگالیوں کی اشک شوئی کے لئے ایوب خاں نے ڈھاکہ کے قریب پاکستان کا دوسرا دارالحکومت بھی تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ اتفاق سے وہ نام نہاد دارالحکومت ہم نے بھی دیکھا تھا۔ اس وقت تک وہاں گول گول سوراخوں والی عمارتیں بنانا شروع ہی کی گئی تھیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

ہمارے سیاسی مدبر مانتے ہیں کہ پی پی پی کی حکومت نے اگر کوئی معقول اور سمجھ بوجھ کا کام کیا تو وہ پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار صوبوں کو وہ حقوق اور وہ اختیار مل گئے جن کیلئے قیام پاکستان کے وقت سے ہی جدوجہد کی جا رہی تھی۔ اب موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ تین صوبوں میں تو اس کی اپنی حکومت ہے، صرف ایک صوبہ سندھ ایسا ہے جہاں اس کی مرضی کی حکومت نہیں ہے۔ اگر اٹھارہویں ترمیم نہ ہوتی تو ان کا اپنا گورنر بیک جنبش قلم اس صوبے کی حکومت برطرف کر کے گورنر راج قائم کر دیتا۔ اٹھارہویں ترمیم نے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں۔

دوسرا مسئلہ اس حکومت کا یہ ہے کہ اس نے اپنے دور میں جو بے تحاشا قرضے لئے، ان کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ صوبوں کا حصہ کم کر کے یہ قرضے ادا کرنا چاہتی ہے۔ اب یہ شوشے چھوڑے جا رہے ہیں کہ شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے ساتھ یہ سمجھوتہ کیا جا رہا ہے کہ اگر وہ اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے یا اس میں حکومت کی مرضی کی ترمیم پر راضی ہو جائیں تو ان کے خلاف تمام مقدمے ختم کر دئیے جائیں گے۔ اب سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ نواز شریف کی جماعت یہ کڑوا گھونٹ کیسے بھرے گی؟ سیاسی سوجھ بو جھ رکھنے والے تجربہ کار سیاست داں انہیں سمجھا رہے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی سیاست کے تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہو گا۔ مگر صاحب، پاکستان کی سیاست کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں سورج مشرق کے بجائے مغرب سے بھی نکل سکتا ہے۔

اس لئے شبلی فراز میاں، بھول جائیے اپنے ابا جان کو‘ اور وہی کیجئے جو آج کی سیاسی مصلحت آپ کو سمجھا رہی ہے۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ”ہر کس کہ شد صاحب نظر، دین بزرگاں خوش نکرد‘‘ اب تو آپ خود بھی صاحب نظر ہو گئے ہیں۔ بھلا آپ کو بزرگوں کی سیاست کیوں پسند آئے گی۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ ہماری سیاست میں جب تک کسی کو مضبوط کندھے نصیب نہ ہوں اس وقت تک اسے حکومت نہیں مل سکتی۔ اورخوش قسمتی سے ان دنوں آپ کو نہایت ہی طاقت ور اور بہت ہی مضبوط کندھے مل گئے ہیں۔ اس لئے آپ کو پرانے لوگ کیوں یاد آئیں گے؟ اور ایک کہاوت یہ بھی تو ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments