’ناتھو رام گوڈسے‘ کی راکھ اب کہاں ہے؟


تہتر سال پہلے، 15 اگست 1947 ء کی شام، نیو دہلی کے ایک میدان میں لاکھوں ہندوستانی امڈ آئے تھے۔ ہندوستان کے نئے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک شاندار تقریب میں نہرو کے ساتھ مل کر ترنگا لہرانا تھا۔ تقریب کی تفصیلات کو گورنر جنرل نے خو د بہت باریک بینی اور بے حد اشتیاق سے ترتیب دیا تھا۔ وائسرائے کی گارڈز کی نئے جھنڈے اور آزاد ملک کے وزیر اعظم کو سلامی کے علاوہ فوجی بینڈ کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کے لئے پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگوں کی آمد متوقع تھی۔

اندازے کے بر عکس مگر پانچ لاکھ سے زائد ہندوستانی دور دراز قصبوں اور دیہاتوں سے وزیر اعظم نہرو کے درشن کو چلے آئے تھے۔ زیادہ تر ان میں افلاس کے مارے مرد و زن تھے کہ جن کے چہرے اب آزادی کے ولولے اور نوامیدی کی لو سے دھمک رہے تھے۔ حد نگاہ، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مرکزی سٹیج کو گھیرے ہوئے تھا۔ نہرو بمشکل خطاب کر پائے۔ تقریب کو مجبوراً سمیٹنا پڑا۔

ایک ہی روز قبل آخری وائسرائے نئی مملکت کے قیام کی تقریبات میں شرکت کے بعد کراچی سے لوٹے تھے۔ قائداعظم کے ہمراہ استقبالیہ ہجوم سے لدی سڑکوں پر کھلی کار میں اعصاب شکن سفر جس میں شامل تھا۔ اطلاع تھی کہ انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کرنے والی ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کے مشورے کے باوجود مگر قائد اعظم نے کھلی گاڑی میں سفر نہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک آزاد مملکت کا مٹھی بھر جنونیوں کے ہاتھوں یوں پہلے ہی روز یرغمال نظر آنا اس کے سربراہ کو قبول نہیں تھا۔

اسی روز دہلی سے سات سو میل دور پونا شہر میں بھی جھنڈا لہرانے کے لئے کچھ لوگ جمع تھے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’ہندو راشٹریہ‘ نامی مقامی اخبار کے دفتر کے سامنے پارکنگ ایریا میں منعقدہ اس تقریب کا ماحول مگر ماتمی تھا۔ اخبار کا 37 سالہ گٹھے بدن کا مدیر حال ہی میں آر ایس ایس سے وابستہ ہوا تھا۔ ناتھو رام گوڈسے کو عورت کے وجود سے نفرت تھی۔ بھارت کی زمین پر مسلمانوں کا وجود اسے اور بھی بڑھ کر ناگوار تھا۔

ہندو انتہا پسند عسکری تنظیم بھارت کے لئے ترنگا نہیں ارغوانی پرچم مانگتی تھی۔ ہٹلر اور مسولینی کی پالیسیوں کی معترف تھی۔ نسلی برتری کے جنون میں مبتلا، مسلمانوں اور عیسائیوں کے ہندوستانی معاشرے میں موجودگی سے ایسے ہی بیزار تھی جیسے ہٹلر سامی النسل یہودیوں سے تھا۔ بھارت ماتا کا بٹوارہ، نہرو کی کانگرس کا ’ہندو مسلم اتحاد‘ اور جناح کا پاکستان، جسے ہرگز قبول نہ تھے۔ ’ہندوتوا‘ کی علمبردار تنظیم کا خواب تو قدیم وادی سندھ سے لے کر برہم پتر اور کیپ کیمرون سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک عظیم ہندو راج کا قیام تھا۔

کانگرس نے ماؤنٹ بیٹن منصوبہ مان تو لیا مگر گاندھی جی کو تقسیم ہند پر آمادہ نہ کر سکی۔ آر ایس ایس مگر گاندھی جی کو ہی بٹوارے کا دوشی مانتی تھی۔ ’ہندوتوا‘ نامی کتاب کا مصنف وینائک ساورکار، جناح، گاندھی اور نہرو کی طرح لندن کی انز کورٹ کا فارغ التحصیل تھا۔ دو خصوصیات اسے مگر ا ن رہنماؤں سے ممتا ذکرتی تھیں، ہم جنس پرستی اور سیاسی رہنماؤں کے قتل کی منصوبہ سازی میں مہارت۔ پونا میں ساورکار نے آر ایس ایس کی ذیلی خفیہ تنظیم ’ہندو راشٹرا دل‘ کی بنیاد رکھی۔ گوڈسے جس کا اب رکن اور ساورکار کے سحر میں مبتلا تھا۔

ناتھو رام گوڈسے، کبھی گاندھی کوبھی اپنا نیتا مانتا تھا۔ ایک بار تو گاندھی جی کے مرن برت بیچ اس نے جیل یاترا بھی کاٹی تھی۔ 13 جنوری 1948 ء کو گوڈسے نے جب سنا کہ گاندھی جی ایک بار پھر مرن برت بیٹھ گئے ہیں تو اس نے سوچا، گاندھی جی کو اب مر ہی جانا چاہیے۔ اب کی بار گاندھی جی کی مانگ انگریزوں سے آزادی نہیں، دہلی میں جاری مسلمانوں کے قتل و غارت کا خاتمہ تھا۔

20 جنوری 1948 ء کی شام برلا ہاؤس کے لان میں ناتھو رام گوڈسے سمیت چھ انتہا پسند ہندؤوں نے گاندھی جی پر حملہ کیا۔ آخری لمحات میں نا قص منصوبہ بندی آڑے آئی۔ ایک بم پھاڑا گیا مگر گاندھی جی محفوظ رہے۔ ایک حملہ آور گرفتار ہوگیا اور باقی روپوش ہو گئے۔ اب جب کہ ہندوستان کی پولیس ملک کے کونے کونے میں مفرور کی بو سونگھتی پھر رہی تھی، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوڈسے کو کسی صورت گوارا نہیں تھا۔ گاندھی جی کو اب کوئی اور نہیں ناتھو رام گوڈسے اکیلا ہی مارے گا۔

30 جنوری 1948 ء کی شام گوڈسے نے برلا ہاؤ س کے اندر گاندھی جی کے سینے میں چند فٹ کے فاصلے سے تین گولیاں اتار دیں۔ پورے ہندوستان میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ آر ایس ایس کے ٹھکانوں پر ہندوستانیوں نے پتھراؤ کیا۔

گوڈسے اور ساورکار سمیت آٹھ انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ کسی ایک نے بھی پشیمانی کا اظہار نہ کیا۔ گوڈسے نے گاندھی کے قتل کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہوئے وصیت کی کہ اس کی راکھ کو سمندر میں بہانے کی بجائے ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا جاتا رہے۔ جس روز پاکستان اکھنڈ بھارت کا اٹوٹ انگ بن جائے، تو اسی دن اس کی راکھ کو بھی سندھو جل میں بہا دیا جائے۔ قدیم سندھو دریا کہ جس کے کنارے پر صدیوں قبل رشیوں نے وید لکھے تھے۔

تہتر سال کے بعد گاندھی اور نہرو کا سیکولر بھارت کہ آزادی کے بعد جس کا نام انہوں نے ’ہندوستان‘ رکھنا قبول نہیں کیا تھا، آج ’ہندوتوا‘ کے شکنجے میں ہے۔ آر ایس ایس کی کوکھ سے پھوٹنے والے ارغوانی جتھے ا ب وہاں حکمران، اور مسلمانوں کے درپے آزار ہیں۔ بھارتیوں کے نیتا اب ’اہنسا‘ والے گاندھی جی نہیں، ساورکار اور مودی جی ہیں۔ بھارتی فوج بھی اب آر ایس ایس کا ہی دوسرا نام ہے۔ جرنیل جس کے بی جے بی نیتاؤں کے کاسہ لیس اور انہی کی زبان بولتے ہیں۔ 33 کروڑ بھارتی صرف ٹویٹر پر کارفرما رہتے ہیں۔ صدیوں کی غلامی کے بعد حال ہی میں دستیاب آنے والی آسودگی کے نشے میں دھت، اکثر جن میں سے زہر ہی اگلتے ہیں۔ لگ بھگ چار سو آگ برساتے ٹی وی چینلز لگاتار بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف انہیں بھڑکاتے ہیں۔

دہلی سے سینکڑوں میل دور کبھی پونا سے نکلنے والے ’ہندو راشٹریہ‘ اخبار کے مدیر ناتھو رام گوڈسے کی راکھ اگر تو اب بھی کہیں مٹکی میں ہی پڑی ہے تو ضرور اس کی آتما بھی مودی جی کے بھارت میں ہی کہیں بھٹکتی ہوگی۔ تاہم یہ بھی تو ممکن ہے کہ ارناب گوسوامی نامی بھارتی صحافی، ناتھو رام گوڈسے کا ہی اگلا جنم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments