وہ چیتا کیسے بنا؟


رشید ہمارے محلے کا ایک بہادر جوان ہے۔ اس لئے سارے محلے میں وہ شیدا جری کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے۔ جری نے اوائل عمر میں ایک خواب دیکھا جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس کی آدھی عمر اس خواب کی تعبیر معلوم کرتے گزری اور جری میرا معترف بھی اسی لئے ہے کہ میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اسے اس کی خواب کی صحیح تعبیر بتائی۔

پہلے خواب کا بیان ہو جائے۔ جری کا ایک دفعہ فیل ہونے کے بعد ساتویں جماعت میں دوسرا سال تھا کہ اسے خواب آیا کہ وہ پینٹ شرٹ پہنے گلی کے نکڑ میں اکرم کی ریڑھی سے گول گپوں کی ہاف پلیٹ کھا رہا ہے۔ اچانک ایک بڑی سے گاڑی اس کے پاس آکر رکتی ہے۔ اس گاڑی میں تین معزز شخص بیٹھے ہوتے ہیں جن کا خواب میں ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ تینوں شہر کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے مشہور سرجنز ہیں۔ ان میں سے ایک سرجن جری کو مخاطب کرتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے، ”رشید صاحب آپ ہمارے قافلے میں شامل ہوں گے؟“ جری نے اثبات میں سر ہلایا۔

سرجن بولا، ”رشید آپ چیتے ہیں۔“ اس کے بعد وہ سونے سے بھری ایک گٹھڑی جری کے حوالے کرتا ہے اور گاڑی آگے نکل جاتی ہے۔ جری خوشی خوشی گٹھڑی اٹھا کر دوڑتا ہوا گھر پہنچتا ہے اور جب اسے کھولتا ہے تو اس میں سے سونے کے بجائے صابن، ماسک اور سینی ٹائزرز نکلتے ہیں۔ اس کو صابن اور ماسک کا تو اسی وقت پتہ چل گیا لیکن کورونا وائرس کے آنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ گٹھڑی سے نکلنے والی بوتلیں سینی ٹائزرز کی تھیں۔

نیند سے بیدار ہوتے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس خواب کی تعبیر ضرور معلوم کرے گا۔ اگلے دن وہ محلے کی مسجد کے مولوی صاحب سے ملنے گیا۔ مولوی صاحب نے پہلے تو حیرت اور خوشی کا اظہار کیا کہ جری آج مسجد آیا ہے۔ ہمارے مولوی امان اللہ صاحب کی یہ خوبی ہے کہ اگر کوئی بھٹکا ہوا شخص صراط مستقیم پر آ جائے تو انہیں بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے جری کا خواب غور سے سنا اور جری سے پوچھا اس خواب میں حقیقت کیا ہے اور کیا حقیقت نہیں ہے؟

جری نے بتایا، گول گپوں کی ریڑھی، ہاف پلیٹ اور گلی کا نکڑ سچ ہے جب کہ اس کا پینٹ شرٹ میں ہونا اور کسی کا اس کو صاحب کہ کر پکارنے سمیت باقی سب خواب و خیال ہے۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ ایسا خواب جس میں حقیقت کم ہو اس میں صرف اسی حصے پر غور کرنا چاہیے جو حقیقی ہو۔ انہوں نے جری کو کہا کہ تمہیں عصر کے بعد تعبیر بتاؤں گا۔ مولوی صاحب نے سوچا اسی بہانے جری عصر کی نماز ادا کرلے گا لیکن وہ ٹھیک نماز کے بعد مسجد پہنچا۔ مولوی صاحب کو سخت غصہ آیا اور جری کو دیکھتے ہی بولے، ”تمہارے خواب کی یہی تعبیر ہے کہ تم ساری زندگی نکڑے لگے رہو گے“ ۔ جری بولا، مولوی جی آپ ہمارے محلے کے امان اللہ ہیں۔ یہ کہ کر وہ میرے گھر آگیا۔

ہم سب دوست بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ جری نے اپنے خواب کا مسئلہ بیان کردیا۔ فراز نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ بڑا ہو کر سرجن بنے گا اور ماسک پہن کر لاکھوں روپے کمائے گا۔ پھر ٹیکس کے محکمے سے بچنے کے لئے باقی ڈاکٹروں کی طرح ان پیسوں سے ڈھیر سارا سونا خرید کر گھر میں رکھ لے گیا۔ میں نے فراز سے احتجاج کیا کہ خواب میں ٹیکس کے محکمے کا ذکر کہاں ہے؟ فراز نے جواب دیا کہ، ”جری نے یہ نہیں بتایا کیا کہ اس نے گول گپے کھا کر اکرم کو پیسے دیے تھے یا ایسے ہی گھر واپس آگیا تھا۔ اس لئے خواب میں ٹیکس کے محکمے کا ذکر موجود ہے“ ۔

جمیل نے اسے بتایا کہ وہ اکرم کو کہے کہ صابن سے ہاتھ دھو کر گول گپے بنایا کرے اور تم گول گپے کھاتے رہو دیکھنا کسی دن گول گپے سے ہیرا نکل آئے گا اور تم بہت امیر ہو جاؤ گے۔

میں نے اسے تعبیر بتائی کہ تم سونے پر غور کر رہے ہو لیکن اصل بات بھول رہے ہو کہ سرجن نے خواب میں تمہیں اپنے قافلے میں شامل کیا ہے اور تمہیں چیتا بھی کہا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم زندگی میں سرجن بھی بنو گے اور چیتے بھی بنو گے۔

جری کو کوئی خاص تسلی نہیں ہوئی اور وہ مایوس ہو کر چلا گیا۔ سرجن بننے کے لئے اس نے سائنس پڑھنا شروع کی لیکن اس کچھ سمجھ نہیں آیا۔ یوں وہ فیل ہوتا رہا اور بالآخر اس نے سکول کو خیر آباد کہ دیا۔ تھوڑا عرصہ وہ بے روزگار رہا اور پھر اس نے قصائی بننے کا اہم فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے شعبے میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ وہ اکیلا بیل کو ذبح کر لیتا ہے۔ اس بہادری کی وجہ سے اس کا نام شیدا جری پڑ گیا۔ وہ میرا نہایت ممنون ہوا کہ صرف میں نے اس کو خواب کی آدھی تعبیر سچ بتائی تھی۔

اسے خوشی ہے کہ وہ جانوروں کا سرجن ہے اور اسے حلال جانوروں کی ایک ایک ہڈی اور ایک ایک رگ کا علم ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ انسان تو حرام جانور ہے اس کو چیرنے پھاڑنے سے بہتر ہے تم سارا دن حلال جانوروں کی تکہ بوٹی کرتے ہو۔ ٹھیک ہے انسان کے سرجن کی طرح تم لاکھوں میں نہیں کماتے لیکن گوشت تو حلال جانور کا کھاتے ہو۔ ڈاکٹر سرجن کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ جو کھا رہا ہے کسی حلال جانور کا گوشت ہے یا گدھے کا ہے۔

اس کو چند دن پہلے تک باقی آدھی تعبیر پر شک تھا کہ وہ کبھی چیتا بنے گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ نیک لوگ جو خواب دیکھتے ہیں وہ سچ ہوتے ہیں اس لئے ایک نہ ایک دن تم ضرور چیتا بنو گے۔

کرونا وائرس کی وبا کہ بعد جب سینی ٹائزرز کی عزت و حرمت میں اضافہ ہوا اور وہ سونے کے بھاؤ بکنا شروع ہوا تو جری کو اپنا خواب سچ معلوم ہونے لگا۔ اسے تب احساس ہوا کہ خواب میں سونے کی جگہ نکلنے والی بوتلیں سینی ٹائزرز کی تھیں۔ یہ سوچ کر وہ سہم گیا کہ کہیں وہ سچ مچ میں چیتا نہ بن جائے۔ جری مولوی صاحب کے پاس معافی مانگنے اور اپنے حق میں دعا کروانے گیا۔ ساتھ ان کے لئے تھوڑا بکرے کی پنڈلی کا گوشت بھی لے گیا۔

مولوی صاحب نے گوشت لیا اور اسے صدق دل سے معاف کردیا۔ جری کے حق میں دعا فرمائی اور ساتھ اسے نصیحت بھی کی کہ، ”جیسے آج تم نے مجھے گوشت دیا ہے آئندہ ایسے کسی کو مت رشوت دینا“ ۔ انہوں نے اسے پتے کی بات بتائی کہ رشوت دینا سخت گناہ ہے لیکن لینے والے کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ جری نے بات سنی اور مولوی صاحب کو کہا، ”امان اللہ صاحب آپ کا شکریہ“ اور واپس آگیا۔

کل افطار کہ بعد جری میرے گھر آیا اور سماجی دوری کے باوجود مجھ سے لپٹ کر رونے لگ گیا۔ کہنے لگا، میں آپ کو مان گیا ہوں۔ آپ خواب کی سچی تعبیریں بتاتے ہیں۔ آج میں چیتا بن گیا ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو وزیر اعظم کی ٹائیگر فورس میں رجسٹرڈ کروا لیا ہے اور اب مجھے ایک ٹی شرٹ بھی ملے گی جس پر چیتا لکھا ہوگا۔ میں سرجنز کے ساتھ کام کروں گا۔ میں نے اسے تھپکی دیتے ہوئے کہا، بیٹا زیادہ خوش نہیں ہو یہ بھی سوچو سونے کی گٹھڑی کھولی تو اس کے اندر سے نکلا کیا؟

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments