رمضان میں شیطان کا خط



شیطان کا خط
از وادی جہنم
محلہ آگ نگر
گلی تندوری تپش والی

امت مسلمہ! میرا نام ابلیس ہے۔ دنیا مجھے شیطان کے نام سے جانتی ہے۔ شیشے کی لنگری میں مصالحہ کوٹتے ہوئے اگر کوئی عورت لنگری توڑ دے تو بھی ذمہ دار مجھے ہی گردانا جاتا ہے۔ بھلا ہو آپ لوگوں کا جو میرے کام سنبھال لیے ہیں۔ میں ان دنوں چھٹی پر ہوں لیکن پھر بھی میرا کام خوب چل رہا ہے۔ جونہی یہ مہینا آتا ہے مجھے قید کر دیا جاتا ہے لیکن آپ لوگوں کی نیازمندی ہے جو مجھے اپنے من سے دیس نکالا نہیں دیا۔ میں آپ لوگوں کا یہ احسان کبھی جہنم میں بھی نہیں بھلا پاؤں گا کہ آپ نے دنیا میں میری کمی محسوس ہونے دی اور نہ ہی میرا کوئی کام رکنے دیا۔ آپ لوگوں نے بغیر تنخواہ کے میری ڈیوٹی نبھائی۔ اس پر بارے دیگر میری طرف سے شکریہ!

میرے مسلمان دوستو! تم خوش ہو کہ میں اس یہ مہینا قید ہوں لیکن میری عدم موجودگی میں تم نے کون سا تیر مار لیا ہے؟ میں قید ہوکر بھی تم لوگوں کے درمیان ہی تو ہوں۔ بلکہ شاید تمہیں یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ محض تمہاری وجہ سے اس مہینے میں تو مجھے پہلے سی لگن، محنت اور جانفشانی بھی نہیں دکھانا پڑتی۔ یوں سمجھو ادھر تمہارے منافع ڈبل ادھر میری کامیابیاں ڈبل۔ یقین نہ آئے تو ماہ رمضان سے پہلے والی ریٹ لسٹ پر ایک نظر دوڑا لیں۔

میرے ہم جولیو! قید میں ایک دن ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ یہاں بس میں ہوں اور آپ کی یادیں ہیں۔ مجھے وہ سیٹھ صاحب بھلائے نہیں بھولتے جن کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ لاکھوں میں کھیلتے تھے، ہر سال رمضان کا آخری عشرہ حرم شریف میں اعتکاف بیٹھتے تھے اور ہر دو سال بعد حج کرنا ان کا معمول تھا۔ اٹھتے بیٹھتے مجھ سے پناہ مانگتے رہتے تھے۔ کل ہی محلے کے خبری نے خبر مجھے خبر پہنچائی ہے کہ بیٹی نے جائیداد اور کاروبار میں حصہ مانگا ہے اور حاجی صاحب نے اخبار میں عاق نامہ شائع کرا دیا ہے۔

ان سے میرا تعارف پچھلے سال قل شریف کی محفل میں ہوا تھا۔ سیٹھ صاحب کے باورچی کی بیوی فوت ہو گئی تھی جو ٹی بی کی مریضہ تھی۔ کھانستے کھانستے زندگی پوری ہو گئی لیکن دوا دارو کے پیسے پورے نہ ہوئے۔ اس کی پانچ بیٹیاں ہیں اور سب کی پیدائش اسی کوٹھی میں ہوئی ہیں لیکن سب ان پڑھ ہیں کیونکہ ماں باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ انہیں سکول بھیجتے۔ اب تو ماشاء اللہ چھوٹی بھی شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی ہے مگر سب کنواریاں ہیں۔

ماں مر چکی ہے اور باپ دن بھر سیٹھ صاحب کے ساتھ کبھی ادھر جا کبھی ادھر جا۔ اب ان حالات میں رشتے کون دیکھے اور اور شادی کا خرچا کہاں سے آئے؟ میں نے کئی بار ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھا ہے وہاں شادی کے بڑے ارمان ہیں۔ ان کا دل کرتا ہے کہ خود ہی شادی کر لیں لیکن پھر ڈر جاتی ہیں کہ معاشرہ کیا کہے گا؟ جب بھی سیٹھ صاحب عمرے، اعتکاف اور حج کے بعد واپس آتے ہیں اور شہر کے امرا کی دعوت میں رنگ برنگے کھانوں کی دیگیں چڑھائی جاتی ہیں تو وہ یہ سوچتی رہ جاتی ہیں کہ کاش ہمارے ابو کے پاس بھی اتنے پیسے ہوتے تو ہماری شادیاں ہی ہو جاتیں۔

جنت کے طالب میرے پیارو! اللہ نے مجھے جنت سے نکال دیا لیکن سلام اس قوم پر جس نے مجھے اپنے من میں پناہ دی۔ وہ دل جس میں خدا بھی ہے اور میں بھی۔ وہ حافظ جس کے سینے میں قرآن بھی ہے اور میرا مسکن بھی۔ وہ بوڑھا زاہد جسے حوروں کی طلب بھی ہے اور محلے کی لڑکیوں کے نام بھی ازبر ہیں۔ وہ والد جس کی نظر میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان فرق کرنا لازم ہے وہ شوہر جسے اپنی بیوی کے علاوہ ہر عورت تمیزدار نظر آتی ہے۔ وہ لاٹ صاحب جن کے ہاں افطاری میں ہزاروں اڑا دیے جاتے ہیں لیکن ہمسائے میں کوئی بھوکا سو جاتا ہے۔

وہ مفتی جس کے سارے فتوے دوسروں کے لیے ہیں۔ وہ نمازی جس کی نظر میں ساری خامیاں بے نمازی میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ڈاکٹر جس کی مہنگی فیسوں سے غریب نے کٹیا بیچ دی لیکن اس کی این جی او غربت کے نام پر بیرون ملک سے فنڈ اکٹھا کرتی ہے۔ وہ پیر طریقت کہ مریدوں کی وجہ سے اس تقدیر بدل گئی لیکن مرید جوں کے توں رہے۔ شیخ شریعت کہ جس کا محل بقعہ نور بنا ہوا ہے لیکن اس کے مریدین و متوسلین کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ وہ مہتمم جس کے بچے یونیورسٹیوں میں پڑھتے رہے لیکن مدرسے کے طلبہ دو جمع دو سے آگے نہ بڑھ سکے۔

وہ ٹھیکیدار جس نے اپنی ایمپائر کھڑی کر لی لیکن اس کی بنائی ہوئی سڑکیں ہر سال ریپئر ہوتی ہیں۔ وہ شیریں لساں مقرر جسے حور کے گھٹنے کا گودا نظر آ جاتا ہے لیکن حاکم وقت کے عیب نہیں۔ وہ محافظ جس کی نگرانی میں کسی کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی۔ وہ استاذ جو طلبہ میں اچھے برے کی پہچان پیدا نہ کر سکا۔ وہ مبلغ جو بادشاہ کے دربار تک پہنچ گیا لیکن اس کی دعائیں عرش تک نہ پہنچ پائیں۔ وہ اینکر جسے دنیا جہاں کی خبر ہوتی ہے لیکن اپنے ماتحت عملے سے ناواقف رہتا ہے۔

وہ طلبہ جنہیں کلاس کی لڑکیوں کا پورا بائیو ڈیٹا یاد ہوتا ہے لیکن گیٹ کھڑے چوکیدار کا نام نہیں۔ وہ جو آج بھی رشوت کو نذرانہ اور تحفہ کہتا ہے اور وہ سارے باعمل مسلمان جو صحابہ و اہلبیت اور توحید و رسالت کے نام پر گروہ بندی کر کے میرا کام آسان کر رہے ہیں ان سب کو میرا خصوصی سلام پیش ہو۔ یہ لوگ مجھے بہت ہی پیارے لگتے ہیں کیونکہ یہی تو اس زمانے میں میری پہچان اور انسان کے روپ میں میرا اوتار ہیں۔

میرے چاہنے والو! پریشان نہ ہونا۔ اگرچہ میں روزوں والا مہینا قید ہوں اور تم سے دور ہوں لیکن درحقیقت میں تمہارے چاروں طرف موجود ہوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ گیا ہی کب ہوں؟ ذرا دیکھو تو منبر رسول سے ابھی تک لوگوں کو کافر کہا جا رہا ہے۔ درزی کی قینچی اپنی مہارت دکھا رہی ہے۔ دودھ میں پانی ملایا جا رہا ہے۔ مرچوں اور سرخ اینٹوں کا ملاپ بھی ابھی تک جاری ہے۔ جو چیزیں رمضان المبارک سے پہلے نایاب ہو گئی تھیں ڈبل ریٹ کے ساتھ وافر مقدار میں موجود ہیں۔

دھنیے میں باجرے کی آمیزش جاری ہے۔ لوہے کے برادے کو ابھی تک پتی میں ڈال کر بیچا رہا ہے۔ زکٰوۃ کے فنڈ سے حج۔ عمرے اور افطار پارٹیاں بھی جاری ہیں۔ آلو والے پکوڑے بیسن کے بھاؤ کے بیچے جا رہے ہیں۔ کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ درندگی کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ کیا جوا اور چوری رک گئی ہے؟ شوہر نے اپنی اولاد کے سامنے بیوی کو گالی دینا اور مارنا پیٹنا چھوڑ دیا ہے؟ جھوٹ۔ ریاکاری۔ شراب نوشی۔ حسد۔ چغلی۔ کینہ پروری۔ چوری۔ قتل و غارتگری۔ ملاوٹ۔ ناپ تول میں کمی۔ ہوس۔ زنا۔ اغوا۔ ڈکیتیاں اور سود بند ہو گیا ہے؟

اگر یہ سب کام جاری ہیں تو کون کہتا ہے کہ میں قید کر دیا گیا ہوں؟ بلکہ اب تو مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اگر میں مر گیا بھی گیا تو میرے یہ جانشین میرا کام جاری رکھیں گے۔ بلکہ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ ایک عرضی اللہ کی بارگاہ ڈال ہی دوں کہ جب یہ سارے کام انسانوں نے سنبھال لیے ہیں تو مفت میں شیطان بدنام کیوں؟ سوچ رہا ہوں کہ جب تک آپ لوگ زندہ ہیں میرا کام تو ویسے بھی چلتا رہے گا تو کیوں نہ میں ریٹائرمنٹ لے کر تماشا دیکھوں؟

تمہارا شکرگزار
ابلیس عرف شیطان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments