ڈاکٹر بخشی، ولیم بھاگو، اور ایک چور


ملک خداداد میں کورونا، کوارنٹین اور لاک ڈاؤن کا شور شرابا جاری ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا حکم صادر کر دیا ہے۔ سندھ سمیت چاروں صوبے ہاتھ باندھے حکم بجا لا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ سرکار کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم کا حکم بجا نہیں لائیں گے تو پھر درویش کی دعا سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کی کانفرنسز بے سود ثابت ہوئیں۔ خان صاحب نے کسی کی نہ مانی پورے ملک میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے مگر شاید یہ گمان ہوتا ہے کہ خان صاحب کو کوہ قاف کے جنون نے ہی بتایا ہوگا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کردو باقی ملک اور عوام اللہ کے حوالے، سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا اور اگر کچھ برا ہوا بھی تو قصور وار عوام، اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ہوگا۔

خدا نہ کرے کہ ہمارا حال بھی راجندر سنگھ بیدی کے افسانے کوارنٹین والا جیسا ہو اور خان صاحب افسانے والے ڈاکٹر بخشی بن جائیں اور عوام خاکروب ولیم بھاگو بن کر اس کورونا کی وبا میں غرق نہ ہو جائیں۔

اردو کے ایک بہت بڑے افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے طاعون کی وبا پر ”کوارنٹین“ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا۔ افسانے میں ایک مسیحی خاکروب ”ولیم بھاگو“ کا ایک ایسا عظیم کردار پیش کیا گیا تھا جو وبا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اٹھاتا اور قرنطینہ ہوئے بیمار مریضوں کا بہت خیال رکھتا۔ اس افسانے کے مطابق شاید وبا کی وجہ سے اتنے لوگ نہیں مرے تھے جتنے کہ کوارنٹین کی وجہ سے۔ بیدی افسانے میں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :

طاعون کی وبا خوف ناک تو تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ طاعون سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ”نہ چوہا نہ پلیگ“ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے لوگوں نے ان اشتہارات پر ”نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین“ لکھ ڈالا تھا۔

بیدی نے اسی افسانے میں ایک ڈاکٹر (ڈاکٹر بخشی) کا کردار بھی دکھایا ہے جس میں فرض شناسی کا جذبہ بھاگو کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر جب بھاگو کی اپنی بیوی کو بھی یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو ڈاکٹر بخشی اس کو نیچ گردانتے ہوئے بھگا دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اپنی بیوی کی لیے شفا یسوع مسیح سے مانگو مگر بعد میں ڈاکٹر کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس کے علاج کے لیے اس کے گھر جاتا ہے مگر صد افسوس کہ بھاگو کی بیوی جانبر نہیں ہو پاتی اور بھاگو اپنے بلکتے ہوئے بچے کو بیوی کی لاش سے زبردستی الگ کرتا ہے اور دوبارہ مریضوں کی خدمت میں مصروف ہو جاتا ہے۔

افسانے کے آخر میں وبا کے خاتمے پر ڈاکٹر کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک جلسہ عام میں اس کی تعریف و توصیف ہوتی ہے، انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے، لیکن خاکروب بھاگو کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے اور ڈاکٹر بخشی کو اعزازی طور پر لفٹیننٹ کرنل کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ اپنی پرغرور گردن کو اٹھائے ہوئے، ہاروں سے لدا پھندا، لوگوں کا ناچیز ہدیہ، ایک ہزار ایک روپے کی صورت میں جیب میں ڈالے ہوئے جب ڈاکٹر بخشی گھر پہنچا، تو اسے ایک طرف سے آہستہ سی آواز سنائی دی۔ بابو جی۔ بہت بہت مبارک ہو۔

بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا ڈاکٹر بخشی بولا تم ہو؟ ندامت سے بھرپور ڈاکٹر بخشی بولا بھاگو بھائی بھلے ہی دنیا تمھیں نہیں جانتی پر میں تو جانتا ہوں۔ تمھارا یسوع تو جانتا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر بخشی حیرت کی تصویر بنا بھاگو کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اتنے اعزازات حاصل کرنے کے باوجود مجھے کیوں اپنی بے توقیری کا احساس ہو رہا ہے اور اس قدر شناس دنیا کا ماتم کرنے کا جی چاہ رہا ہے۔

اس وقت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی سیاسی قیادتیں مل بیٹھ کر کوئی جامع پالسی مرتب کرتیں مگر یہ ممکن نہ سکا۔ وفاقی حکومت صرف سندھ سرکار سمیت اپوزیشن کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ہر طرف بس خان صاحب کی عقل و دانش کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس سمیت ملکی ڈاکٹروں کی پیش گوئیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنی منطق اور خام خیالی سے کورونا جیسے موذی وبا کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا ہے۔

حکومت چینی، آٹے اور آئی پی پیز سمیت کئی اسکینڈلوں کو منظر عام پر لانے کی پراہ کیے بغیر اختیارات کے حصول کے لیے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نظر ثانی کرنے اور دفاعی بجٹ کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں کٹوتی کا راگ درباری الاپ رہی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے یہ تو ہوگا۔

یہاں پر حکومت کا حال اس چور جیسا ہے کہ جسے ایک دن پولیس قتل کے الزام میں گھر سے پکڑنے آئی تو اس کی بیوی نے پیچھے سے آواز دے کر اسے پکارا کہ واپسی پر سبزی لیتے آنا۔

جب عدالت میں اسے جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے بغیر جانچ پڑتال کے اسے سزائے موت سنا دی۔ عین اسی وقت چور کا عدالت میں موجود خاتون کو دیکھ کر دل مچلنے لگا تو وہ چور جج کو بولا کہ تمہارا دماغ، میری بیوی کا دماغ اور میرے دل کا دماغ بالکل ایک ہی جیسے ہیں جس پر جج نے فوراً پوچھا وہ کیسے؟ اس پر چور نے جواب دیا کہ جب مجھے قتل کے الزام میں گھر سے پولیس پکڑ کر لے جا رہی تھی تو اس وقت میری بیوی بول رہی تھی کہ واپسی پر سبزی لیتے آنا اور آپ کی پاس پولیس نے پیش کیا تو بغیر پوچھ گچھ کے آپ نے سزائے موت سنا دی اور موت کی سزا سننے کے باوجود بھی خاتون کو دیکھتے ہی میرا دل مچلنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments