بھارت میں مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہے ؟


اس وقت ہمارا ملک ہندوستان جس عجیب وغریب حالات سے گزر رہا ہے یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہرطرف نفرت کی فضاء عام ہو رہی ہے۔ ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود حکمراں طبقے کی جانب سے پوری قوت کے ساتھ یہ بھرم بھی پھیلایاجا رہا ہے کہ ملک میں سب ٹھیک ہے۔ کہیں کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری چیزیں اس کے برعکس ہو رہی ہیں۔ ایک طبقے وہ ہے جو مسلسل ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا یا جا رہا ہے۔ میڈیا اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عدلیہ کو یرغمال بنالیا گیا ہے، مقننہ اس بات پر اپنی قوت صرف کر رہا ہے کہ کیسے ایک خاص مذہب کے لوگوں کو مجرم اور غدار بنایا جائے، ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھ کر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے، ان کی زند گیا ں اجیرن بنائی جائے، سماج میں ان کے خلاف نفرت کابیج بویا جائے، گویاہر اعتبار سے انھیں سماج سے بالکل الگ تھلگ کر دیا جائے، اور کہیں نہ کہیں وہی سب کچھ دہرانے کی کو شش کی جارہی ہے جواسپین میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، اسپین اور اندلس میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی عبرت ناک ہے۔ ایک ایسی داستان ہے جس کو سننے کی ہرشخص ہمت نہیں کر سکتا، لیکن حقیقت سے انکار بھی نہیں جا سکتا اس لیے وہ دلخراش داستان تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اس کی وجوہات کیا تھیں؟

اور کیوں وہاں کے مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی تاریخ رقم کی گئی؟ یہ بھی ایک فکرانگیز سوال ہے جس پر انشاءاللہ کسی موقع پر روشنی ڈالی جائے گی۔ اس وقت صرف اتنا جان لینا ضروری ہے کہ دہلی کے ایک اخبار نے 28 اپریل 1998 ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا مختصر سا اقتباس یہ ہے کہ ”چند سال قبل آر ایس ایس نے اپنا ایک وفد ہندوستان سے اندلس (اسپین) اس لیے بھیجا تھا تاکہ وہاں جاکر وہ یہ تحقیق کرے کہ تقریباً ایک ہزار سال وہاں مسلم حکومت ہونے کے باوجود آج وہاں اسلام کا نام ونشان عمارت وغیرہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں ایسا کیوں؟

یہ اتنا بڑا کام اسپین والوں نے کس طرح کیا؟ یہ وفد وہاں پہونچا اور جاکر تحقیقات کی توا نکو لوگوں نے بتایا کہ ہم نے مسلمان قوم کا اعتماد ان کے علماء پر سے اٹھادیا، وفد ہندوستان واپس آیا اور آرایس کو اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس میں تفصیل سے اسپین میں ہوئی تبدیلی اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ظلم وبربریت کی دلخراش داستان کاجائزہ لیا گیا تھا ”، (دیکھئے روزنامہ قومی آواز دہلی) اسی دن سے آرایس ایس، اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، ملک کی موجودہ صورتحال کاجائزہ لیجیے تویہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ یہ سب کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

بھارت میں آج کل جوصور تحال ہے یہ اسی ایجنڈے پر عمل آوری کانتیجہ ہے۔ کوئی مسلمان یہاں اپنے حق کی آواز نہیں اٹھا سکتا، حکومت کی جانب سے دستور میں دیے گئے آزادی اور ہمارے حقوق ہمیں فراہم نہیں کیے جائیں گے۔ اگر اس کے خلاف کوئی آواز بلند کرتاہے تو اس پر پوری شدت کے ساتھ کارروائی ہو رہی ہے اور حکومت کاناپاک شکنجہ اس کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ”بھارت ایک سیکولر ملک ہے“ شاید یہ جملہ اب کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ ملک کی حالت کتنی دگرگوں اور سنگین ہوتی جارہی ہے اس کا ہم تصور تک نہیں کرسکتے، دستوری ادارے، عدلیہ، مقننہ، اور میڈیا یہ سب یرغمال بنالئے گئے ہیں۔

اب ہرقانونی شکنجہ صرف اور صرف اس ملک کے مسلمان کے لئے باقی رہ گیا ہے، کرونا وائرس کی آڑ میں لاک ڈاؤن کاجوسلسلہ چل رہا ہے اور اس بہانے سے شاہین باغ، جامعہ ملیہ، دہلی اور ملک بھر کے دیگرشہروں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے لئے تیارنہیں ہرطرف سناٹا ہے، کسی بھی سیاسی پارٹی اور کسی لیڈر نے ابتک اس مسئلہ پر آواز بلند نہیں کیا، مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں صرف اس وجہ سے ہو رہی ہیں کہ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ سمیت ملک بھر میں مسلمانوں نے ایک کالے قانون ”سی اے اے اور این آرسی“ کی پر زور مخالفت کی تھی جس کے بعد ملک کے تقریباً 300 شہروں میں شاہین باغ کے طرز پر احتجاجی مظاہرہ منظم کیا تھا، جوتین مہینے سے زائد تک چلاجس میں مسلم خواتین نے پورے جوش وخروش سے حصہ لیا تھا، اسی جرم کی پاداش میں ملک بھر میں مسلمانوں کی گرفتاریوں کاسلسلہ جاری ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نوجوانو ں کے ساتھ خواتین کو بھی اسی جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

UAPA کے نام سے جس کو موجودہ حکومت نے ابھی گزشتہ سال دسمبرمیں تر میم کرکے پارلیمنٹ سے پاس کرایا ہے، اس قانون کی آڑ میں خاص طور سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ دہلی کی ایک مسلم طالبہ جو شادی شدہ اور حاملہ ہے اور اس کا تعلق کشمیر ہے اس کو گزشتہ 10 فروری کو دہلی پولس نے گرفتارکیا تھا، دوتین دن کے بعد ان کی ضمانت ہوگئی تھی کو رٹ نے ان کی رہائی کاحکم دے دیا تھا، ان کو رہاکیا جاتا اس سے پہلے دہلی پولس نے ان پر یواے، پی اے، کے تحت سنگین الزام عائد کر دیاجس کی وجہ سے وہ اب تک یعنی تین ماہ سے تہاڑ جیل میں قید ہے۔

سوشل میڈیا پر زور وشور سے یہ خبرآج کل گشت کررہی ہے لیکن مجال ہے کہ ملک کامیڈیا یاکوئی اپوزیشن قائد اس مظلوم طالبہ کی حمایت میں آواز اٹھائے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جوروز ہمارے سامنے انجام دیے جا رہے ہیں اور ان سب کاشکار صرف مسلمان بن رہا ہے جولوگ افواہ پھیلاکر ملک کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ نفرت انگیز نعرے لگارہے ہیں۔ غلط الزام کے تحت ایک بھیڑ کسی پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس کو موت کے گھاٹ اتاردیتی ہے لیکن اس بھیڑ کے خلاف یانفرت انگیز نعرے لگانے والوں کے خلاف، جھوٹی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف، لوگوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا کیوں کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے، اگر یہ مسلمان ہیں اور انکاجرم کچھ بھی نہیں تب بھی انھیں مجرم بنادیا جائے گا۔ کوئی بھی الزام لگاکر انھیں بہت آسانی کے ساتھ جیل کی سلاخوں میں ڈال دیاجاتا ہے اور ملک بھر کے تمام ادارے، ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے کیایہی جمہوریت ہے؟

2014 کے الیکشن کے بعد ملک میں جس طریقے سے ظلم وبربریت کاننگا ناچ گیا اور جمہوریت کاجنازہ نکالا گیا یہ بڑا افسوسناک ہے اسکاسلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آپ ذرا سوچئے جن لوگوں نے دہلی جلائی، وہاں حیوانیت بھی شرم شار ہوگئی، جہاں لوگوں کی عزت وآبرو پامال کی گئی۔ کئی دنوں تک مسلسل دہلی جلتی رہی، لوگوں کے گھر اور دکانیں لوٹ لی گئی۔ کئی سولوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا، کیا ایسے لوگوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی ہوئی؟

اگر ہوئی توصرف مسلمانوں کے خلاف، عام آدمی کے طاہرحسین کے خلاف کیوں کہ یہ مسلمان تھے۔ انکاسب سے بڑاجرم یہی ہے یہ لوگ مسلمان ہیں۔ غیرمسلموں کے خلاف یہاں کوئی کارروائی نہیں ہوگی، الیکشن کے موقع پر بی جے پی کے جن لیڈروں نے نفرت آمیز نعرے لگائے، اشتعال انگیزی کی اور بھڑکاؤ بھاشن دیے کیا ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی ہوئی؟ کیوں ہوگی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں کہ یہ مسلم نہیں ہیں اس لیے ان کا ساراجرم معاف ہے۔

اعظم خان مسلمان ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ان کی یونیورسٹی تک کو نہیں بخشا گیا۔ وہ اب بھی فیملی کے ساتھ پس دیوار زنداں ہیں۔ انھیں ایک تازہ شکار اور مل گیا۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام کی شکل میں، ان کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ آئیے پہلے یہ جانتے ہیں ڈاکٹر ظفرالاسلام کو ن ہیں اور ان کا جرم کیاہے؟

ڈاکٹر ظفر الا سلام خان ایک غیر سیاسی شخص ہیں۔ وہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح کے ایک اعلی تعلیم یافتہ اسلامی اسکالر ہیں۔ عربی کے علاوہ انگریزی زبان پر ان کو مکمل عبور حاصل ہے۔ عرب ممالک میں انکوبڑے عزت واحترام کی نگاہ سے نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی، اس سے پہلے وہ مصر کے جامعة الازہر یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم کے سلسلے میں مقیم ر ہے، پچاس سے زائد کتابیں انھوں نے تصنیف اور ترجمہ کیا ہے، ایک لمبے عرصے تک وہ ”ملی گزٹ“ کے نام سے ایک انگریزی اخبار نکالتے ر ہے، جس میں نمایاں طور پر پوری بے باکی کے ساتھ مسلم مسائل کی رپورٹنگ کرتے ر ہے، وہ غریبوں اور مفلوک الحال کی مدد کے لئے ایک سرگرم رفاہی ادارہ بھی چلاتے ہیں جس کے تحت انھوں نے بڑاکام انجام دیا ہے، مظفر نگر فسادات کے مظلومین کے لئے 32 گھروں پر مشتمل ایک کالونی بھی بنائی ہے۔

اس کے علاوہ بنگال کے مرشدآباد میں غریب بچوں کا ایک اسکول بھی چلاتے ہیں۔ ایک عرصے تک وہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر بھی رہے اور اس تنظیم کو متحرک وفعال بنایا، ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں کو یتی حکومت کا انھوں نے شکریہ اداکیا تھا، ہندوستانی مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم کو دیکھکر کئی عرب ممالک نے مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، جس میں کو یت بھی شامل ہے۔

اسی کاڈاکٹرظفرالاسلام خان نے شکریہ اداکیا، دہلی میں فساد میں جس طرح منظم طور پر مسلمانوں کانقصان کیا گیا اور املاک اور گھروں کو لوٹا گیا، یہ تماشا پوری دنیانے دیکھا، اور کچھ ممالک یہ دیکھکر بیدار ہوئے اور ہندوستان کے مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہارکیا تھا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر خان نے شکریہ اداکیا، بس یہی انکاجرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں ”اشتعال انگیز اور دیش دروہی کامقدمہ قائم کر لیا گیا ہے، اور اب انکواقلیتی کمیشن سے ہٹانے کی آواز زور وشور سے جاری ہے۔

حالانکہ یہ کوئی بہت بڑامعاملہ نہیں تھا جس کو طول دیاجاتا لیکن اصل معاملہ یہ ہے یہ مسلمان ہیں اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس لیے اب ان کو ٹارگیٹ کرنے کاسلسلہ جاری ہے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے انکوہائی لائٹ کر دیا ہے، ان کا جرم یہ بھی ہے کہ انھوں نے اقلیتی کمیشن کو متحرک اور فعال بنایا، کو روناوائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم تبلیغی جماعت کے ذریعے جوچھیڑی گئی اور اس میں تبلیغی جماعت کی الگ حدبندی جوحکومت کی جانب سے کی گئی۔

اس کے خلاف سے پہلے انھوں نے ہی آواز اٹھائی، دہلی کی مسجدوں میں رمضان کے دوران اذان پر پابندی کی کو شش کو انھوں نے ہی ناکام بنایا، دہلی فساد کے وقت مصیبت زدہ اور تباہ وبرباد لوگوں کو انھوں نے کافی راحت پہونچائی، اور بارباران علاقوں میں لوگوں کی دادرسی اور خبرگیری کرتے ر ہے، اور اس کے لئے دہلی کی کیجریوال سرکار کو باربار متوجہ کرتے ر ہے، گویاکہ یہ ایک ہمہ گیر، متحرک اور فعال شخصیت ہیں جوآج سنگھی حکومت کے نشانے پر ہیں، اس ملک میں لوگوں کو زندہ جلادیاجاتا ہے لیکن اس پر کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کوئی ایکشن نہیں، لیکن اگر آپ مسلمان ہیں تو پھریہ ساراقانون آپ کے لیے ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ لوگ بھی ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر ہمارا یہی طریقہ اور رویہ رہا تھا تو مشکل وقت اور خطرناک حالات میں سچ بولنے والے اور مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھانے والے کو ن ہوں گے؟

کیاہمیں اس پر غور نہیں کرناچاہیے؟ ایسے وقت میں جب حق اور سچ بولنے ولکھنے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ سولی پر لٹکایاجا رہا ہے کیاکوئی پھر اس کی ہمت کرسکے گا؟ اگر آج ہم نے ایسے لوگوں کی حمایت نہیں کی اور آواز نہیں اٹھایا تو پھرکون ہماری آوازبننے کے لئے تیار ہوگا؟ یہ وقت سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کاہے کہ آج ملک کاسنگھی میڈیا جس کا چاہتاہے ٹرائل شروع کردیتا ہے، اور پھراسکے نتیجے میں ان پر قانونی شکنجہ ڈال دیاجاتا ہے۔

ہم ایسے وقت میں متحد ہوکرآواز نہیں اٹھا سکتے، مظلوم کی حمایت نہیں کرسکتے، اس طرح کی کردارکشی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے، آزمائش اور امتحان کی اس نازک اور اہم وقت میں کھڑے نہیں ہوسکتے توپھر مستقبل میں جرات وبے باکی اور ایمانداری سے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کی ہمت کو ن کرے گا؟ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسے باصلاحیت لوگ قوم کے لئے باعث فخرہیں، افسوس اس بات کابھی ہے کہ اب تک کسی بھی مسلم تنظیم یامسلم ادارے اور ان کے ذمہ داران کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کی حمایت میں کوئی بیان اب تک موصول نہیں ہوا۔

ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ اس وقت ہم پر ایسی حکومت مسلط ہے جو ایسا مسلمان چاہتی ہے جو گونگا، بہرا ہونے کے ساتھ ضمیرفروش اور مردہ ضمیر بھی ہو، کسی آئینی ادارے کے کسی پوسٹ پر وہ ایسے مسلمان دیکھناچاہتی ہے جونہ حق بول سکے، نہ حق لکھ سکے اور نہ ہی حق کے لئے آواز بلند کرسکے، بس آپ سرکاری مراعات حاصل کرتے رہیے، اور ہم سے سوال مت کیجئے، اپنے حقوق مت طلب کیجئے، اگر آپ نے غلطی سے بھی کوئی ایساقدم اٹھالیا تو پھر آپ کو قانون کے شکنجے میں جکڑدیا جائے گا۔ پس دیوار زنداں کیا جائے گا۔ الزام تراشی اور جھوٹ کاسہارالیکر پابند سلاسل کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو پھانسی پر بھی چڑھا دیا جائے گا۔ کیا آپ ان حالات کو محسوس نہیں کرتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments