کورونا :ٹیکنالوجی کی جنگ شروع


پورا قصبہ ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ آغاز یوں ہوا کہ امریکہ کی لیبارٹریوں میں ایک وائرس پر تحقیق ہوئی۔ اس وائرس کے ساتھ ایسی بائیو لوجیکل انجینئرنگ کی گئی کہ یہ کسی طریقہ کار کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ سمجھیں یہ ایک خوردبینی سپاہی تھا جسے دشمن ریاست میں خوف اور بیماری پیدا کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔ اس سے خوف پیدا کر کے کسی بھی علاقے کا نظام زندگی برباد کیا جا سکتا تھا۔ چین کے پاس چار ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائر ہیں۔

چین نے یورپ اور افریقہ کے بعد امریکی منڈیوں میں بھی اپنا سکہ جما لیا ہے۔ شاید معاملہ اس وقت شدت پکڑ گیا جب فائیو جی ٹیکنالوجی کو عام کرنے میں اہم کردار کی مالک کمپنی ہواوے کو امریکہ نے پابندیوں میں جکڑ دیا۔ یہ بھی حکم جاری ہوا کہ جو امریکی کمپنی ہواوے کے ساتھ کام کرے گی اسے بین کر دیا جائے گا۔ خیر امریکی وائرس اور فائیو جی کے درمیان ایک تعلق ہے جس کی کھوج کی جا سکتی ہے۔ وائرس چین پہنچایا گیا۔ ابتدا میں اس نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا لیکن چینی پہلے ہی ایسے وائرسوں پر تجربات کر رہے تھے۔

انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ وائرس کس ملک کا برانڈ ہے۔ انہوں نے وائرس میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں پیدا کر کے اسے وہاں بھیج دیا جہاں سے آیا تھا۔ یہاں بل گیٹس کا کردار سامنے آیا۔ یہ کردار فائیو جی اور وائرس کا درمیانی لنک ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے وائرس کو کنٹرول میں رکھنے کی جو بائیولوجیکل ٹیکنالوجی تیار کی تھی وہ میوٹیٹ شدہ کورونا کے سامنے ناکارہ ثابت ہوئی۔ دونوں ملکوں کے انتہائی اعلیٰ فیصلہ ساز دماغ باہمی چپقلش کی اس صورت حال سے واقف ہیں لیکن دونوں خاموش ہیں تاکہ بدتر حالات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

چین نے امریکی حملے کو کاؤنٹر کیا بلکہ جوابی وار کر دیا جس کا علاج امریکہ کے پاس نہیں۔ ایسا ہی سمجھیں چین نے امریکی میزائل کے جواب میں لیزر حملہ کر دیا ہو۔ اس صورت حال کا ایک پہلو یہ ہے کہ چین کی کمپنیوں نے ساری دنیا کو وینٹی لیٹر، حفاظتی لباس اور ٹیسٹنگ کٹس فراہم کیں۔ ووہان میں جتنا نقصان ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ کما لیا۔ چینی ماہرین نے مشاورتی خدمات انجام دیں اور دنیا کو ایک ناقابل علاج بحران میں قیادت فراہم کی۔

چین نے کورونا سے نمٹنے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں اپنے ہاں کام کرنے والی 23 ہزار غیر ملکی کمپنیوں کے اکثریتی حصص خرید لیے۔ اب یہ غیر ملکی کمپنیاں اور ان کے معاملات چین کے لئے سربستہ راز نہیں رہ گئے۔ امریکہ نے طویل عرصے سے چین میں اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو داخل کر رکھا ہے۔ حالات نے ان کمپنیوں کو چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کمپنیوں کے حصص خریدنے کے بعد چین نے اگلی پیشرفت یورپ اور امریکہ میں کورونا کی وجہ سے خسارے کی شکار ہونے والی کمپنیوں کے حصص خریدنے کے حوالے سے کی۔

اٹلی کی مشہور زمانہ کارساز کمپنی فراری اور لیمبارڈنی کی خریداری کا معاملہ سامنے آیا تو وبا سے گھائل اٹالین حکومت کو احساس ہوا کہ یہ کمپنیاں تو اس کا قومی فخر اور پہچان ہیں۔ یہ بک گئیں تو اٹلی اپنے فخر سے محروم ہو جائے گا۔ حکومتی اقدامات کے باعث چین یہ سودا نہ کر سکا۔ اسی طرح اس سارے کھیل کا دوسرا باخبر کھلاڑی امریکہ بھی اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ چینی سرمایہ کار وبا کے دوران امریکہ کی خراب مالی حالات کا فائدہ اٹھا کر ان کی اہم کمپنیاں نہ خرید لیں۔

کچھ اطلاعات یا سازشی تھیوریز کہہ لیں یہ ہیں کہ امریکہ فائیو جی ٹیکنالوجی کو دنیا کے ہر انسان کا ذاتی ڈیٹا جمع کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ انسانوں کو روبوٹ بنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے، ٹیکنالوجی کی پیچیدگیوں سے آگاہ میرے ایک ذمہ دار دوست کا خیال ہے کہ جس طرح ہر گلی محلے میں ٹی وی کی کیبل ہے اسی طرح ہر دو چار گلیوں میں فائیو جی کا ایک چھوٹا سا ڈیٹا باکس نصب کر دیا جائے گا۔

اس وقت فائیو جی کا ٹاور 25 کلو میٹر تک کا علاقہ کور کرتا ہے۔ امریکہ نے ڈیٹا باکس اور انتہائی چھوٹے حجم کی چپ بہت کم لاگت میں تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ویکسین لائی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہر انسان کو کورونا ویکسین یافتہ ہونا ضروری قرار دیدیا جائے گا۔ کورونا ویکسین کب لی گئی، اس کا سرٹیفکیٹ جسم میں داخل کی گئی چپ ہو فراہم کرے گی۔ یہ چپ آپ کا ڈیٹا ائر پورٹس، بنک اور تھانوں میں سکیننگ کے دوران اگل دے گی۔

آپ کہاں جا رہے ہیں، کیا مصروفیات ہیں۔ کیا سوچتے ہیں، آپ کی کون سی صلاحیت فائدہ دے سکتی ہے، آپ میں کون سی خطرناک قوت ہے، سب سامنے آ جائے گا۔ کسی نے سوال اٹھایا اگر کوئی چپ نہ لگوائے اور ویکسین نہ لے؟ جواب ملا: بین الاقوامی سفر، شناختی کارڈ، ملازمت وغیرہ کے لئے اگر یہ شرط لگا دی گئی تو سب کو ٹیکنالوجی کا غلام بننا پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے کورونا کا خوف بیچا جا رہا ہے۔ ٹام ہٹکس، میڈونا، بورس جانسن اور ہمارے مشہور لوگ بیمار ہوئے، سب بچ گئے۔

اب ان ٹکڑوں کو جمع کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ امریکی منصوبے کی بھنک چین کو پڑ گئی اور چین نے بھی اس پر کام شروع کر دیا امریکہ نے بل گیٹس کی مائیکرو سافٹ کمپنی کو شراکت دار بنایا تھا، چین نے ہواوے کو منصوبے میں شامل کر لیا۔ امریکہ نے اپنا ہتھیار چین کے خلاف استعمال کیا، چین نے اس کی طاقت بدل کر امریکہ کو بھیج دیا۔ امریکی منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو ساری دنیا امریکہ کی غلام بن جاتی۔ چین نے امریکی منصوبہ خاک میں ملا دیا بلکہ ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ فوائد کا، لیڈر شپ کا رخ چین کی طرف ہوتا نظر آ رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments