ایک سابق سفیر کی سرگزشت ”جو ہم پہ گزری“۔


سابق سفیر سید سبط یحییٰ نقوی کی کتاب ”جو ہم پہ گزری“ مارچ، 2020 میں شائع ہوئی اور سفیروں کی آپ بیتیوں میں ایک زبردست اضافے کا موجب ٹھہری۔ مصنف عرض داشت میں ہی رقمطراز ہیں کہ ”یہ محض اتفاق ہے کہ میری زیادہ تر تقرریاں ایسے ممالک میں ہوئیں جہاں آمرانہ حکومتیں تھیں۔ پہلی پوسٹنگ لیبیا کی تھی جہاں کرنل قذافی نے آمرانہ نظام قائم کیا تھا، اس کے بعد رومانیہ جہاں چاؤ شسکو مطلق العنان حکمران تھے۔ پرتگال میں جمہوریت آ گئی تھی لیکن پرتگال پر چالیس سال حکومت کرنے والے حکمران انتونیو سالازار کے باقیات نظر آتے تھے۔

پھر انڈونیشیا میں سوہارتو ایک ڈکٹیٹر تھے اور شام میں حافظ الاسد اور پھر بشار الاسد جابر حکمران تھے۔ نیدر لینڈ میں بادشاہت تھی لیکن یہ ایک جمہوری ملک تھا۔ پاکستان میں میری نوکری کے دوران بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں تھے۔ بینظیر اور نواز شریف کے دور میں بس نام کی جمہوریت تھی۔ جنرل مشرف بھی ایک ڈکٹیٹر تھے۔ مجھے ڈکٹیٹروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ بات صحیح ہے کہ ڈکٹیٹروں کو اپنی ذات کے علاوہ کسی سے دلچسپی نہیں ہوتی۔

ان کے چاروں طرف مطلب پسند خوشامدی جمع ہو جاتے ہیں جو ان کو عوام سے دور کر دیتے ہیں۔ آمرانہ نظام میں ملک معاشی اور سیاسی طور پر پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملک میں مصنوعی ترقی کے چرچے تو ہوتے ہیں مگر حقیقت میں معاشی اور سیاسی ترقی نہیں ہوتی۔ ڈکٹیٹروں کے جانے کے بعد ملک و قوم معاشی بد حالی اور سیاسی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں ”۔

مصنف نے اپنا خاندانی پس منظر خوب خوب لکھنے کے بعد سر کاری ذمہ داریوں کی 35 برس پر مشتمل روداد کا آغاز کیا ہے۔ صاحب کتاب نے ان 35 سالوں میں بے شمار سفر کیے جن کا ذکر کتاب میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ مصنف نے پیرس، استنبول، جرمنی، نیدر لینڈ، بلجیم اور قاہرہ وغیرہ کا سفر کیا، ان جگہوں کے ذکر میں خاص بات یہ ہے کہ جس جگہ بھی گئے اس کا تاریخی پس منظر، حکومتوں اور بادشاہتوں کے گرنے بننے کی تاریخ، محل وقوع اور اس جگہ کی مشہور چیزوں کے بارے میں ضرور لکھا۔ جن ملکوں میں بھی انھوں نے سفارت کاری کے فرائض سرانجام دیے، ان کے ذکر میں بھی یہی روایت برقرار ہے۔

مصنف نے سفارت کاری کا آغاز لیبیا سے کیا، جب پاکستان اور لیبیا کے تعلقات خوشگوار تھے۔ لیبیا کے باب میں بھٹو کے اس طوفانی دورے کا ذکر ہے جو انھوں نے 1977 میں پی۔ این۔ اے سے مذاکرات کے دوران کیا، اس کے علاوہ لیبیا، مصر جنگ کا ذکر ہے، بھٹو کی پھانسی پر قذافی کی مذمت اور ضیا ء الحق کے خلاف مہم چلانے کے لیے مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور پی پی کے دیگر لوگوں کی خفیہ طور پر امداد شروع کرنے کا بھی ذکر ہے۔ مصنف لکھتے ہیں : مرتضیٰ بھٹو اور غلام مصطفی کھر خفیہ طور پر لیبیا آئے، مرتضیٰ کے لیبیا کے دورے کے کچھ ہی عرصہ بعد ”الذوالفقار“ نامی تنظیم وجود میں آئی۔ لیبیا کے باب کے آخری حصے میں مصنف نے کرنل قذافی کا سیاسی فلسفہ، ”تیسری بین الاقوامی تھیوری“ بیان کیا ہے، یہ کتابچہ کی شکل میں ”گرین بک“ یا ”کتاب الاخضر“ کے طور پر آیا، جس کا پڑھنا ہر لیبین پر لازم تھا۔ قذافی کا اقتصادی نظریہ بھی بیان ہوا ہے، جس کی بنیاد سوشلزم پر تھی۔

مصنف نے پاکستانی حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کی بھی بڑی تفصیل لکھ رکھی ہیں۔ ضیاء الحق کے اس دورہ رومانیہ کی تفصیل درج کی گئی ہے جو انہوں نے روس، افغانستان جنگ چھڑنے کے بعد کیا تھا۔ صدر ضیاء الحق نے اگست 1984 میں رومانیہ کا دوسرا دورہ کیا، اسی دورے میں وہ یاسر عرفات سے ملاقات کے لیے جانے پر خود راضی ہوئے ( 1971 میں اردن کے شاہ حسین کی فوج کے ساتھ مل کر ضیاء نے فلسطینیوں اور یاسر عرفات کے خلاف جو ملٹری کارروائی کی تھی اس کی وجہ سے ضیاء، یاسر عرفات تعلقات اچھے نہ تھے ) ۔ اسی دورے میں ضیاء نے ”گھر کی چپاتی“ اور ساتھ گئے وزراء کی بیگمات نے ”پکوڑے“ کھانے کی فرمائش کی تو ایک سفیر کو ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا، اس کی بھی دلچسپ روداد بیان کی گئی ہے۔

صاحب کتاب جکارتہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، جب صدر سوہارتو نے ستمبر 1992 میں غیر جانبدار ممالک کی سربراہی کانفرنس جکارتہ میں منعقد کروائی۔ ایک سو دس غیر جانبدار ممالک کے سربراہان نے کانفرنس میں شرکت کی۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے۔ مصنف لکھتے ہیں کانفرنس کے بعد صدر سوہارتو کی طرف سے عشائیہ دیا گیا۔ عشائیہ کے بعد رات دس بجے بوسنیا ہرزیگووینا کی کمیٹی کی میٹنگ شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے تقریر کی۔

اس کے بعد ایک کے بعد ایک سربراہ اپنے موقف کی وضاحت کرنے لگے۔ پرنس نوروڈوم سہانوک پر زور تقریر کر رہے تھے کہ میاں صاحب ناک سے گہرے سانس لینے لگے جیسے کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر سفیر صاحب سے کہنے لگے کہ مونگ کے پاپڑ کی خوشبو آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد میاں صاحب نے پھر یہی بات دہرائی۔ مہاتیر محمد تقریر کر رہے تھے اور اس بات پر زور دے رہے تھے کہ کانفرنس کی طرف سے بوسنیا ہرزیگووینا قرار داد منظور کی جائے اور میاں صاحب مونگ کے پاپڑ کے بارے میں سوچ رہے تھے، آخر رہا نہ گیا تو سفیر سے کہا کہ میٹنگ کے بعد مونگ کے پاپڑ کا انتظام کرو۔

وہاں میاں نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم سمیت دیگر ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں مگر مسئلہ کشمیر پر کوئی بات نہیں کی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ کسی بھی سربراہ مملکت سے ملاقات کے دوران، پانچ سات منٹ کے بعد میاں صاحب میز پر سے کیک، پیسٹری وغیرہ کھانا شروع کر دیتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ دوسرے سربراہ کی بات توجہ سے نہیں سن رہے بلکہ ان کا دھیان کھانے پر زیادہ ہے۔

مصنف شام میں رہے تو بشار الاسد کا دور حکومت قریب سے دیکھا۔ 2001 میں پرویز مشرف کے دورۂ شام کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ مصنف نے کچھ عرصہ اندرون ملک بھی خدمات سرانجام دیں، اب ان ادوار کا کچھ تذکرہ ملاحظہ فرمائیں :

مصنف کی ڈیوٹی ایک امریکی کانگریس کے وفد کے ساتھ لگی، اس بارے میں لکھتے ہیں کہ امریکی وفد کی سب سے اہم بریفنگ آئی۔ ایس۔ آئی کے دفتر میں ہوئی۔ جنرل اختر عبد الرحمان ان دنوں ڈائریکٹر جنرل آئی۔ ایس۔ آئی تھے۔ وہ امریکی بریگیڈیئر اور ڈیفنس کونسلر کے ساتھ کمر میں ہاتھ ڈالے اس طرح چل رہے تھے جیسے وہ ان کا جگری یار ہو اور وہ بریگیڈیئر بھی جنرل صاحب کو ”اختر“ کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے امریکی سفارت کاروں کی اسلام آباد میں اہمیت کا اندازہ ہوا۔

مصنف دفتر خارجہ کراچی میں بھی تعینات رہے، وہاں بھی امریکی کونسل جنرل کی اہمیت کا نظارہ کیا۔ جب 1987 میں کراچی میں ہنگاموں کے نتیجے میں ضیاء الحق نے غوث علی شاہ کی حکومت برخاست کی تو سوال اٹھا کہ اگلا چیف منسٹر کون ہو گا؟ امریکی کونسل جنرل نے میرے قریب آ کر اپنا اندازہ بتایا کہ اختر علی غلام قاضی کو چیف منسٹر ہونا چاہیے اور پھر وہی ہوا، اختر علی غلام قاضی ہی چیف منسٹر بنے۔ یہاں مصنف کراچی میں پین۔ ایم طیارے کا اغوا، اوجڑی کیمپ کا سانحہ اور محمد خان جونیجو کی برطرفی سمیت کئی اہم واقعات کو احاطہ تحریر میں لاتے ہیں۔

مصنف ایک جگہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں لکھتے ہیں :الیکشن کے بعد جب بے نظیر وزیر اعظم کا حلف اٹھا رہی تھیں تو مجھے امریکی کونسل جنرل لیری گراہل کا وہ جملہ یاد آ رہا تھا کہ بے نظیر کو سیاست میں بحال کرنے کے لیے انھوں (امریکیوں ) نے بہت کام کیا تھا اور الیکشن ہونے پر بے نظیر وزیر اعظم بنیں گی۔ امریکی کونسل جنرل کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی لیکن میں اسے ایک معجزہ سمجھتا تھا۔

مصنف اپنی خدمات بطور ڈائریکٹر جنرل وزارت خارجہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ”طالبان“ کے بارے میں لکھتے ہیں : ”افغانستان میں طالبان نے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ افغانی فوجی کمانڈر طالبان کے آگے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ پاکستانی مدرسوں میں جہادی تربیت دی جا رہی تھی اور طالبان کی حمایت کے لئے لشکر افغانستان جا رہے تھے۔ 1994 میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان منظر عام پر آئے۔ بے نظیر کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر اور مولانا فضل الرحمان طالبان کے بڑے حامی بن گئے۔ جنرل بابر قندھار جا کر ملا عمر سے ملے اور طالبان کی حمایت میں اعلان کیا۔ اس کے بعد جمیعت علمائے اسلام کے مدرسوں میں پڑھنے والے ہزاروں طالب علم طالبان تنظیم میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ طالبان کو آئی۔ ایس۔ آئی کی حمایت حاصل رہی ہے“ ۔

مصنف 2008 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے اور تھوڑا عرصہ او۔ پی۔ سی۔ ڈبلیو کے خصوصی مشیر کے طور پر کام کیا۔ کتاب کے آخر میں ”تلخ حقیقت“ کے نام سے ایک باب لکھ کر مصنف نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بظاہر ایک سفیر کی سیر سپاٹوں اور پروٹوکول بھری زندگی خاصی خوشگوار نظر آتی ہے، مگر درحقیقت خانہ بدوشی کی یہ زندگی بہت تلخ ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments