ابھی ہمیں باہر نہیں جانا


کرونا وائرس کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی کہاں ہے۔ 23 مارچ 2020 کے بعد لگ رہا تھا کہ زندگی تھم گئی ہے، ہم کہیں رک گئے ہیں، لیکن آج سوچیے تو دو ماہ گویا پلک جھپکتے میں گزر گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تحریر، ہم کیوں بند ہیں، کے عنوان سے تحریر کی تھی۔ جس میں ایک بچے کی تمثیل پیش کی گئی تھی، جو کسی غلطی، شکایت یا نافرمانی کی سزا کے طور پر کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ ہم سب بھی تو کچھ اسی طرح اچانک بند کر دیے گئے تھے۔

اس وقت یوں لگتا تھا کہ یہ مہلت ہمیں سوچنے، اپنی اصلاح کرنے، اپنی غلطیوں کو آئندہ نہ دہرانے اور آئندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ملی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس بچے کی سزا کو ختم کرنے کے لیے ملتی ہے۔ وہ بند کمرے میں اپنے ساتھیوں سے ملنے، کھیل تماشے میں شریک ہونے، کے لیے جلد سے جلد اہنے والدیں سے معافی مانگنے، آئندہ غلطی کو نہ دہرانے اور اپنی اصلاح کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی وعدے کے ساتھ اسے آزادی مل جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ وارننگ بھی ملتی ہے کہ اگر اس غلطی کا اعادہ ہوا تو پھر سے سزا ملے گی۔ بچہ اس اعلان سے خوش ہو جاتا ہے اور کچھ ہی دن میں سزا کے دن خواب ہو جاتے ہیں۔ آزادی کا یہ موقع اس کے دل کو خوشی سے بھر دیتا ہے۔

لیکن آج جب لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان ہو رہا ہے۔ ہمیں باہر نکلنے کی امید دلائی جارہی ہے، پرانے دوست ہمارے منتظر ہیں، رکے ہوئے کھیل تماشے پھر سے شروع ہونے کو ہیں، تو ہمارے دل ڈرے ہوئے کیوں ہیں۔ ہم سہمے ہوئے کیوں ہیں؟ باہر جانے کے لیے جن وعدوں کا سہارا لینا تھا، ہمیں ان پر یقین کیوں نہیں۔ اپنی غلطیوں پر ہم پشیمان ہیں، نہ ہی آئندہ کے لیے ہم نے توبہ کی ہے۔ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ ہم انہی غلطیوں کو دہرائیں گے اور پھر سے واجب سزا ٹھہریں گے۔ ہم تو اصلاح کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے۔

پچھلے دو ماہ ہم نے بس دن گن گن کر گزارے ہیں۔ کہ کب ہمیں کوئی باہر نکال دے۔ ہم نے رو پیٹ کر اپنی التجائیں سب کو سنائی ہیں کہ ہماری تو کوئی غلطی بھی نہیں تھی، ہم تو گنہگاروں کی وجہ سے بند کیے گئے ہیں۔ ورنہ باہر کی رونقوں پہ سب سے زیادہ حق ہمارا تھا۔ اگر یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ دیکھ لیجیے۔ ہم نے ہر مشتبہ شخص کا نام دہرایا ہے، جس کی وجہ سے ہم کرونا کی آفت میں گھرے ہیں۔ لیکن اپنے کسی قصور کو نہیں مانا۔ یہ دو ماہ ہم نے اسی انتظار میں گزاریے ہیں کہ کب ہم باہر نکلیں گے۔ بازاروں اور سڑکوں کی رونقوں کا حصہ بنیں گے۔ عید کی تیاریوں میں پڑنے والے اس خلل سے ہم سب ہی تنگ تھے۔

عجیب سی بات ہے، طویل انتظار کے بعدجب، باہر جانے کی اجازت ملی ہے، تو دل گھبرا رہا ہے۔ اب اس کی بالک ہٹ کا تقاضا کچھ اورہے۔ یہ دل باہر نکلنے کے لیے کسی بچے کی طرح معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں، وعدہ بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی غلطی نہیں کرے گا۔ اپنی اصلاح تو دور کی بات ہے، ابھی تو وہ پرانی خطاؤں سے پیچھے نہیں ہٹ سکا۔ تو پھر کیسے آئندہ کا کوئی وعدہ کرے، کیسے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے امکان پر غور کرے۔ اس کا تو سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے ہم کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تیقن سے کوئی بات کرنے کے قابل ہی نہیں ہوئے۔ ہم نے تو توبہ کی ہی نہیں۔ ہم ان مشاغل سے دست بردار ہو ہی نہیں سکے، جن کے نتیجے میں ہمیں سزا ملی تھی۔

کچھ لوگ لاک ڈاؤں کھلنے سے خوش بھی ہیں۔ شاید ہمارے ارد گرد جو لوگ انتہائی خوش ہیں۔ ان کی زندگیاں تبدیل ہو چکی ہیں۔ وہ اصلاح کے راستے پر گامزن ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ آئندہ کسی غلطی کو نہیں دہرائیں گے۔ نہ ہی اس سزا کا دوبارہ سامنا کریں گے۔ ہماری مہلت ختم ہونے پر بھی ہمیں اس یقین کا سرا ہاتھ میں نہ آنے کی گھبراہٹ ہے۔ بہت سی فکریں ہیں۔ باہر جانے کی صورت میں اگر پھر سے غلطیوں کو دہرا بیٹھے۔ ۔ ۔ کھیل تماشوں میں میں گھر کر ان دنوں کو بھول گئے۔

۔ ۔ اگر ٹھیک سے معافی مانگنے کے لفظ ہی ادا نہ ہوئے۔ ۔ ۔ خود کو بہتر نہ کر پائے۔ ۔ ۔ سزا دینے والے کی امیدوں کے خلاف کچھ کر بیٹھے۔ ۔ ۔ اگر دوبارہ سزا مل گئی۔ ۔ ۔ تو کیا اسے برداشت کر سکیں گے۔ یہ سب سوچ سوچ کر دل ہول رہا ہے۔ بجائے لاک ڈاؤن کے کھلنے کی خوشی منانے کے، یہ فریاد کر رہا ہے کہ ہمیں ابھی باہر نہیں جانا۔ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے۔ ابھی ہماری مہلت ختم نہیں ہونی چاہییے۔ ہمیں کچھ عرصہ اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہییے۔ ۔ ۔ ہمیں ابھی باہر نہیں جانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments