مودی سرکار کسی بھول میں نہ رہے


مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات پر توجہ انتہائی ضروری ہے وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ کسی اور کو دوش دینے کے بجائے اس ضمن میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنے کو مجبور ہوں۔ یہ کوتاہی مگر دانستہ نہیں تھی۔ حالات کا جبر تھا۔

ایران میں کرونا نمودار ہوا تو اس کالم کے ذریعے میں نے دہائی مچانا شروع کردی تھی کہ وہاں سے آنے والے زائرین پرکڑی نگاہ رکھی جائے۔ مناسب وقت پر بدقسمتی سے کماحقہ بندوبست نہ ہوپایا۔ زائرین کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی یہ وبا ہمارے ملک پہنچ کر پھیلنا شروع ہوگئی۔

وبا کا موسم شروع ہوتے ہی اس مرض سے وابستہ بے شمار پہلوؤں پر مسلسل غور لازمی تھا۔ ان گنت موضوعات ہیں جو بھرپور توجہ کے طالب ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس مرض کا موثر علاج ڈھونڈنے کے لئے دنیا بھر میں کیا جگاڑ لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جان گسل تحقیق ایسی ویکسین ایجاد کرنے کے لئے بھی ہورہی ہے جو خلق خدا کو اس مرض کی مدافعت کے قابل بناسکے۔ وائرس کی تلاش کا تعاقب بھی ضروری ہے۔

ہماری معیشت لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک سنگین بحران کا نشانہ بن چکی ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں دیہاڑی دار، چھوٹے دکاندار اور کم آمدنی والے اس کی وجہ سے خوفناک حد تک پریشان ہوچکے ہیں۔ ان کو درپیش پریشانی آپ کو مہلت ہی نہیں دیتی کہ خارجہ امور پر نگاہ رکھیں۔ ان امور سے متعلق خبر ڈھونڈنا اگرچہ کئی برسوں سے میری پیشہ وارانہ ذمہ داری رہی ہے۔

خارجہ امور پر نگاہ رکھنے کا دعوے دار پاکستانی صحافی بھارتی عزائم پر نگاہ رکھنے کو مجبور ہوتا ہے۔ میری کوتاہی کے اپنے تئیں یہ فرض کر لیا کہ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والا بھارت وبا کے موسم میں خود کو جنوبی ایشیاء کا پردھان ثابت کرنے والے جنون کو وقتی طورپر بھلادے گا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اپنی تمام تر توجہ اس امر پر مرکوز کھے گا کہ کرونا کی وبا سے کیسے نبردآزما ہوا جائے۔ اس کی بدولت نازل ہوئے معاشی بحران کے ازالے کی کیا صورتیں نکالی جائیں۔ مودی سرکار مگر اپنے جنون کو فراموش کرتی نظر نہیں آرہی۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد سپین سے فلو کی وبا پھوٹی تھی۔ اس دور کے صاحب دل لوگوں کو امید تھی کہ مذکورہ وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر جو قیامت خیزمناظر دیکھنے کو ملے وہ دنیا بھر کی حکمران اشرافیہ کو جنگی جنون سے نجات دلاتے ہوئے انسانوں کی عمومی بھلائی کو یقینی بنانے والا نظام تشکیل دینے کو مجبور کردیں گے۔ نیک طینت لوگوں کی امیدیں لیکن بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ روس میں 1917 والا انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت بقیہ دنیا کی ترجیح بنادی۔

دریں اثناء یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی میں ہٹلر نمودار ہوگیا۔ اس نے فسطائیت کو متعارف کرواتے ہوئے دنیا کو درپیش مسائل کا حتمی حل ریاستی جبر کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے ڈھونڈنے کا چلن متعارف کروایا۔ ہٹلر اور اس کے حامیوں کا جنون بالآخر دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے دو چار کرنے کا باعث ہوا۔

بھارت میں کئی برسوں سے کام کرنے والی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ بھی کئی دہائیوں سے جنونی انداز میں ایک ”حتمی حل“ تلاش کررہی ہے۔ بھارت اس کی دانست میں فقط ہندوؤں کا ملک ہے۔ وسطی ایشیاء سے آئے مسلم دلاوروں نے اسے ”غلام“ بنایا۔ اس کی تاریخی شناخت چھین لی ”ہندوتوا“ کے نام سے اس شناخت کو بحال کرنے کی کاوشیں قیام پاکستان سے کئی دہائیاں قبل ہی شروع ہوگئی تھیں۔ ”بھارت ماتا“ کی دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم نے اس جنون کو مزید وحشی بنادیا۔

نہرو کے نام نہاد سیکولرازم نے اس سوچ کو مگر فروغ پانے نہیں دیا۔ گزشتہ صدی کے اختتام سے قبل بالآخر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کو بی جے پی کی صورت ایک توانا سیاسی پلیٹ فارم نصیب ہوگیا۔ بابری مسجد کے حوالے سے ہوئی رتھ یاترا نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اندھے تعصب کی بنیاد پر چلائے گراس روٹ ایکٹویزم نے ”ہندوتوا“ کی نمائندہ بی جے پی کو پہلی بار اقتدار میں آنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ اس کی جانب سے نامزد ہوا وزیر اعظم مگر ایک پراگمیٹک سیاست دان تھا۔

اس نے اپنی محدودات کو بخوبی جانتے ہوئے ہندوتوا کے Softورژن کو متعارف کروانے کی کوشش کی۔ زیادہ توجہ معاشی حوالے سے بھارت کو شائننگ بنانے پر مرکوز کردی۔ پاکستان سے دائمی امن قائم کرنے کی ہمت بھی دکھائی۔ واجپائی لیکن ”ہندوتوا“ کے جنون کا حقیقی نمائندہ نہیں تھا۔ بی جے پی میں گھسے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے کل وقتی ”سنگھی“ اس کی سادہ لوحی کا تمسخر اڑاتے رہے۔ شائننگ انڈیا کا نعرہ اسے انتخابات میں کامیابی بھی نہ دلواپایا۔ نہرو سے وابستہ کانگریس اس کے بعد بلکہ دس برس تک برسراقتدار رہی۔

کانگریس کے دس سالہ دوراقتدار میں بی جے پی نے ہندوتوا کے ایک کٹرپرچارک نریندر مودی کو اپنا حقیقی نمائندہ مان لیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوتے ہی اس نے اپنے صوبے میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انہیں محکوم اقلیت میں بدلنا شروع کردیا۔ بھارتی صنعت کاروں کی اکثریت نے مگر اس کے صوبے میں بے پناہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے گجرات کو ”گڈگورننس“ کا ماڈل بنادیا۔

تاریخی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے ٹی وی کی زبان میں فاسٹ کٹ کرتے ہوئے گزشتہ برس کے بھارتی انتخابات تک آجاتے ہیں۔ نریندرمودی ان انتخابات کی بدولت بھاری اکثریت سے وزیر اعظم کے منصب پر لوٹا۔ دوسری مرتبہ انتخابات جیتنے کے فوری بعد وہ اس ”حتمی حل“ کی تلاش میں جت گیا جو راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا کئی برسوں سے خواب ہے۔

”حتمی حل“ کا جنون کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین ”قضیہ“ شمار نہیں کرتا۔ ماضی کی ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ سمجھتا ہے۔ مودی سرکارنے کشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ثابت کرنے کے لئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جو مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ اور تھوڑی خودمختاری مہیا کرتا تھا۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دلی سے براہ راست چلائی یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

80 لاکھ کشمیریوں کو عوامی مزاحمت سے روکنے کے لئے کرفیونما لاک ڈاؤن مسلط کردیا گیا۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ سے محروم کرکے کشمیریوں کو دنیا سے رابطے کے ناقابل بنادیا۔ مقبوضہ کشمیر میں دلی نواز سیاسی کارکن اور رہنما بھی گھروں میں محصور کردیے گئے۔ کشمیر کی جداگانہ شناخت اور اس کے پاکستان سے رشتے کو ہر صورت اجاگر کرنے کو بے چین سینکڑوں کارکن اپنے گھروں سے اٹھاکر دلی اور راجستھان کی جیلوں میں بند کردیے گئے ہیں۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیری شناخت کے خلاف اٹھائے مودی سرکار کے وحشیانہ اقدامات عالمی اداروں اور دنیا کے طاقت ور ممالک نے منافقانہ بیانات دینے کے باوجود بآسانی ہضم کرلئے۔ عالمی اداروں اور دنیا کے طاقت ورترین ممالک کی کشمیریوں کے بارے میں برتی بے اعتنائی نے مودی حکومت کو یہ سوچنے کا حوصلہ دیا کہ وہ اپنے قبضے میں موجود جموں اور کشمیر میں ”صوبائی اسمبلی“ کو بحال کرنے کے نام پر انتخابات کا ڈھونگ رچائے۔

مودی سرکار کے پالیسی سازوں کو کامل اعتماد تھا کہ اگر 2020 کے سرماکے آغاز سے قبل مجوزہ انتخابات کا انعقاد ہو تو کشمیریوں کی موثر نظرآنے والی تعداد ووٹ دینے کو مجبور ہو جائے گی۔ ”صوبائی اسمبلی“ کے چند امیدواروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی ووٹ دینے کو یہ سوچتے ہوئے آمادہ ہوجائیں گے کہ ”اسمبلی“ میں جانے کے بعد یہ ”منتخب ادارہ“ مقبوضہ کشمیر میں اردو کو بطور دفتری زبان بحال کردے گا۔ کشمیری زبان کے فارسی رسم الخط کو برقرار رکھے گا۔ اہم ترین امید یہ بھی باندھی جائے گی کہ ”بحال“ ہوئی ”صوبائی اسمبلی“ اس قانون کو بھی بحال کردے گی جو غیر کشمیریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے سے روکتا ہے۔ انہیں اس صوبے کا شہری تسلیم نہیں کرتا۔

بھارتی ارادوں کو بھاپنتے ہوئے مزاحمت کاروں نے ان کی پیش بندی کے لئے ایک دوسرے سے روابط شروع کردیے۔ مودی سرکار نے مگر کہانی یہ گھڑی کہ مقبوضہ کشمیر میں ”دہشت گردی“ پھیلانے کے منصوبے شروع ہوگئے۔ ان منصوبوں کو پری امپٹ کرنے کے نام پر قابض افواج کو حکم ملا کہ وہ گھر گھر جاکر ”ممکنہ تخریب کاروں“ کا انکاؤنٹرز کے نام پرخاتمہ کرنا شروع کردیں۔

مقبوضہ کشمیر میں قابض افواج کی وحشیانہ کارروائیوں کا ایک نیادور شروع ہوچکا ہے۔ جواز یہ تراشہ جا رہا ہے کہ پاکستان سے مبینہ طورپر ”مداخلت کاروں“ کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اسے ”روکنے“ کے لئے لائن آف کنٹرول پر جدید ترین ہتھیاروں کے ذریعے مسلسل بمباری ہوتی ہے۔ اتوار کے دن چھٹی کے باوجود مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی۔ اجیت دوول۔ نے جاسوسی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں کے سربراہان سے ایک ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کا دورانیہ پانچ گھنٹوں تک جاری رہا۔ یو ں محسوس ہورہا ہے کہ مذکورہ اجلاس کے بعد لائن آف کنٹرول پر پاکستانی سرحد میں موجود ممکنہ ”تخریب کاروں“ کے نام نہاد لانچنگ پیڈ کا ڈھول بجاتے کسی ایڈوینچر کی تیاری ہے۔

نظر آتے شواہد تقاضا کر رہے ہیں کہ بھارت ہی نہیں دنیا بھر کے طاقت ورترین ممالک اور عالمی اداروں کو بھی واضح الفاظ میں متنبہ کردیا جائے گا کہ وبا کے بحران میں مبتلا ہونے کے باوجود پاکستان کسی صورت مودی سرکار کو کشمیر کے حوالے سے اپنی پسند کا ”حتمی حل“ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments