کرونا سے ہٹ کے چند اہم معاملات


آج کل جو معاشرتی تبدیلیاں دنیا مشاہدہ کر رہی ہے اس کی توقع پچھلے سال کے اواخر تک کسی کو بھی نہیں تھی اور یہ معاملات اس طرح کب تک چلنے ہیں اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں ہے مگر اب کچھ اجتہادی مسائل داخلی وخارجی میں اپنی ذاتی رائے کا استعمال ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ دوست لوگ ہوں یا اجنبی کچھ مفروضوں کی بنیاد پر علم قیافہ کی روشنی میں ازراہ مہربانی رہنمائی فرما رہے ہیں یا ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔

اس وقت دنیا کی نظریں کرونا کے علاوہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہی اور اس غل غپاڑے میں بہت کچھ سنائی بھی نہیں دے رہا سچ پوچھیے تو لاک ڈاؤن میں موجودہ پاکستانی حکمرانوں کی فیصلہ سازی پر ایک سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ غریب آدمی تو پس ہی گئے اور لاک ڈاؤن کے نام سے مشابہت بھی نہیں پیدا ہوسکی۔ ایسی صورتحال میں کرونا سے عوام تو خیر کیا بچتے وہ میڈیکل اسٹاف بھی نہیں بچ سکا جو کہ کرونا کے کیسز کو ڈیل بھی نہیں کر رہا تھا۔

ینگ ڈاکٹرز کی ڈیمانڈ حق بجانب نظر آتی ہے۔ پروٹیکٹو کٹس کے بغیر نوکری کرنا ایسی مصیبت ہے جو اللہ کرے کسی کے نصیب میں نہ آئے پھر تیل کی قیمتوں میں عالمی گراوٹ کے باوجود بھی مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے بیرونی دنیا سے قرضوں میں ریلیف ضرور ملا مگر دسمبر تک، اس کے بعد گرتی برآمدات اورفارن ریمیٹنس جو تباہی لائے گا اس کا خیال کرنا بھی پسینے میں شرابور کرنے کے لیے کافی ہے۔ کاروبار کا حجم توبہر حال دنیا بھر میں کم ہونا ہی ہے مگر نیب جس طرح سے مہربانیاں فرما رہا ہے پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں مزید ماند پڑ سکتی ہیں اس پر مستزاد اخبارات کے مالکان زیر عتاب ہیں اور سیاسی جماعتوں کے رہنما پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

بہر حال حکومت نے اس سارے معاملے کی اصلاح اس طرح چاہی ہے کہ شبلی فراز صاحب کو تحریک انصاف کے مقصد، ارادہ اور نیت کی وضاحتوں کے لیے مقرر فرما دیا ہے۔ چلیں اتنا سوال عرض کر لیتے ہیں کیا واقعی مسائل کا حل ترجمانوں کی تبدیلی سے ممکن ہے اور کیا واقعی میں یہ ترجمان تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ ہے اور کیا تحریک انصاف کا کوئی حقیقی چہرہ تھا بھی یا بس سب دھواں ہی دھواں کہ جس سے پرے سب کچھ دھندلا تھا۔ اس کے علاوہ ڈیونڈر لائن کے پار سے آنے والی خبریں ہیں۔

دریائے کابل کا معاملہ فی الفور سلجھانے کی ضرورت ہے جب کہ سکھ گردوارہ کابل میں انڈین اے جنسیز نے جو اٹیک کروایا اس کے بعد انڈین رول پر مربوط اور منصفانہ پیش بندی کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر ایسی پیش بندی مناسب طور پر نہ کی گئی تو ایسی صورت میں ہمارے فوجی جوانوں کے جنازے اس طرف سے مزید اٹھ تے رہیں گے اور ان کی تعداد بڑھتی جائے گی خدانخواستہ۔ کیوں کہ اپنے وردی پوشوں کے جنازوں کو تو ہم اب بھی وہاں سے روز کندھا دے رہے ہیں۔

اس پر مزید المیہ یہ ہے کہ وہاں پر ایسے عام شہری بھی قتل ہو رہے ہیں کہ جن کے قتل سے ہمارے اداروں کو بدنام کرنے کی حکمت عملی کامیاب بھی ہو سکتی ہے لہذا ایسے واقعات کا بھی فی الفور تدارک وقت کی ضرورت ہے ورنہ کہیں بہت نقصان بڑھ نہ جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور ہم آج طالبان اور کابل انتظامیہ کو ضرور تسلیم کرتے ہیں مگر یہ معاہدہ بظاہر امریکہ کا افغانستان سے نکلنے کی حکمت عملی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ افغانستان میں ہتھیاربند فوجیں آمنے سامنے جلد یا بدیر آ سکتی ہے۔

شیعہ مسلک کے طالبانی کمانڈر کی موجودگی اور اس کا ویب سائٹ پر بیان جاری کرنا اس امر کا غماض ہے کہ طالبان بھی بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور اب وہ ہمسایوں کے ساتھ بھی بنا کے رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے ہمسایوں کی پوزیشن بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ بھی طالبان سے تعلقات میں طالبان کے گزشتہ حکومت کے دور کی مانند تلخی قائم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ مگر ہم نے اگر دہشت گردوں کی باہوں کو مضبوطی سے واقعی باندھنا ہے تو عمیق پالیسیز کی ضرورت ہے ورنہ باگیں کسنا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر دہشت گردوں کے ضدی اور سرکش عناصر کو کہ جن کی پاکستان کی آبادیوں تک برسائی حاصل رہی ہے۔

زمین کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ ہم افغانستان میں رونما ہونے والے تغیر شکل کو ابھی سے پہچانے۔ قصہ مختصر کہ ہمارے لئے اہم امر یہ ہے کہ امریکا طالبان معاہدہ پر پر صرف مطمئن نہ رہا جائے بلکہ افغان طالبان اور موجودہ افغان حکومت سے دو ٹوک اور حکمت عملی کے ساتھ بات کی جائے کہ افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائی ہر صورت روکی جائے۔ انڈیا نا صرف کہ وہاں پر ایسی تنظیموں کو تیار کر رہا ہے جو سی پیک اور دیگر پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچا نے کی حکمت عملی پر کاربند ہے بلکہ ریاست کی سطح پر دریا کابل پر بھی ا انڈیا شرارت کر رہا ہے اور ان شرارتوں کا سد باب ہی ہماری کامیابی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments