کیوں اتنے حجابوں میں ملیں


کورونا وائرس کے بحران کے دوران انسانی رویوں میں بھی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ہر کسی کا مکمل رجحان اپنے مفاد اور اپنی ترجیحات پر ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ماسک نے ظاہری چہرے کو چھپا اور باطنی کو ظاہر کردیا ہے۔

دو ہزار بیس کا آغاز ہوتے ہی ایک بحران نے جنم لیا جس کو پہلے ایک خاص ملک اور خطے تک محدود سمجھا جا رہا تھا تاہم پہلی سہ ماہی کے دوران ہی یہ ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کر گیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے سرحدوں، زبانوں، ثقافتوں، معاشرتی درجہ بندیوں، عقیدوں غرض کہ تمام تر تفرقات کی حدود کو عبور کرتے ہوئے کورونا وائرس نے تمام انسانوں کی زندگیوں کو ایسا اتھل پتھل کر دیا کہ اب کاروبار زندگی کے معمول پر ہونے کا تصور بھی دھندلا پڑتا جا رہا ہے۔

جرمنی میں فروری کے مہینے سے لوگ آمد بہار کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ گھروں، دفاتر، کنڈر گارٹنز اور اسکولوں میں پہلے تو کارنیوال کے تہوار کی گھما گھمی شروع ہوتی ہے جسے سال کا پانچواں موسم کہا جاتا ہے۔ رنگ برنگے لباس، رقص و موسیقی، انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات، بچوں کے لیے طرح طرح کی سویٹس، کینڈیز اور چاکلیٹس۔ ہر طرف ہر عمر کے افراد خوش و خرم اور چہکتے نظر آتے ہیں۔ مارچ کے مہینے سے سیر و تفریح اور سیاحت جیسی سرگرمیاں زور پکڑتی ہیں جو اگست کے مہینے تک اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لوگ خزاں کے موسم کے منتظر ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کی اپنی علیحدہ ہی خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے۔ زرد، قرمزی، بھورے اور نہ جانے کتنے دلکش رنگوں کے پتوں سے لدے درخت ہر کسی کی طبعیت اور مزاج پر بھی مختلف رنگینی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اس سال تو یوں لگا جیسے موسم بہار آنے سے پہلے ہی خزاں چھا گئی۔ فروری کے اواخر ہی سے ہر طرف خوف و ہراس پھیلنے لگا۔ ہر روز کورونا وائرس قریب سے قریب تر آتا چلا گیا انسانوں سے زندگی کی رونقیں چھنتی چلی گئیں۔ آزادی نقل و حرکت محدود ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ انسان دوسرے انسانوں سے خوف زدہ ہو کر ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگے۔

لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ

میری رہائش شہر بون کے ایک ایسے علاقے میں ہے جو اونچائی پر ہے، چاروں طرف گھنے جنگل ہیں، انتہائی خوبصورت، گھنے درختوں سے ڈھکی ہوئی سڑکیں ہیں جن میں سے ہر ایک سڑک کسی جرمن فلسفی کے نام پر ہے۔ اس لیے اسے ’فلوسفرز رنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ہر صبح دفتر کے لیے جب میں اپنے گھر سے نکلا کرتی ہوں تو اس علاقے کے قدرتی مناظر مجھے تازگی، توانائی اور مسرت کا انوکھا احساس دیتے ہیں۔ بہت اچھے موڈ میں دفتر پہنچ کر کام کرنے کا لطف اور ہی ہوتا ہے۔ دفتر میں رسپشنسٹس سے لے کر دیگر عملے کے اراکان پھر 32 مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے کولیگز ملتے ہیں، ہر کوئی دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہ تمام ماحول ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے اور اسی پر ہماری پیشہ وارانہ سرگرمیوں کا انحصار بھی ہوتا ہے۔

ایسے ماحول میں جب اچانک خبر آئے کہ ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل کا کورونا ٹیسٹ پوزیٹیو آیا ہے اور وہ قرنطینہ میں ہیں۔ ان کی ہدایات پر فوری طور سے ہوم آفس شروع کیا جاتا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ہر کسی کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے، ڈس انفیکشن لوشن استعمال کرنے اور جلد سے جلد کام ختم کر کے گھروں سے کام کرنے کے آرڈرز جاری کر دیے گئے۔

ادھر ریڈیو، ٹیلی وژن ہر طرف کنڈر گارٹنز سے لے کر جامعات تک تمام تعلیمی اداروں سمیت پبلک پلیسز یا عوامی مقامات کی بندش، بچوں کو ان کے دادا دادی نانا نانی اور دیگر معمر افراد سے بالکل دور رکھنے اور حفظان صحت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی تلقین، کورونا وائرس کے سبب ہونے والی بیماری کووڈ انیس کی علامات اور ان کا شکار ہو کر مرنے والوں کی کہانیاں، یہاں تک کہ ہر ملک سے ملنے والی خبریں صرف اور صرف موت کے اس بھیانک کھیل کا منظر پیش کرتی رہیں اور اتنی شدت سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہم کسی اور ہی سیارے پر پہنچ گئے ہیں۔

شاپنگ عذاب بن گئی

پہلے تو اشیائے خورد و نوش کی خریداری کے لیے دکانوں میں جانا اچھا لگتا تھا۔ انواع و اقسام کی اشیا، وافر مقدار میں دستیاب ہوتی تھیں۔ جو چاہو اور جتنا چاہو خرید لو۔ اب کورونا کیا پھیلا کہ دکانیں سمٹنا شروع ہو گئیں۔ کھانے پینے کی بنیادی اشیا مارکیٹ سے غائب ہوگئیں۔ دکانوں پر رش کا یہ عالم کہ یوں لگتا کہ بس یہ آخری موقع ہے خریداری کا۔ جرمنوں جیسے انتہائی نظم و ضبط کے پابند باشندے، اکثر تو تو میں میں کرتے دکھائی دینے لگے۔ ہر کوئی اپنے اور اپنی فیملی کے لیے چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے پر آ گیا۔ ڈس انفیکشن کا سامان ہو یا صابن اور ٹوائلٹ پیپرز، ہر کوئی خود غرض ہو کر اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ اکٹھا کرنے لگا یہ سوچے بغیر کہ شاید کسی دوسرے کو اس سے زیادہ ان چیزوں کی ضرورت ہو؟ صحیح نفسا نفسی کا عالم۔

فیس ماسک: چہرہ چھپا یا اصلی چہرہ ظاہر

انگریزی زبان کا مقولہ ہے seeing is believing۔ یعنی یقین کسی چیز کو دیکھ کر ہی آتا ہے۔ جب چہرے ڈھکے ہوں تو کیا پتا کے مد مقابل کون ہے۔ ماسک نے جہاں وائرس سے تحفظ فراہم کیا وہاں انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔ ایک تو ماسک والا چہرہ دیکھ کر کچھ خوف سا آتا ہے، دوسرے یہ کہ جب انسان کسی دوسرے کے چہرے کے تاثرات ہی نہ دیکھ پائے تو گفتگو آگے بڑھے کیسے۔ جرمنی آنے کے بعد جو میں نے جرمن ثقافت کی چند بنیادی باتیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب کوئی آپ سے مخاطب ہو اور وہ آپ کے چہرہ اور آنکھوں کو نہ دیکھ سکے تو وہ اسے ناشائستہ اور غیر مہذب اشارہ سمجھتا ہے۔ جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں ایک محاورہ بہت کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ، ”منہ دکھانے کے قابل نہ رہنا“ ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماسک کا لازمی استعمال نفسیاتی طور پر انسانوں کے رویے کے لیے بہتر ہے؟

ماسک کے حوالے سے تین چیزیں ان دنوں میرے ذہن پر اثر انداز ہوئیں۔ پہلی چیز تو ایک ویڈیو تھی جو واٹس اپ پر گردش کر رہی تھی جس میں پاکستان کے ایک نسبتاً قدامت پسند علاقے کے ایک فیشن ڈیزائنر کو دکھایا گیا جس نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے شروع کے دنوں میں ہی عروسی لباس کے ساتھ میچنگ کے ماسکس متعارف کروائے۔ یعنی فیشن ہمارے معاشرے میں اس طرح اذہان پر سوار ہے کہ اس وبا کے دور میں بھی دکھاوے کے شوقین اپنے رویے سے باز نہ آئے۔

دوسری ایک خبر جس نے سیاست، انسانی رابطوں اور سماجی رواداری کے حوالے سے کچھ ان کہے حقائق بیان کیے وہ یہ تھی کہ یورپی ملک فرانس جہاں کچھ سالوں سے چہرے کے نقاب یا اسے ڈھانپنے پر جرمانہ عائد ہے، اسی ملک میں اب ماسک سے منہ نہ ڈھانپنے پر لوگوں کو جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا ہے اور آخری بات اس سلسلے میں جو ذہن سے نکل نہیں پا رہی وہ یہ ہے کہ طاقت کا نشانہ کتنا گہرا ہوتا ہے۔ امریکا میں وائٹ ہاؤس میں امریکی حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں میں کورونا وائرس کے کیسز کی تصدیق کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکاری رہائش گاہ میں ہر کسی کے لیے حفاظتی ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا لیکن صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ خود کوئی ماسک نہیں پہنیں گے کیونکہ وہ کسی کے بھی قریب نہیں جاتے، اس لیے انہیں ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے عوام سے دوری اور دیگر انسانوں کے احساسات سے عاری ہونے کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments