حسن جلیل: ہم صورت گر کچھ خوابوں کے     


1980 کی دہائی ریڈیو کرکٹ کمنڑی کا سنہرا دور تھا۔ دبئی کا ویزہ ملے تو کہیں گھر میں ٹی وی کی منہ دکھائی ہوتی تھی۔ اور ٹی وی بھی کسی شہر، خاص طور پر بڑے شہر میں ہی پر پرزے نکالتا تھا۔ دورافتادہ مقامات پی ٹی وی کی رسائی سے باہر تھے۔ گھر بھر کے سلور کے برتن ایریل کے ساتھ باندھیں تو کہیں جا کر آٹھ بجے کا ڈرامہ اور نو بجے کا خبر نامہ نصیب ہوتا تھا۔ اور وہ بھی اگر برقی رو وفا کر جائے تو۔ دن کے وقت کرکٹ میچ دیکھنے کی نسبت حاتم کا کوہِ ندا کی خبر لانا کہیں آسان تھا۔ کیبل نیٹ ورک آنے میں ابھی دو عشرے باقی تھے۔

اُ س ہو کے عالم میں کمنٹری کا میدان حسن جلیل کے ہاتھ تھا۔ رواں تبصرہ اور بھی کرتے تھے لیکن حسن جلیل اس میدان کے عبدالرحمن چغتائی تھے۔ قذافی سٹیڈیم میں پاک بھارت میچ ہے۔ میدان میں کون ہے ؟ پتہ نہیں، مائیک البتہ حسن جلیل کے ہاتھ ہے۔ ظفروال کے مضافات میں برسیم کے کھیتوں کے کنارے ٹہلتے چوہدری نے اپنے ٹرانسسٹر ریڈیو کے پہلے بینڈ پر میڈیم ویو کو کھنگالا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی دلفریب آواز سن کر پیٹر انجن بند کردیا۔ مٹیاری سے لے کر پشاور اور بہاولپور سے لے کر کراچی تک کے کرکٹ کے شائقین ہمہ تن گوش ہیں۔

حسن جلیل کی رس بھری آواز ابھرتی ہے۔ گواسکر نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان اپنے بالنگ کے نشان کی طرف جاتے ہو ئے۔ سلپ میں میانداد، مدثر اور راجہ ہیں۔ محسن کور میں ہیں۔ حسن جلیل کی آواز جوشیلی ہوتی جا رہی ہے: “نوجوان” عمران نے کالج اینڈ کی طرف سے بھاگنا شروع کیا۔ ارون لال سامنا کررہے ہیں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے۔ آسمان پر پی آئی اے کا طیارہ فضائے بسیط کو چیرتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے (اُس وقت غصہ آتا تھا۔ جلیل صاحب آپ جہاز کو جانے دیں، خاں صاحب پر نظر رکھیں)۔ لیکن نہیں۔ بالر جتنا مرضی تیز بھاگے، مبصر نے نصف لاہور، موسم، فضا اور شائقین کی منظر نگاری سے باز نہیں آنا۔ انجام کار 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند ارون لال کے سینے کے قریب سے گزرتی ہوئی وسیم باری کے گلوز میں پہنچے گی تو کہیں جا کر شائقین کو دوسرا سانس نصیب ہوگا۔ جب تک مختلف فیلڈرز کے ہاتھ سے ہوتی ہوئی گیند دوبارہ بالر کے پاس پہنچے، مبصر کے پاس گلوں میں رنگ بھرنے کا کافی وقت ہے۔

مبصر اور بھی تھے۔ چشتی مجاہد، افتخاراحمد اور عمر قریشی انگریزی میں کمنٹری کرتے تھے۔ لیکن عام لوگ انگریزی رواں تبصرے سے گریز کرتے تھے تا وقتیکہ میچ سننسی خیز مرحلے میں داخل ہوجائے۔ عمر قریشی سے یاد آیا۔ اُن کی آواز قائد اعظم کی آواز سے ملتی جلتی تھی اور قائد آعظم کے چودہ نکات ہمیں کبھی یاد نہیں ہوئے تھے، سوائے ایک کے کہ “سندھ کو بمبئی سے الگ کردیا جائے”۔ استاد سے مار پڑھتی تھی۔ چنانچہ عمر قریشی کے آتے ہی ہم ریڈیو جالندھر لگا لیتے۔ ادھر مرلی منوہر لال منجو بھی حسن جلیل کے ہم منصب تھے۔ کیا شیریں زبان پائی تھی ! بالکل گواسکرکے کور ڈرائیو کا سا مزہ دیتی تھی۔

منیر حسین اور محمد صدیق بھی اردو کمنٹری کرتے تھے۔ ان دونوں میں ایک خوبی مشترک تھی۔ میچ جتنا مرضی سنسنی خیز ہو، اس کا ٹیمپو سلو کرکے ٓسامعین کے دل کی دھڑکن متوازن رکھتے تھے۔ منیر حسین لکھاری البتہ کمال کے تھے۔ ان کا رسالہ “اخبارِ وطن” ہاتھوں ہاتھ بکتا تھا۔ اُن کے لکھے ہوئے بعض تبصرے اردو ادب میں جگہ پا سکتے ہیں۔ بھارت کے خلاف 1983 کے سیمی فائنل پر لکھا :سنہرے بالوں اور فولاد صفت ضربوں والے گاور واپس پویلین میں۔۔۔ اولڈ ٹریفولڈ کی سرسبز گھاس پر انگلش بلے بازوں کے قدموں کے نشان گہرے ہوتے گئے۔ ایک اور میچ پر لکھا : گریگ رچی کی سبزے کو خاکستر کر دینے والی آف ڈرائیوز۔

شاید ایسے ہی صورت گر الفاظ کے بارے میں ورجینیا وولف نے کہا تھا کہ جب میں اپنے ارد گرد بل کھاتے، چکراتے الفاظ کی جادوگری نہیں دیکھتی تو مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں کچھ بھی نہیں، میں اندھیرے میں کہیں کھو چکی ہوں۔

آج سائبر سپیس کے دور میں خیال کیا جاتا ہے کہ لکھے اور بولے ہوئے لفظ کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف معلومات درکار ہیں۔ درحقیقت آج تو بہت زیادہ لکھا جا رہا ہے، اور لکھا جاتا رہے گا۔

صرف دیکھنا یہ ہے کہ الفاظ کا تعلق محض معلومات سے جڑ کر نہ رہ جائے۔ ان کا خوشی سے تعلق بھی باقی رہے۔ خوش قسمتی سے انسان خواب دیکھتا ہے اور مزید خوش بختی یہ ہے کہ ہر انسان مصور نہیں ہوتا۔ چنانچہ حسنِ بیان کی ضرورت رہتی ہے۔ جب وہ خود اپنے جذبات کو الفاظ میں نہ ڈھال پائے تو الفاظ مستعار لے گا۔ اسی لیے اطہر نفیس نے کہا تھا،

” ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے “

تو صورت گری کی یہ دنیا آباد رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments