لاؤڈ اسپیکر اور رمضان پاکستان


رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان مولوی حضرات کی ڈیوٹی بھی جو اس بات کو ہر رمضان میں یقینی بناتے ہیں کہ تراویح اور سحر کے اوقات کے درمیان کوئی گناہگار نیند نہ پوری کر سکے۔ فجر کی نماز سے کم و بیش ڈھائی گھنٹہ پہلے یہ صاحبان اس لاؤڈ سپیکر کا بھرپور استعمال کرتے ہیں جس کے خلاف فتوے بھی کسی زمانے میں انہوں نے ہی صادر کیے تھے۔

شروعات ہلکی کھنکار سے ہوتی ہے۔ جو کم ازکم اتنی تو ہوتی ہے کہ آس پاس کی آبادی میں موجود کچی نیند میں سوتے نفوس اللہ اکبر کہتے اٹھ بیٹھیں۔ اس کے بعد کچھ خوش الحان مؤذن نعت پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور مجھ جیسے پاپی جو اس کھنکار کے بعد کروٹ بدل کے ڈھیٹ بن کر سونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ تھک ہار کر اٹھ بیٹھتے ہیں اب نعت کے اختتام کے بعد مختصر سا وقفہ ہوتا ہے اور پھر ہر جانب سے جیسے اعلانات کا سیلاب آ جاتا ہے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز کی مانند ساری عوام کو بغیر کسی نسلی و مذہبی تعصب کے جگایا جاتا ہے۔ اب آپ کو دین نے روزہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے یا نہیں یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔ اب ہر صاحب کا الگ انداز ہے کوئی روزے دارو اللہ نبی کے پیارو جنت کے حقدارو (اب حقدارو کو طلبگارو میں بدل دیا گیا ہے ) سحری کا وقت ختم ہونے میں ڈیڑھ گھنٹہ رہ گیا ہے کی نوید سناتا ہے تو کوئی اٹھ بندیا روزہ رکھ کہہ کر آپ کو متوجہ کرتا ہے۔ اور آپ جو اپنے موبائل پر نہایت تسلی سے فجر سے پون گھنٹہ قبل کا الارم لگا کر سوئے تھے کہ دو نفل تہجد کے پڑھ کر سحری کریں گے بے بسی سے موبائل کو دیکھتے ہیں۔ پھر آپ سوچتے ہیں کہ چلو روزہ رکھ کر نیند کا سامان کیا جائے گا لیکن سحری کے بعد مسجد میں موجود مائک کسی بچے یا نمازی کو تھما دیا جاتا ہے جو نعتیں پڑھنا شروع کر دیتا ہے جب تلک وہ چپ کرتے ہیں تب تک سورج چاچا آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے لگتے ہیں۔

ایک عرصے سے گرمیوں میں کھلے آسمان تلے سونے کی میری عادت اور شوق کے باعث میں پورا رمضان شاید ہی نیند پوری کر پائی ہوں وجہ مساجد کے سپیکروں کا بے موقع محل استعمال ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کے ناتے سحر کے اوقات میں رمضان کی مخصوص فضا قائم کرنا سمجھ آتا ہے اذان کے اوقات میں اذان کا دیا جانا بھی نہایت احسن اور فرض کام ہے۔ لیکن ڈھائی گھنٹہ پہلے شروع ہونے والے اعلانات اور عقیدت کے مظاہرے میری سمجھ سے باہر ہیں۔ ہر دو گلی کے فاصلے پر ایک مسجد ہے اور ان مساجد میں لاؤڈ سپیکروں کی بہتات ہے۔ اور ان اسپیکرز کو سنبھالنے والے اکثر حضرات حقوق العباد اور اخلاقیات جیسی نعمت سے حسب ضرورت محروم ہیں۔

گزارش یہ ہے کہ مائی باپ مملکت خداداد میں چھوٹے بچوں کی مائیں بھی ہیں جو سارا دن ایک پاؤں پر کھڑی رہتی ہیں اور دفاتر و کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مرد حضرات سمیت بوڑھے شہری بھی سانس لیتے ہیں۔ یہ سارے نفوس دن کے اوقات میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ زندگی کے کام دھندے تو کرنے ہی ہیں۔ یہ لوگ مولوی صاحبان کی طرح فجر سے لے کر ظہر تک آرام نہیں کر سکتے کیونکہ کار زندگی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لئے حضور والا تھوڑے سے رحم کی گزارش ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر بندے کے پاس موبائل ہے جس پر خوش قسمتی سے الارم کی سہولت دستیاب ہے تاکہ اپنی مرضی اور آرام کے مطابق بیدار ہوا جا سکے۔ تقریباً ہر گھر میں گیس کا چولہا دستیاب ہے اس لئے مساجد کو صرف اس ڈر سے پھوہڑ عورتوں کو جگانے کی ذمہ داری نبھانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ کوئلوں کو گرم کرنے میں ہی گھنٹہ لگ گیا تو کھانا کیسے بنے گا۔

اسلام اخلاقیات کا دین ہے ایسا دین جس میں گھروں کو صرف اس لئے اونچا رکھنے کی ممانعت ہے مبادا ساتھ موجود گھر کی ہوا نہ رک جائے۔ ایسے میں ایک پورا مہینہ سحری کے مناسب اوقات کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کے باعث نیند کی کمی سے لڑتے شہری سڑکوں پر سر پھٹول ہی کرتے پھریں گے۔ اس لئے اسلام کے ارکان کو محض خود پر مسلط ہی نہ کریں بلکہ اس کو اپنی معاشرتی زندگی کا حصہ بھی بنائیں اور دوسروں کے لئے خوشی و سکون کا باعث بھی بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments