ارطغرل اور دلی سے آئے پانچ سوار


گئے دنوں کی بات ہے شہر لاہور تیرہ دروازوں میں سمٹ جاتا تھا۔ شام ڈھلے لوگ آنکھیں موندنے کی تیاری کرنے لگے کہ ایک دروازے پر چار گھڑ سوار اور ایک خر سوار نمودار ہوئے۔ سپاہی نے استفسار کیا ’کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘ احساس کمتری سے مہمیز ہوئی عجلت سے خر سوار بولا ’ہم پانچوں سوار دلی سے آئے ہیں۔‘

ہمارے حصے میں آئی ’شب گزیدہ سحر‘ کے بطن سے دلی کا پانچواں سوار ہی نکلا۔ ملک تو ’شب بھر میں‘ بن گیا لیکن تشخص کیا ہوتا ہے اس کا جواب سراب ہو گیا۔ پانچویں سوار کی ذہنیت ہماری راہنما ہوئی کہ جو زمان و مکان سے ماورا ہو وہ لفظوں میں سما سکتا ہے اور ہم خدا حافظ کو خدا حافظ کہہ کر اپنے فہم کی ستائش پانے لگے۔ بزرگ بتاتے تھے کہ وہ دعا کو دعا ہونے سے پہلے جانتا ہے۔ ہم نے دریافت کیا کہ مدعا بیان کرنے کے لئے حلق سے آواز نکالنا لازم ہے۔ شناخت کا تناور درخت جڑ سے اکھاڑ کر خود کو ہی پچھاڑ بیٹھے اور کاٹھ کباڑ پر براجمان ہو کر ایرانی قالینوں پر جوتوں سمیت پاؤں دھر دیے۔

ہم بے مدار ستاروں کو فکر کی گمبھیر گپھاؤں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ترک و عرب و فارس کے نسیم حجازی بھی ’جی جان سے پیارے‘ لگے۔ شناخت برساتی جڑی بوٹیوں کی طرح اگنے لگی۔ کبھی ٹوڈی، کبھی یانکی (yankee) ، کبھی عربی، کبھی ترکی۔ تھالی کے بینگن ہوئے ’بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ‘ ایک طفیلی رشتہ دار کو دیکھ کر متمول رشتے داروں کے چہروں پر آئی مسکراہٹ کو عزت سمجھتے رہے۔

ارنسٹ ہیمنگوے کے ’دی اولڈ مین اینڈ دا سی‘
(The Old Man and the Sea)
میں سانتیاگو عزت نفس کے تصور کو کوزے میں بند کر دیتا ہے۔ ’پہلے پہل تم ادھار مانگتے ہو پھر بھیک۔‘ ہم مستعار لئے تشخص پر ایک قوم بنانے میں کوشاں رہے۔ حاصل ڈھاک کے تین پات۔

کہتے ہیں وقت کو روکنے کی خواہش المیے کو جنم دیتی ہے۔ یہ دور مثبت نویسی ہے۔ لکھتے جی ڈرتا ہے کہ ہم تو کب کے خواہش سے آگے نکل کر وقت کو روک چکے۔ اب تو صرف المیے تخلیق کرنے کی مشق بچی ہے۔ ذوالفقار علی بخاری آل انڈیا ریڈیو میں اپنے کام کے دوران نافذ پابندیوں کے بارے میں انگریز کو دیا گیا جواب لکھتے ہیں :

’حضور ملک کے اہل علم دو طبقوں میں منقسم ہیں۔ ایک تو وہ جو سرکار کا نمک خوار اور غلام ہے۔ اور دوسرا وہ جو آپ کو ملک بدر کرنے کے لئے میدان میں اتر آیا ہے۔ آپ کے نمک خوار اور غلام ریڈیو پر آتے ہیں تو لوگ ریڈیو بند کر دیتے ہیں۔ اگر دوسرے طبقے کو ہم ریڈیو پر بلائیں تو آپ ہمیں بند کر دیتے ہیں۔ اب یہ ریڈیو کیوں کر چلے گا۔‘ (سرگزشت۔ صفحہ 189)

ہم نے جہالت کو علم کا لبادہ اوڑھا کر، ایک یک رنگی قوم بنا کر یہ تقسیم ختم کرنے کی کوشش میں نئی نسل کو سوچ کے وہ الجھاؤ بخشے ہیں جو سلجھائے نہ سلجھیں۔ تمام وسائل کو بروئے کار لا کر، فکری بنجر پن کی نمو کر کے یگانگت اور قوم سازی کا یہ نسخہ کیمیا ملا کہ نوجوانوں کے ’بحر کی موجوں میں اضطراب‘ پیدا کرنے کے لئے کبھی بدر بن مغیرہ کے کارناموں سے ’آشنا‘ کر دو تو کبھی ارطغرل کی فتوحات سے۔ فخر بیرون پہ، شرمندگی درون پہ۔ اپنے آپ سے ہر لمحہ بڑھتی اجنبیت سے حاکم و محکوم کی دوئی پر استوار نظام ہی دوام پا سکا۔ دور حاضر کا آہنگ فقط عہد گزشتہ کی گونج۔

یہ حسرت رہ گئی کس کس مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
مظہر جان جاناں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments