غربت اور سماجی عدم احساس


روسی ادیب لیو ٹالسٹائی نے غربت کی وجہ بیان کی تھی، یہ ایک مستند اور جامع وجہ ہے، چنانچہ ٹالسٹائی کہتا ہے کہ، ”غربت کی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات ہوتی ہیں ورنہ ہر بے روزگار شخص جائز طریقے سے اپنے جینے کا بندوبست کر سکتا ہے۔ لیکن مراعات زدہ معاشرے میں انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ بے روزگاری بڑھے اور مل مالکان کو سستے مزدور دستیاب ہوں۔“

غربت کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں جن میں، آبادی میں بے ہنگم اضافہ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، جنگیں، قدرتی آفات اور حکومتی غیر سنجیدہ حکمت عملیاں وغیرہ۔ مگر امیروں اور جاگیر داروں کے دلوں میں غریب لوگوں کی مجبوریوں کے احساس کا جنم نہ لینا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ معاشرے میں عموماً دو ہی طبقات پائے جاتے ہیں، ایک امیر اور دوسرا غریب۔ امیر ہر قیمت پر مزید امیر بننا چاہتا ہے جبکہ غریب غربت کے منحوس چکر سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔

غربت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام ہے۔ اس نظام کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں اکثریت غریب اور اقلیت امیر ہوتی ہے۔ یہ اقلیت تمام معاشی وسائل پر قابض ہوتی ہے۔ استحصال اس کا ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ نچلے طبقے کو دبا کر رکھتی ہے اور ان سے حسب منشاء کام لیتی ہے۔ اس اقلیت کے افراد بڑی ہی مہنگی گاڑیوں میں بڑے اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں ڈنر یا لنچ کے لیے جاتے ہیں، شاپنگ پلازوں سے مہنگے ترین ملبوسات خریدتے ہیں، حتیٰ کہ چند گھنٹوں میں لاکھوں روپے عیاشی میں لٹا دیتے ہیں مگر کسی غریب کے گھر ایک وقت کا راشن نہیں چھوڑتے۔ اچھے سکولوں اور ہسپتالوں پر ان کا قبضہ ہوتا ہے، یہ قانون کو بھی پیسے کے زور پر خرید لیتے ہیں، مگر کبھی اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح و بہبود پر ایک پائی تک خرچ نہیں کرتے۔

سرمایہ دارانہ نظام نے اس استحصالی گروہ کو اپنے مفادات حاصل کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ سرمایہ دار جب دولت بنانے لگتا ہے تو وہ مذہبی احکامات تک کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ وہ یہ بات تک نہیں یاد رکھتا کہ اپنے خدا کے ساتھ عبادت یا مناجات میں اس نے کیا کیا عہد کیے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو مذہب کی قید سے آزاد کر لیتا ہے، اس خود ساختہ آزادی کے بعد وہ ان تمام چیزوں کی پیداوار میں بھی حصہ لیتا ہے جو مذہب کے نزدیک ناجائز یا اخلاقی معیارات کے مطابق نہیں ہوتیں۔ وہ مضر صحت چیزیں بھی ببانگ دہل بناتا اور فروخت کرتا ہے۔ یوں سرمایہ دار اپنے مزدور اور صارف کا بیک وقت استحصال کر رہا ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بڑا تحفہ موجودہ بینکاری کا نظام ہے۔ اس نظام نے غریب کا کھلے دل سے استحصال کیا ہے اور کر رہا ہے، یہ نظام بھی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کو آسان شرائط اور کم لاگت شرح سود پر قرضے فراہم کرتا ہے جبکہ یہی بینکاری نظام پسماندہ طبقات کو سخت شرائط اور زائد لاگت شرح سود پر قرضے فراہم کرتا ہے۔

اس سودی نظام نے بھی غربت کی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ غریب طبقات میں قرض عموماً مال مویشی جیسا کہ بھینس اور گائیں وغیرہ اور معمولی نوعیت کے کاروبار شروع کرنے کی غرض سے حاصل کیا جاتا ہے، ان قرضوں کی مالیت 50 ہزار روپے سے تین لاکھ روپے تک ہوتی ہے، نفع کی صورت میں بھی مقروض بینکوں کی قسطیں ماہانہ وقت پر ادا کرنے کا پابند ہے اور نقصان کی صورت میں بھی۔

فرض کریں اگر کسی شخص بینک سے دو لاکھ روپے قرض 18 یا 20 فیصد شرح سود پر حاصل کیا اور اس قرض سے بھینس خریدی جو گھر لانے کے ایک ہفتہ یا مہینہ بعد ہی ہلاک ہو گئی تو بینک اس صارف کو کسی قسم کی رعایت نہیں دیتا، یوں غربت مزید پنجے گاڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ حکومتوں نے آج تک اس جانب توجہ نہیں دی اور بینکاری نظام کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے معمولی نوعیت کے کاروبار شروع کرنے کے لیے بینکوں سے قرض لیے، قرض کی قسطیں دیتے دیتے ان کے وہ کاروبار بھی بیٹھ گئے اور وہ غربت کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔

پسماندہ ممالک میں بری طرز حکمرانی یا بیڈ گورننس بھی غربت کی وجہ بنتی ہے، بری طرز حکمرانی میں وسائل کا درست استعمال ممکن نہیں ہوتا، یوں وسائل بے دردی سے ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں، اس طرح کی طرز حکمرانی غربت کے خاتمے کے لیے کوششیں نہیں کر سکتی نتیجتاً لوگوں کا معیار زندگی گرتا چلا جاتا ہے، یوں پرانے مسائل حل ہوتے نہیں نئے مسائل بھی جنم لے لیتے ہیں۔ خراب حکمرانی یا بد انتظام حکومت کی موجودگی میں کسی ملک میں خواہ کتنے ہی وسائل، خزانے اور دولت کے انبار کیوں نہ ہوں ملک سے غربت ختم نہیں ہو سکتی۔

چونکہ حکمران طبقات یا تو سرے سے ان وسائل کے استعمال کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ یا پھر ان کی بد انتظامی کی وجہ سے یہ وسائل غلط استعمال ہو جاتے ہیں۔ یہ وسائل نا جائز طریقے سے چند ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ یا پھر لوٹ لیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں گڈ گورنس یا اچھی حکمرانی کو کسی ملک کی ترقی کے لیے پہلی شرط قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جس ملک نے بھی کامیابی سے غربت کا خاتمہ کیا، ترقی اور خوشحالی حاصل کی، اس کی ابتدا اچھی حکومت یعنی گڈ گورننس سے ہوئی۔

حکومتی وزراء اور ارکان اسمبلی کو اپنی گاڑیوں اور بنگلوں کی اونچائی کی فکر تو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے مگر جن کیڑے مکوڑوں نے انہیں اس مقام پر پہنچانے میں کردار ادا کیا ہوتا ہے ان کے لیے پالیسی یا قانون سازی سے انہیں کوئی غرض نہیں رہتی۔ وہ کبھی بھی اپنی چمچماتی گاڑی یا دلکش بنگلے سے نظر باہر نکال کر لوگوں کی پسماندگی کا نظارہ نہیں کرتے۔

حکومتوں کی کمزور اور غیر معیاری حکمت عملیاں بھی غربت کی بڑی وجہ ہیں۔ تاہم سماجی کوششیں بھی غربت میں واضح طور پر کمی لانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

کتنا ہی اچھا ہو اگر یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی زندگی کی ضروریات بہم پہنچانے کا بیڑہ اٹھا لیں۔ اگر زکوٰۃ کا نظام ہی درست خطوط پر استوار ہو جائے تو اس سے بھی غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں صاحب نصاب افراد کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے ادا کرنے کی عادت ڈالیں، حکومتوں نے تو آج تک غریب افراد کی فہرستیں تیار نہیں کیں۔ اس لیے صاحب نصاب افراد بذات خود یہ ذمہ داری لیں کہ غرباء کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں اپنی غریبی ختم کرنے میں مدد کریں۔ ایک چھوٹا سا کاروبار چلانے میں مدد کریں۔ اس طرح غریب طبقات بینکوں کے استحصالی قرضوں سے بھی بچ سکتے ہیں اور امداد فراہم کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں بہتر بدلے کے سچے وعدے بھی موجود ہیں۔

اگر ایک شخص ایک کروڑ روپے مالیت کی گاڑی خریدتا ہے، اس کی ضروریات تو 25 لاکھ روپے مالیت کی گاڑی بھی پوری کر سکتی ہے، یوں 75 لاکھ کی بچت سے وہ کم از کم 20 ان بیاہی لڑکیوں کی شادیوں کے انتظامات کر سکتا ہے۔ اسی طرح مہنگے لباس پہننے والے اور ہر ماہ شاپنگ کے شوقین خواتین و حضرات اپنے شوق کا قتل کر کے غریب گھرانوں کو راشن اور محنت کش بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ شادیوں پر فضول خرچیوں کی مد میں خرچ کیے جانے والے لاکھوں روپے غریبوں کی محرومیوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جن کے لیے حکومتی منظوریوں کی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرے کے مخیر حضرات معاشرے کے راہنما بن کر غربت جیسے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔

دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ بھی غربت کے کئی اسباب ہیں۔ سدباب کے بھی کئی طریقے ہیں۔ غربت کے دیگر اسباب اور ان کے سدباب کے طریقوں کو باری باری دیکھنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments