سکول میں داخلے کے وقت بچے کی عمر کیا ہو؟


گھر کے ساتھ ہی ایک سکول ہے۔ صبح اور چھٹی کے وقت بچوں کو سکول آتے جاتے دیکھتا ہوں۔ ان میں بعض بچے اتنے چھوٹے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے چھوٹے بچے سکول جا رہے ہیں۔ ان چھوٹے بچوں میں سے سارے خوشی خوشی سکول نہیں آتے، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رو رہے ہوتے ہیں، کچھ رو نہیں رہے ہوتے لیکن ان کے چہروں پر ناگواری کے اثرات دیکھے جا سکتے ہوتے ہیں اور کچھ گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے خیال میں ان کی کم عمری ہوتی ہے کیونکہ ان سے بڑی عمر کے بچے خوشی خوشی سکول آ رہے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سکول میں داخلہ کے وقت بچے کی عمر کیا ہو؟

ان میں سے کچھ بچوں کے والدین سے بھی بات ہوئی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے بچوں کی چھوٹی عمر سے پریشان نہیں، بلکہ بالکل مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کی چھوٹی عمر ان کی تدریس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ خاص طور پر ان کے بقول جن بچوں کو قرآن پاک حفظ کروانا ہو، ان کو چھوٹی عمر میں ہی اس راستے پر لگا دینا بہتر ہے۔ ایک والد نے بتایا کہ میں نے اپنے دو بچوں کو بالترتیب تین سال دس ماہ اور تین سال گیارہ ماہ کی عمر میں اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور ان کا بظاہر چھوٹی عمر میں داخلہ ان کے لیے یا ہمارے لیے کبھی بھی مسئلہ نہیں بنا۔

مغربی ممالک سے کچھ معلومات لینے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہاں بچوں کو چھوٹی عمر میں داخلے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ فن لینڈ آج کل تعلیمی میدان میں امریکہ سمیت بہت سے مغربی ممالک سے آگے ہے، بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ درجہ بندی کے اعتبار سے پوری دنیا میں پہلے نمبر پر تھا۔ وہاں باقاعدہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ سات سال سے کم عمر کا بچہ سکول میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ ان ممالک کی دلیل یہ ہے کہ بچے میں عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم اور ذہن دونوں کی نشو و نما اس مرحلے پر پہنچ جاتی ہے کہ اس پر تعلیمی بوجھ آسانی سے ڈالا جا سکتا ہے۔

مغربی اور اسلامی تعلیمی ماہرین بھی اپنے افکار میں پوری تعلیم کا محور بچے کو قرار دیتے ہیں اور اس چیز پر سب ہی زور دیتے ہیں کہ بچے پر اس کی ذہنی استعداد کے مطابق بوجھ ڈالا جائے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس چیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ عمر کی پرواہ کیے بغیر بچوں کو دھڑا دھڑ سکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ کچھ عرصہ پہلے تعلیمی بورڈز کو پابندی لگانا پڑی کہ تیرہ سال سے کم عمر کا طالب علم نویں کلاس کا امتحان نہیں دے سکتا۔ والدین کو یہ پابندی جو سراسر طلبہ کی بہتری کے لیے لگائی گئی تھی بہت گراں گزری۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر سکول میں داخلے کے وقت بچے کی عمر کیا ہو؟ ایک صاحب نے دل کو لگنے والی بات کی کہ نبیﷺ نے نماز کے لیے بچے کی عمر سات سال مقرر کی ہے۔ اس کا مطلب بچہ اس عمر میں بہت کچھ سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں اسکول جانے کے لیے بچے کی عمر اس فرمان رسولﷺ کی روشنی میں سات سال ہی مقرر کر دینی چاہیے۔ فن لینڈ سمیت تمام غربی ممالک نے بھی کم و بیش عمر کا یہی معیار رکھا ہے۔ کیا پتہ انہوں نے بھی اسی فرمان رسولﷺ سے استفادہ کیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments