رلی۔ سندھی ثقافت کی اہم اور قدیم علامت


تحریر: اسحٰق سمیجو
ترجمہ: یاسر قاضی

”رلی“ ، جس کو انگریزی میں ”کوئلٹ“ جبکہ سندھی میں ”رلی“ یا ”رلہی“ کہا جاتا ہے، صدیوں سے سندھ کی پہچان بنی ہوئی ایسی ظاہری علامات میں سے ایک ہے، جس کو دیکھتے ہی اس خطۂ یکتا کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ یہ صرف کپڑے کے مختلف ٹکڑوں کو اقلیدسی شکل میں ترتیب سے کاٹ کے آپس میں جڑی ہوئی، قد آدم سے تھوڑی سی بڑی ایک ضخیم چادر ہی نہیں، جس کو مختلف تہوں میں سی کر، اوڑھنے خواہ بچھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ یہ تاریخ کا ایک ایسا حسین تسلسل بھی ہے، جو اس سرزمین کی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے اوراس خطے کے صدیوں سے تہذیب یافتہ لوگوں کے ساتھ اس کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

پانچ ہزار سال قدیم ’موئن جو دڑو‘ (جسے اب ماہرین کے رائے کے مطابق ’مہین جو دڑو‘ کہا جانے لگا ہے۔ ) کے آثار سے بھی ’اجرک‘ اور ’رلی‘ کے پرنٹ اور ڈیزائن ملے ہیں، جن کا تسلسل ہمیں ’مہین‘ کی تہذیب کے بعد والی تمام تہذیبوں، بشمول ’لاکھین جو دڑو‘ (جس کے آثار موجودہ سکھر کے قریب واقع ہیں ) اور ’چاہین جو دڑو‘ (جس کے آثار موجودہ نوابشاہ اور سکرنڈ کے درمیان میں واقع ہیں ) میں بھی ملتے ہیں۔

رلی کی تین تہیں (لیئرس) ہوتی ہیں۔ پہلی تہہ سادہ کپڑے پر مشتمل ہوتی ہے، جو کپڑا عموماً ایک ہی رنگ کا ہوا کرتا ہے، جو سندھی میں ’تر‘ کہلاتا ہے، دوسری تہہ رلی کا اہم حصہ ہوتی ہے، جس پر اصل ڈیزائن بنا ہوا ہوتا ہے، جو ’پڑ‘ کہلاتا ہے۔ یہی حصہ (تہہ) سب سے زیادہ محنت طلب ہوتا ہے۔ جبکہ تیسری تہہ ان دونوں کے درمیان ہوا کرتی ہے، جو ’لیہہ‘ کہلاتی ہے، جسے دراصل مختلف کپڑوں کے ٹکڑوں کو سیدھا کر کے ان سے بھرا جاتا ہے اور رلی کی ضخامت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

اس تہہ میں استعمال ہونے والے کپڑے کے ٹکڑوں کو ’پور‘ کہا جاتا ہے۔ گویا رلی سازی، گھر کے بیکار کپڑوں کو کارآمد بنانے کا ذریعہ بھی ہے، لہاذا جس گھر میں رلیاں بنتی ہیں، اس گھر میں کسی بھی بظاہر بیکار کپڑے یا کپڑے کے ٹکڑے کو بیکار سمجھ کر ضائع نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے رلی کے پور میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ رلی ٹکڑوں کو جوڑنے کا ہنر ہے، جو ہمیں بیکار کو کار آمد بنانے کا درس بھی دیتا ہے، تو بکھرے ہوؤں کو خوبصورتی سے یکجاء کرنے کا سبق بھی۔ دوسری جانب رلی تصوف کی بھی ایک بڑی علامت ہے، کیونکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ہنر اور مہارت سے یکجا کرنے کا عمل ’وحدت‘ کو ’کثرت‘ میں بدلنے کا ایک عالمگیر پیغام بھی دیتا ہے۔

اس خطے میں بچے کی پیدائش سے لیکر، اس کے بعد از مرگ اپنی لحد میں پہنچنے تک، رلی کا ساتھ اس کے ساتھ ہمہ وقت رہتا ہے۔ گھر میں خوشخبری کا پتہ چلتے ہی آنے والے مہمان کے لیے اس کے چھوٹے سائز کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی رلیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں اور ہونے والے بچے کی نانیاں، دادیاں، پھوپھیاں، خالائیں اور دیگر قریبی رشتہ دارنیاں اس کے لیے چھوٹی چھوٹی رلیاں بنانا شروع کر دیتی ہیں، جسے ’رلکو‘ کہا جاتا ہے۔ بچہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا استعمال شروع کردیتا ہے۔

وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے، اس کے باقی کپڑوں کی طرح اس کے ’رلکے‘ کا سائز بھی بڑا درکار ہوتا ہے، لہاذا اس کے مطلوبہ سائز کی رلچی (رلکہ) بنا کر اس کے استعمال کے لیے مہیا کیا جاتا ہے۔ جب بچہ بالغ آدمی بنتا ہے، تو اوڑھنے سے لے کر بچھانے تک رلی کا استعمال کرتا رہتا ہے۔ اور بالآخر جب وہ زیست کا سفر پورا کر کے عدم کی طرف روانا ہوتا ہے، تو اس کے جسد خاکی کو سجا کراس کے آخری سفر میں وہی متنوع رنگوں سے آراستہ رلی اس کے اوپر ڈالی جاتی ہے، جو لحد میں اتارنے تک اس کا ساتھ نبھاتی ہے، گویا رلی اور اس خطے کے لوگوں کا ساتھ پیدائش تا مرگ، مسلسل رہتا ہے۔

رلی خواتین کا ہنر ہے اور اس کی اکثر کاریگر خواتین ہی ہیں۔ سندھ میں مختلف برادریاں (کمیونیٹیز) رلی سازی کے ہنر کی وجہ سے اپنی خاص پہچان رکھتی ہیں۔ مثلا: ٹنڈو الہیار اور ٹنڈو محمد خان کے چوہان، عمرکوٹ کے پلی اور جوگی، بدین اور ٹھٹہ کے سامی (خانہ بدوش) اور کچھی سومرا برادری سے متعلق لوگ اس ہنر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ صحرائے تھر کے مختلف علاقوں میں میگھواڑ برادری کی خواتین کی رلی بنانے کا انگ بھی کہیں اور نہیں ملتا۔

ویسے تو رلی کی ایک جانب ڈیزائن کا کام کیا جاتا ہے، جبکہ اس کی دوسری طرف سادہ یا خالی (پلین) کپڑا لگایا جاتا ہے، مگر تھر میں دونوں جانب ڈیزائن والی رلیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی رلیوں میں اوپر خواہ نیچے والی تہہ ایک ہی جیسی ہوا کرتی ہیں۔ اور یہاں رلی کے اوپر کپڑوں کے ٹکڑوں کی مدد سے ڈیزائن بنانے کی بجائے دھاگے سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ سندھ میں رلی کی تین اہم اقسام عام ہیں۔ جن میں : ’ٹک‘ ، ’ٹکرین‘ اور ’مکے‘ والی رلیاں شامل ہیں، البتہ سندھ کے مختلف علاقوں میں رلی کی مختلف اقسام کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔

یہ ایک اور دلچسپ امر ہے کہ یہاں کے مختلف علاقوں میں بننے والی رلیوں میں اقلیدسی ڈیزائنز کے اندر مختلف علامات، مثلا: پرندوں، جانوروں، پھلوں، درختوں وغیرہ کو رلی کے پیٹرن میں شامل رکھا جاتا ہے، جو علامات نہ صرف اس علاقے کے سماجی پس منظر کو واضح کرتی ہیں، بلکہ ان ہنرمندوں کے ذہنی رجحان کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔ مثلا: تھر میں بننے والی رلیوں میں اکثر مور، ہاتھی، ہرن اور چاند کی شبیہ کو ڈیزائن کیا جاتا ہے، جبکہ خیرپور اور اس کے گردونواح میں بننے والی رلیوں میں کھجور کے درخت، اسکول کی تختی، اونٹ، جھولے اور کہیں کہیں مور کی شبیہ کو بھی رلی کے ڈیزائنز میں شامل رکھا جاتا ہے، اور سانگھڑ ضلع کے صحرا ’اچھڑو تھر‘ میں بننے والی رلیوں میں چاند، ستارے، پھول، اونٹ وغیرہ کی ڈرائنگز کو عام جام دیکھا جا سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رلی کی ہنرمند خواتین کو ان تمام چیزوں کے ڈرائنگز ازبر ہیں اور انہیں یہ سب ڈیزائن کرنے کے لیے حوالے کے لئے کوئی حوالاتی (ریفرنس) اسکیچ سامنے رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اعلیٰ قسم کی محنت طلب رلیاں ایک سے دو برس میں مکمل طور پر بن پاتی ہیں اور ان کی رقم بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ایک اعلیٰ قسم کی رلی کی موجودہ قیمت ایک تا 5 لاکھ روپے ہے۔ عام اور سادہ رلی کی قیمت ایک سے 5 ہزار روپوں تک، جبکہ درمیانی محنت والی رلی کی رقم 5 تا 10 ہزار روپے ہے، مگر افسوس! کہ وہ خواتین جو اپنی آنکھوں کا نور نچوڑ کر اپنی تمام عمر میں دس سے 15 رلیاں بمشکل بنا پاتی ہیں، ان کو ان کی محنت کی بمشکل 20 تا 25 فیصد اجرت ہی مل پاتی ہے، باقی رقم رلی کو مارکیٹ تک پہچانے والے مڈل مین، بروکر اور دکاندار آپس میں مل کر بانٹ لیتے ہیں۔ یوں اس فن کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے رلی میں کپڑوں کے ٹکڑوں کی مدد سے رنگ بھرنے والوں کی اپنی زندگیاں خوشیوں کے رنگوں سے خالی اور بے رنگ ہی گزرتی ہیں۔

محکمۂ سیاحت و ثقافت، حکومت سندھ کی جانب سے تین برس قبل، کراچی میں اپریل 2017 ء میں دنیا کی پہلی ”رلی نمائش اور مقابلۂ رلی سازی“ کا اہتمام کیا گیا، جس میں سندھ بھر سے محنت کش اور ہنرمند رلی بنانے والی خواتین کو، صوبائی دارالحکومت میں ثقافت اور فن کے بین الاقوامی مداحوں اور خریداروں کے سامنے پیش کر کے، نہ صرف ان غریب ہنرمندوں کی ہمت افزائی، مالی معاونت اور فن کی پذیرائی کا اہتمام کیا گیا تھا، بلکہ ان رلی بنانے والی ہنرمند خواتین میں سے مقابلہ جیتنے والی خواتین کو انعامات بھی دیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments