تھری ڈی پرنٹرز اور قومی سلامتی کا رائج تصور بدلنے کی ضرورت


ایسے وقت میں جبکہ دنیا ایک عالمی وبا کا مقابلہ کر رہی ہے اور سر پر منڈلاتی اقتصادی بحران سے نمٹنے کی تیاری میں مصروف ہے، تھری ڈی پرنٹر پر بات کرنا ایک معمولی بات نظر آئے گی تاہم یہی معمولی سی مثال پبلک پالیسی کے معاملات میں بڑے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔

جو اس سے آگاہ نہیں ہیں انہیں میں بتانا چاہوں گا کہ تھری ڈی پرنٹنگ ایک ایسا عمل ہے جو کمپیوٹر کی مدد سے تیار کیے جانے والے ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے سہ ابعادی اشیا (three-dimensional object)  تیار کرتا ہے۔ اس عمل میں مواد کی یکے بعد دیگرے تہیں بچھائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اسے اضافی مینوفیکچرنگ (additive manufacturing) بھی کہا جاتا ہے۔

اب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہورہی ہے جو زیادہ تر خود کار مشینوں اور تھری ڈی پرنٹنگ جیسی ٹیکنالوجیز پر مشتمل ہے۔ انجینئرز اور ڈیزائنرز اب پہلے ہی دور بیٹھ کر کام کر رہے ہیں اور تھری ڈی پرنٹرز کا استعمال کرتے ہوئے مکمل درستی کے ساتھ مصنوعات تیار کر رہے ہیں۔

تھری ڈی پرنٹنگ رہائش، خوراک کی فراہمی، صحت کی سہولیات اور تعلیمی اداروں میں بہتری لانے کے شاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) کے میدان میں ابھرتے ہوئے پیچیدہ رجحانات کے باعث کوئی بھی ملک تھری ڈی پرنٹنگ کے استعمال کو محدود رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں تھری ڈی پرنٹرز کی درآمد سے متعلق سخت گیر پالیسی لاگو ہے جس کا طریقہ کار انتہائی مشکل اور توانائی کا ضیاع ہے۔ سال 2016 میں پاکستان نے تھری ڈی پرنٹرز کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی، اس خدشے کے سبب کہ انہیں ناجائز اور غیر قانونی اسلحہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہتھیاروں کے کچھ پرزے تیار کیے جا سکتے ہیں تاہم تھری ڈی پرنٹنگ سے چیمبر یا بیرل جیسے انتہائی اہم پرزے بنانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کی تیاری میں گرم درجہ حرارت اور زوردار دھماکہ برداشت کرنے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ ایسے پرزوں کو تھری ڈی پرنٹر کے مقابلے میں دیگر روایتی مشینوں سے بنانا زیادہ آسان ہے۔

اردن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک ، جنہوں نے پہلے پابندیاں عائد کیں تھیں ، نے اب صنعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں جدت لانے کے لیے اس کی درآمد کی اجازت دے دی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ان ممالک کی مثال اپناتے ہوئے کم سے کم پابندیوں کے ساتھ تھری ڈی پرنٹرز کی درآمد کی اجازت دے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو کووڈ 19 وبا کے باعث وینٹی لیٹرز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے سے متعلقہ دیگر مصنوعات، جیسا کہ ماسک اور ذاتی تحفظ کے آلات، کی کمی سے طبی عملے کو بھی سنگین مسائل درپیش ہیں۔ اس ضمن میں تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی ایسی ضروری اشیا کی بڑھتی ہوئے طلب کو پورا کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف صحت کے شعبے کو فائدہ ہو گا بلکہ تعلیمی اداروں ، صنعتوں اور رہائشی منصوبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

تاہم یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت تھری ڈی پرنٹرز کی درآمد کی اجازت دے اور اس کی ملک میں امپورٹ کی راہ ہموار کرے۔ پاکستان میں تھری ڈی ماڈلنگ اور پرنٹنگ سے متعلق آگاہی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد صنعتوں کے ساتھ مل کر لیبارٹری کا رخ کر رہے ہیں۔ تھری ڈی پرنٹرز تعلیم، انجینئرنگ اور صحت کے شعبوں میں کسی حد تک استعمال ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور میں رضاکاروں کے ایک گروپ، جس میں ڈاکٹرز، بائیو میڈیکل پروفیشنلز، ماہرین تعلیم اور انجینئرز شامل ہیں، نے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسا آلہ بنایا ہے جو ایک وینٹی لیٹر کے ذریعے بیک وقت متعدد مریضوں کو مدد فراہم کر سکتا ہے۔

یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو فروغ دینے اور ایسے کسی بھی پلیٹ فارم جس سے زیادہ شخصی آزادی ، مارکیٹ میں مسابقت اور جدت پسندی کی فضا قائم ہو سکے ، کے لیے حکومت کو اپنے قوانین میں سخت پابندیوں کے بجائے ان میں نرمی لانی ہوگی۔ حال ہی میں، وزارت تجارت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس میں وینٹی لیٹرز کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹرز درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم درآمد کرنے اور اس ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لانے کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا جس کے باعث اس کے فوائد سامنے آنے میں بھی دیر لگے گی۔

تاہم اشیاء کی ترسیل کے نظام (supply chains) پر پابندیوں کے پیش نظر اس کام میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔

وہ کون سے بڑے مسائل ہیں جن کا اندازہ ہم حکومتی محدود سوچ کی اس کارستانی سے لگا سکتے ہیں؟ اگر ہم اسی طرح ٹیکنالوجیز کے استعمال پر پابندی عائد کرتے رہے تو ہمارے اور باقی دنیا کے مابین ڈیجیٹل فاصلہ مزید بڑھ جائے گا۔ ہم تجرباتی، آزمائشی اور جدت طرازی (trial and innovation) کے بہت سے مواقع، جو ترقی کی اولین شرائط میں شامل ہیں، ضائع کر بیٹھیں گے۔ کورونا وائرس کا وبائی مرض بھی ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ قومی سلامتی کی دلیل جو اس ٹیکنالوجی پر پابندی کے حوالے سے دی جاتی رہی ہے (اور یہ معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں) میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کی تعریف انسانی فلاح و بہبود، انفرادی آزادی اور ٹیکنالوجی کی آزادی کے ضمن میں متعین کی جانی چاہئے نہ کہ حکمرانی کے ان قدیم طریقوں پر منحصر ہو جو فرسودہ اور مرکزیت پسند (top-down) حکمت عملی پر تشکیل دیے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments