مولانا صاحب کے لئے ہمیں انصاف چاہیے


چترال میں دو قسم کے سیاسی رہنما پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو ترقی اور عوامی خدمت کے نام پہ ہمیں چونا لگا تے ہیں۔ ترقی تو ہم لوگ خبروں میں سنتے ہیں زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ خبروں، فیس بک اور پارٹی والوں کے نزدیک وادی چترال جنت کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ حقیقت میں بائی روڈ بونی سے بروغل یا بونی سے گلگت کا سفر کرو گے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ترقی کی کون سی منزل ہم نے طے کی ہیں۔ ہم اپنے سڑکوں کو اپنی مدد آپ کے تحت مرمت کرتے ہیں۔ بجلی بھی این جی اوز کی بنائی ہوئی ہوتی ہے۔ بہت کم جگہوں میں سرکاری بجلی مہیا کی گئی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ ہم پاکستان کے نہیں افعانستان کے کسی صوبے میں بستے ہیں۔

اور دوسرے وہ جو سودی نظام، این جی اوز، عریانیت کے خاتمے کے نام پر منجن بھیجتے ہیں۔ ایک ایسا بندہ جس نے چترال کا دورہ نہ کیا ہو، وہ یہی سمجھے گا، کہ چترال میں مساج سنٹرز، بارز اور نائٹ کلبز ہیں، میرے بھائی ادھر ایسا کچھ نہیں ہے۔ ادھر شاپنگ مالز بھی نہیں ہیں، اچھے جوتے اور کپڑے بھی پشاور یا اسلام آباد سے خرید کر لاتے ہیں۔ ایک بار چترال میں شاپنگ مال بنانے کی مذموم کوشش کی گئی تھی جس سے مولانا صاحبان نے ناکام بنا دیا۔ اور اس طرح یہ حسین وادی دشمن کے سازش کا شکار ہوتے ہوتے بال بال بچ گئی۔ ورنہ ہمارا کیا ہوتا، ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ دبئی کا دیکھو کیا حشر ہوا ہے۔ بڑے بڑے بلڈنگ کھڑے ہیں، پورے دنیا سے لوگ وہاں آتے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کہ گھومتے ہیں اور فحاشی پھیلاتے ہیں۔ اس دعوے کو ارتغرل، گیم آف تھرون، پیارے افضل، میرا سلطان اور میرے پاس تم ہوں سے زیادہ سنجیدہ نہیں لینا۔

الیکشن جیتنے کے بعد مولانا صاحب کا وہ دھواں دار تقریر کہ میں چترال سے این جی اوز اور فحاشی کا خاتمہ کروں گا۔ این جی اوز چترال میں کام کرتے ہیں لیکن فحاشی کا نہیں پتہ۔ وہاں بازار میں آپ کو خواتین نظر نہیں آئیں گے۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے خواتین بھی دوپٹہ پہن کر گھومتی ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد یہ تمام نعرے اپنے آپ مر جاتے ہیں۔ یا یہ سارے مسائل 5 سال کے لئے حل ہو چکے ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف اختیارات، فنڈز کی کمی اور کبھی سرکاری عہدے داروں سے ٹکراؤ کا مسئلہ جو شلوار سے شروع ہوتا ہوا زیادتی پر ختم ہوتا ہے۔ پھر ہم بحیثیت غیرت مند قوم اکٹھے ہو کر اپنے ہر دلعزیز رہنما کے لئے انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں۔

بھائی یہ ڈی سی ہمارے ایم این اے کو قرنطینہ کی پرچی تھما سکتا ہے۔ ہم جیسے غریبوں کو تو چیو پل میں الٹا کر کے لٹکا دے گا۔ ڈی سی صاحب اور مولانا صاحب دونون قابل عزت ہیں۔ شیر جہان ساحل کو فورتھ شیڈول مبارک، میرے فرینڈ لسٹ میں سرل المیڈا کے بعد واحد فرد ہے، جو کوئی اعزاز لینے کامیاب ہوا ہے۔

معذرت بھائی! میں کون ہوتا ہو ذہنی آزادی پر بات کرنے والا۔ اپنا خیال رکھنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments