بند کلیوں میں افسانے مت ڈھونڈو


کھلنے دو کہ کہانی خوشبو کی طرح بکھر جائے گی۔

یہ 1998 کی بات ہے غالباً۔۔۔ جب باؤ صاحب کو ہماری ایک نظم پڑھ لینے کا اتفاق ہوا۔ باؤ صاحب کو میں آج بھی یاد کروں تو ان کی ممتاز مفتیانہ شخصیت یادداشت کے کونوں کھدروں میں محفوظ ہے۔ نجانے ان بے ربط جملوں کا ان کے دل پر کیا اثر ہوا کہ وہ میرے اس سو ڈگری کے جذباتی ابال کو شہر کے ایک معروف شاعر کو پڑھوانے پر مصر ہو گئے۔ میں نے ان کے اس خیال کی بالکل بھی پذیرائی نہ کی اور ان کو واضح کرنے کی کوشش کی ہم شاعرہ واعرہ ہرگز بھی نہیں، کیونکہ یہ کوئی منظم قسم کی تحریر یں نہیں اور نہ ہی زبان کے الف ب سے ہم واقف ہیں۔

لیکن باؤ جی کو کون سمجھائے، ان کے ذہن میں یہ سما چکی تھی کہ مجھے شہر کے کچھ شاعروں سے ملوانا بہت ضروری ہے ہے نہ جانے ان کو وہ شاعری کی تضحیک کیوں اتنی بھاگئی۔۔۔ بہر حال کہنے لگے پتر تو دس بجے دن کے تیار رہیں، میں آ جاؤں گا، پھر ہم چلیں گے۔ میں سمجھ گئی کہ اب نہیں ٹلنا انہوں نے۔ خیر اگلے دن وہ وعدے کے مطابق دس بجے اپنی سائیکل پہ آن دھمکے۔ میں نے بڑے ترلے واسطے دیے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور آخر ہم دونوں ان شاعرحضرت کے مسکن کی طرف چل دیے۔

مئی کا مہینہ تھا۔ باوجی سائیکل ہاتھ میں پکڑے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ہم اپنی ہرے رنگ کی ڈائری تھامے، چار و ناچار ان کے ہم قدم تھے۔ دھکا کالونی کے بعد ریلوے لائن پار کرکے ایک بستی آئی اور چند گلیاں مڑنے تڑنے کے بعد ہم ایک چھوٹے سے دروازے پر جا پہنچے۔ کھٹکھٹانے پر کسی نے دروازہ کھولا۔ ذرا سامنے سیڑھیاں تھی، یہ چوبارہ تھا، اوپر جانے پر یہ سیدھا ایک بیٹھک نما کمرے میں کھلا جس میں کچھ کرسیاں پڑی تھیں جن میں سے ایک کرسی پر کوئی تقریباً 60 سے 70 کے درمیان کے بزرگ بیٹھے تھے تھے سر بالوں سے خالی ہاتھ میں ایک عصا، دھوتی اور بنیان، مجھے نہ جانے کیوں گاندھی جی یاد آئے۔

سلام دعا کے بعد باؤجی نے شیخی بگھاری اور حضرت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہاں جناب یہ ہماری پیاری بچی بہت نفیس لکھتی ہے، میں اس کو آپ کے پاس لایا ہوں تاکہ آپ اس کی رہنمائی فرمائیں۔ جناب شاعر نے مغرور لیکن بزرگانہ نظر ہم پر ڈالی اور بولے ”ہاں بیٹا سناؤ کیا لکھتی ہو“ ؟ یقین کریں مارے خفت اور خوف کے پہلے تو ہم قطعی انکار کر بیٹھے کہ ہم کچھ لکھتے ہیں، میں نے ان کو بتایا کہ میں کوشش کرکے نہیں لکھتی، انکل بس یہ لکھا جاتا ہے اور ایسے الفاظ ذہن میں آتے ہیں، جو میں نے کبھی پڑھے بھی نہیں ہوتے۔

وہ سٹپٹائے اور عینک کے پیچھے سے باوجی کو گھور کے بولے، ”باؤ جی آپ تو کہتے تھے بچی شاعری کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ نہیں کرتی اور یہ مسئلہ جو یہ بتا رہی ہے کہ لفظ کہیں پڑھے بھی نہیں ہوتے اور ذہن میں آ جاتے ہیں تو یہ تو کوئی ذہنی مسئلہ لگتا ہے باؤجی شاعری ایسے تونہیں ہوتی“۔ ”جناب والا آپ ایک بار سنیں تو سہی“ باؤ جی تیزی سے بولے اور میری ڈائری میرے ہاتھ سے جھپٹ کر لیتے ہوئے کھولی، کچھ صفحے الٹ پلٹ کر بولے، ”لے بیٹا یہ سنا جناب جی کو“ میں نے انتہائی بے بسی سے ڈائری پکڑی دل میں سوچ رہی تھی کہ کیوں باؤجی کے ہتھے چڑھ گئی، ادھر جناب عالی انتہائی متوجہ تھے بولے، ”جی بیٹا ارشاد“ ”جی انکل میرا نام ارشاد نہیں“ میں نے انتہائی سعادت سے ان کو اپنا تعارف کروانا چاہا، لیکن باؤجی اچانک پھٹ پڑے، ”پتر تو سنا بس“ میں نے حیرت سے باوجی کو دیکھا اور پھر اعلی حضرت کو جو یوں گم سم حیران پریشان باوجی کو دیکھ رہے تھے اپنا چھوٹا سا منہ کھول کر جیسے ابھی رو پڑیں گے۔

ہمیں اپنی غلطی کا اچانک احساس ہوا جسے چھپانے کو ہم جلدی سے اپنی ڈائری کی طرف متوجہ ہوگے۔ باوجی نے وہی نظم مجھے منتخب کر کے دی تھی جس پر کل وہ بہت دیر سر دھنتے رہے تھے۔ میں نے شروع کیا، ”یا حسرت“ ابھی یہ دو لفظ بولے ہی تھے کہ اعلی حضرت نے ٹوکا، ”کیا کہا؟ یعنی یا حسرت۔ ۔ ۔“ ”جی جی جناب“ اور میں نے دوبارہ شروع کیا، ”یا حسرت“ تو اعلی حضرت پہلے سے بھی زور سے بولے ”یا حسرت کیوں؟ حسرت کسی کا نام ہے جس کو آپ نے مخاطب کر چھوڑا بالکل آغاز ہی میں“ ؟

۔ ۔ اب ہم چپ اور دیکھیں بٹر بٹر۔ ”جی نہیں یہ کسی کا نام نہیں یہ تو ویسے ہی بس“ میں نے وضاحت دینے کی ناکام کوشش کی ”حسرت کو ویسے ہی یا لگا دیا یہ کون سا اصول ہے اردو زبان کا بھئ؟ باؤ جی آپ تو کہتے تھے بچی شاعری کرتی ہے“ ؟ بیچارے باؤ جی ہکلائے، ”حضرت بالکل کرتی ہے آپ سنیں تو سہی“ نہیں جناب ان کو تو زبان کی الف ب نہیں آتی، ان کی تو تصحیح ہونے والی ہے، حد ہو گئی، آ غاز ہی میں یا حسرت، وہ آ نکھوں میں حیرت لیے بڑ بڑائے۔

باؤ جی پھر سے گویا ہوئے، ”اؤ چلو مٹی پاؤ یا حسرت پہ چل بیٹا تو آگے پڑھ۔“ ۔ اب یا حسرت میرے گلے کی پھانس بن کر شکل پر ڈھیروں خفت کی صورت میں نمودار ہو چکا تھا۔ میں نے اگلی لائن ہمت کرکے پڑھ ڈالی۔ لیجیے اعلیٰ حضرت اب اردو زبان کے اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑتیں مزید برداشت نہ کر سکے اور میری نا شاعری کو بیچ میں شائستگی سے ٹوکتے ہوئے گویا ہوئے ”باوجی یہ شاعری ہر گز نہیں ہے، کوئی شک نہیں کہ کل کو زبان کے رموز و اوقاف اور اصول و ضوابط بچی کوشش کرکے سیکھ لے اور درست شعر کہنے کی صلاحیت پیدا کر لے، لیکن ابھی ان تحریروں کو شاعری نہیں کہا جا سکتا، جدید شاعری بھی قدیم پیمانوں سے ہی ماپی جائے گی۔

بچی کو اس کی پڑھائی پر توجہ دینے دیں میں اس کو کچھ کتابوں کے نام لکھ کر دیتا ہوں“ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے، ”بیٹا آپ پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ کتابیں پڑھتی رہیں آپ کو اندازہ ہوگا کے الفاظ کا چناؤ، وزن، قافیہ ردیف کیسے قائم کیا جاتا ہے“ اس کے بعد انہوں نے ایک صفحے پر کچھ لکھ کر دیا گویا میری بدزبانی کا علاج ہو جیسے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم چچا بھتیجی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتے واپس آرہے تھے باؤ جی بالکل یوں چل رہے تھے جیسے آج صبح ہی میں نے ٹی وی پر لگنے والے پانچ منٹ کے دورانیے کے کارٹون پروگرام میں پنک پینتھر کو کسی مشن سے ناکامی پر سر ڈال کے چلتے دیکھا تھا۔

بیچارے سادہ دل باوجی، گھر آکر خیر انہوں نے بڑی شفقت سے کہا، ”پتر انہوں نے ہمت ہی نہیں کی نظم پوری سن لینے کی، سن لیتے تو عش عش کر اٹھتے“ میں نے کہا، ”انکل جی خوش زبان لوگ عش عش نہیں کرتے، کر سکتے ہی نہیں، اگر وہ عش عش ایسے ہی کر ڈالیں تو تصحیح کون کرے گا؟“ کہنے لگے، ”اچھا دل چھوٹا نہ کر میری بات سن اگلے ہفتے میرا بیٹا آ رہا ہے وہ بہت بڑا شاعر ہے اسلام آباد میں رہتا ہے اس کو ہم تیری شاعری پڑھائیں گے“ ۔ میری تو نکل جان گئی۔ میں نے کہا، ”باوجی میری یہ نا شاعری آپ کے لیے حاضر ہے آئندہ ہم ایسا کوئی مذاق نہیں کریں گے۔

قارئین وقت کے پیمانے پر ذرا تیز چل کر آگے آجائیں، انیس سو اٹھانوے سے 2011 تک بد زبانی اور بے زبانی کے معاملات اور بھی سنجیدہ ہو چکے تھے، الفاظ کے ماخذ اور ان کے استعمال کا سراغ لگائے بنا روزنامچے لکھ لکھ کر، علاوہ ازیں ان کو من مرضی سانچوں میں ڈھال ڈھال نا شاعری اور نانثر سے ہم نے صفحے کالے کر ڈالے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انگریزی ادب پڑھا۔ سارے اصول وقوانین، اصطلاحات، زبان و بیان کی وارداتیں قصے کہانیاں سب انگریزی میں۔

عجیب سے عجیب تر ہوتا گیا سب کچھ۔ شعور کی منڈیروں پر خیالات کے پرندے اکثر بیٹھتے، لیکن جب جال ڈالتی تو تتر بتر ہو جاتے کیونکہ ہم زبان دانی میں آدھا تیتر آدھا بٹیر ہوکر ادبی گونگے ہو چکے تھے۔ خیر 2009 میں لیکچرر ان انگلش کے طور پر ساہیوال کالج میں تقرری ہوئی۔ اب وہاں جو جگر سہیلیاں بنی وہ دونوں اردو والیاں تھی۔ میں 1998 کے واقعہ کو یادداشت کے کسی زندان میں ڈال چکی تھی۔ لیکن لاشعوری طور پر ایک جھجک ہمیشہ کے لیے قائم ہی رہی کہ کسی زباں دان کو اپنی تحریر دکھائی جائے۔

البتہ بہت سے باؤ صاحب جیسے ابھی بھی پڑھ لیتے تو انھی کی طرح دل پہ لے لیتے۔ جب میں نے 2011 میں پھر سے سوچا کہ کیوں نہ اپنے کالج کے اردو ڈیپارٹمنٹ کی کسی پروفیسر کو اپنی لکھی ہوئی حماقتیں چیک کروائی جائیں وہ دن تو ابھی یادداشت میں بالکل تازہ ہے، اور مزید ظلم یہ کہ وہ اپنی ہمزاد یادداشت کو بھی پکڑ دھکڑ لاشعور کے زندان سے نکال لایا۔ سٹاف روم میں اپنی تحریر لیے بیٹھی، میں اچانک دائیں بائیں بیٹھی جگر اردو والیوں کو اطلاع دیے بنا ہی ا چک کر ان پروفیسر کے پاس جا بیٹھی اور جھٹ سے اپنا صفہ ان کے آگے کر ڈالا۔

”میڈم اس کو تصحیح کی نظر سے دیکھیے گا میں تھوڑی رہنمائی چاہتی ہوں“ میں نے بڑی شائستگی سے ان کو مخاطب کیا۔ انہوں نے عینک کے پیچھے سے جب صفحہ دیکھ لینے کے بعد مجھے گھورا تو مجھے ذہنی جھٹکاسا لگا جب اچانک وہ اردو کی جانی پہچانی پروفیسر ایک ماضی کے حضرت میں تبدیل ہونے لگیں۔ انھوں نے انتہائی تاسف سے دائیں بائیں سر ہلاتے ہوئے کہا، ”ہر بندہ شاعر نہیں ہو سکتا“ ۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا، ”میڈم کیا آپ میری رہنمائی کریں گی کہ کیا تصحیح کی جاسکتی ہے؟

“لیکن انہوں نے دائیں بائیں سر ہلانا جاری رکھا میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور اپنی تحریر ان کے ہاتھ سے لے لی اب یہ ایک الگ داستان ہے کہ میری جگر اردو والیوں نے میری شکل سے کیا اندازے لگائے اور کیا تبصرے کیے جبکہ ہم نے کہا، ”دیکھا آپ کی پروفیسر یہ پڑھ کر سر ہی دھنتی رہی واہ واہ میں۔ اور میں نے ان کو یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ ہم اپنی تحریروں کے لیے ایک نئی صنف بنانے جا رہے ہیں جو کم از کم شاعری تو ہرگز نہیں ہو گی“ جس پر وہ خوب ہنسیں۔

خیریہ خوش زبان ہر زبان کے پھاٹک پر نہ بیٹھے ہوں تو ہم سے کئی بدزبان، ادبی گونگے آپے سے باہر ہو جائیں۔ پھر اکیسویں صدی کے ٹرینڈز ہر خاص و عام پر اثرانداز ہونے لگے۔ ہر زبان اپنے علاقے سے نکل کر دوسری زبان میں سرایت کرنے لگی۔ دور جدیدیت نے مابعد جدیدیت کو گلے لگایا اور اس میں اپنی ہستی فنا کر دیا۔ ہر زبان کا ادب پابندی رسم سے آگے نکل گیا، وہی انسان جو دور جدید میں اقدار کھو جانے پر ماتم کرتا تھا، دور مابعد جدیدیت میں اس المیہ کو قبول کرکے اسے سر آنکھوں پر بٹھانے لگا۔

انگلش ورلڈ انگلشز کی وسعت میں سمانے لگی۔ ہر بولنے والے نے دعویٰ کیا کہ وہ زبان کو اپنی ضرورت کے مطابق ہی نہیں بلکہ اپنے احساسات و جذبات اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔ تنقید کے زاویے بھی بدلنے لگے۔ سوشل میڈیا نے ہر قسم کی تحریر کو سینے سے لگایا۔ ہر طرح کے لکھنے والے کو ہر طرح کے پڑھنے والے مل گئے، اور ہر طرح کے بولنے والوں کو ہر طرح کے سننے والے مل گئے۔ نگارخانے میں ایسا شور تو کبھی برپا ہی نہ ہوا تھا۔

اسی شور کو اب لوگ سمجھنے لگے۔ اسی میں سے اپنی مرضی کا پیغام وصول کرنے لگے یہی ڈس کمیونیکیشن کا جال کمیونیکیشن میں بدلنے لگا۔ بہت سی بے زبانیاں بدزبانیوں میں بدلنے لگی اور زبان دانوں کو یہ برداشت کرنا پڑا کہ نگار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اور یہ ڈاکٹر حافظ محمد عرفان اور ڈاکٹر رانی آکاش ہاتھ میں ڈنڈا لیے جیسے میرے پیچھے پڑے ہیں کہ یہ تحریریں، بقول ان کے، امانت ہوتی ہیں آپ ان کو ازراہ کرم اب چھپوایا کریں۔ جبکہ مجھے تو بس یوں لگتا ہے کہ یہ تحریریں اکثر میری بے سمت سوچ کے ابال ہی ہوتے ہیں۔ پھر آ خر یہ سوچ کر ہمت کی چلو اس نگار خانے میں ایک بدزباں سہی۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments