پرچم ستارہ و ہلال پہ سورج کیوں نہیں ہے؟


سورج ہو، یا چاند یا کوئی ستارہ، انسان کو ہمیشہ سے ان میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوتی رہی ہے۔ انسانی تہذیب کے مختلف مراحل میں اس آفاقی تثلیث نے زمین کے باسیوں کو افلاک کی بلندیوں سے جوڑا ہے۔

کسی ستارے سے چاند تک کا سفر ہو یا پھر چاند سے سورج تک کا یا پھر ان انجم ثلاثہ سے بھی آگے کا ان دیکھا انسانی ذہنی سفر ہو۔ تاریخ کی شہادت ہے کہ انسانی تہذیب اور سماج ہمیشہ سے ارتقا پذیر رہا ہے۔ اور شاید یہی بن دیکھے کا اثر ہے کہ آج کا انسان نے اپنے ہی پیدا کردہ بہ ظاہر وجود نہ رکھنے والے اداروں کا اسیر ہے۔

اور یا پھر گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کا کسی بچے کے خواب میں آ کر اس کے سامنے جھکنے کا احسن القصص ہو۔ انسان ہمیشہ زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر ہی اپنے کمال تک پہنچا ہے۔

انسانی تمدن چاند سے جڑا ہو یا سورج سے وابستہ۔ وقت چاند کی چاندنی جیسا ہو یا سورج کی تپش جیسا۔ زندگی چاند سے سورج اور سورج سے چاند کے درمیان ہی نبھتی دکھائی دیتی ہے۔ خیر، بات زمین کی حدوں کو پار کرتی کہاں تک جا پہنچی۔ بات کرتے ہیں ہمارے پرچم ستارہ و ہلال کی۔ اور اس گفتگو کی جو دستور ساز اسمبلی میں ہوئی۔

تو سبز ہلالی پرچم کی داستان کا آغاز ہوتا ہے 11 اگست 1947 سے۔ جب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سامنے لیاقت علی خان نے پاکستان کے قومی جھنڈے کی قرارداد پیش کی۔ اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھنڈا کسی سیاسی جماعت یا کسی کمیونٹی کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ جھنڈا پاکستانی قوم کا ہے۔ اس پاکستانی ریاست کا جھنڈا ہے جس نے 15 اگست [دستور اسمبلی کے آفیشل ریکارڈ میں یہی درج ہے ] کو معرض وجود میں آنا ہے۔ کسی بھی قوم کا جھنڈا محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا۔ اور اصل اہمیت نہ تو کپڑے ہوتی ہے اور نہ ہی کسی رنگ کی، بلکہ جھنڈے کے مطلب کی ہوتی ہے۔ اور یہ جھنڈا پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے فریڈم، لبرٹی اور مساوات کا پیغام ہے اور پاکستانی وفاق کی آزادی اور سالمیت کی علامت ہے۔

اس پر بھیم سن سچار نے کہا جیسا کہ لیاقت علی خان اور آپ [قائد اعظم] سے معلوم ہوا کہ یہ جھنڈا، مذہبی جھنڈا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس ریاست کا جھنڈا ہے جس میں بسنے والے مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے، سب مساوی حقوق کے حامل شہری ہیں۔ اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کسی فتح کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہاں سوال فاتح یا مفتوح کا نہیں ہے۔ پاکستان باہمی بات چیت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے پاکستان کے جھنڈے کی بابت بھی ہم اقلیتوں سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔

دھریندرا ناتھ ڈاٹا نے اعتراض اٹھایا کہ یہ جھنڈا، مسلم لیگ کے پارٹی جھنڈے سے کافی حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایک کمیٹی بنا لی جائے جس میں اقلیتوں کی بھی نمائندگی ہو۔ سب مل کر پاکستان کے جھنڈے کا فیصلہ کریں۔

لیاقت علی خان نے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہ کوئی مذہبی جھنڈا نہیں ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک کے زمانے میں ایسا کوئی جھنڈا نہیں تھا۔ لہذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیسے کہتے ہیں کہ یہ مذہبی جھنڈا ہے۔ اور باقی رہا معاملہ جھنڈے میں چاند اور ستارے کا، تو یہ سب کے مشترکہ ہیں اور ان پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ میرا۔

اس پر کرن سنکر رائے نے کہا کہ پھر آپ اس پر سورج بھی بنا دیں کیوں کہ وہ بھی مشترکہ پراپرٹی ہے۔

لیاقت علی خان نے کہا کہ سورج بنانے پر صرف ایک اعتراض ہے وہ یہ کہ سورج کی حرارت بہت جھلسانے والی ہے جب کہ چاند کی روشنی پرسکون ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ ہمارا جھنڈا جھلسا دینے والا ہو۔ میں ہمارے جھنڈے کو ایسی روشنی دینا چاہتا ہوں جو کہ اعصاب کو سکون دے۔

اس پر دھریندرا ناتھ ڈاٹا نے کہا کہ سورج تیز ترین ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

تو لیاقت علی خان نے کہا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ جب 15 اگست کو پاکستانی ریاست معرض وجود میں آئے تو ریاست کا کوئی جھنڈا نہ ہو۔ تو آپ ایسی تجاویز نہ دیں جس پر جائزہ لینے کے لیے کافی وقت نہ ہو۔ اور میں اپنے دوستوں کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے سفید رنگ کو جھنڈے میں کافی نمایاں جگہ دی ہے۔ ایک چوتھائی سے زیادہ رنگ سفید ہے جھنڈے میں۔ اور جیسا کہ میرے دوست جانتے ہیں کہ سفید رنگ، سات مختلف رنگوں سے مل کر بنتا ہے۔ اور خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان میں سات مختلف اقلیتیں نہیں رکھتے۔ لہذا یہ رنگ جو اس وقت اقلیت میں ہیں نہ صرف ان کے لیے کافی ہے بلکہ کل کو کوئی اور اقلیت وجود میں آتی ہے تو ان کے لیے بھی کافی ہو گا۔

یہ سن کر بھیم سن سچار بولے کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ مستقبل میں کسی اقلیت کو وجود نہیں بخشیں گے۔

تو پھر لیاقت علی خان بولے۔ کہ صرف اقلیت ہی اقلیت کو جنم دیتی ہے۔ اور میرا تعلق اکثریت کے ساتھ ہے۔ اس لیے میری یہ خواہش نہیں ہے کہ مزید اقلیتیں پیدا کروں۔ اور میں یہ بھی اپنے دوستوں کو بتانا چاہوں گا کہ حتی کہ اس دستور ساز اسمبلی کے مسلمان ممبران بھی اس جھنڈے بارے کچھ نہیں جانتے۔ اس جھنڈے کو ہم میں سے چند لوگوں نے دہلی میں ڈیزائن کیا اور میرے مسلمان ساتھیوں نے بھی پہلی بار اسے آج اسمبلی میں دیکھا ہے۔ ایسا صرف وقت کی قلت کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے۔ تاکہ 15 اگست کو ہم پاکستان کے کونے کونے میں اس جھنڈے کو لہرا سکیں۔

اور یوں پاک سر زمیں کے پاک پرچم کی داستان اختتام پذیر ہوتی ہے۔
سایہ خدائے ذوالجلال

نوٹ: یہ مضمون دستور ساز اسمبلی کے اجلاس منعقدہ 11 اگست 1947 کے آفیشل ریکارڈ کے صفحہ نمبر 21 سے 29 سے ماخوذ ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے معزز ممبران اسمبلی کی تقاریر کا صرف خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ الفاظ معزز ممبران کے جذبات کی ترجمانی کریں۔ مکمل انگریزی متن کے لیے قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments