بحرین، سوات کی ایک یادگار رات


یہ 2005 کے موسم گرما کا قصہ ہے جب یار جانی سجاد اکبر کے شدید اصرار پر میں نے اپنی پسندیدہ سیاحت گاہ ”مری“ کے بجائے وادی سوات کا قصد کیا۔ سجاد کئی بار سوات کی سیاحت کو جا چکا تھا لہٰذا اس نے مجھے وادی سوات کی سیاحت کا انتہائی تفصیلی رہنما ہدایت نامہ بنا کر دیا تھا کہ کیسے کیسے، کہاں کہاں جاناہے، کہاں ٹھہرنا ہے، کیا کرنا ہے، کیا بالکل نہیں کرنا ہے۔

فی الوقت تذکرہ ہے وادی سوات کے مشہور مقام بحرین میں گزاری ایک یاد گار رات کا، جو بعد کے حالات نے مزید یاد گار بنا دی۔ بحرین کے نام کا اردو مفہوم ہے ”دو دریا“ اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر الگ الگ سمتوں سے آنے والے دو دریا آکر آپس میں ملتے ہیں اور پھردریائے سوات کی شکل میں سفرجاری رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک دریا کا نام دریائے سوات ہے جوکوہ ہندوکش کی فلک سیر، شرنگ بار اور گوچھارسر اورتھلوزوم چوٹیوں سے اترتے برفانی نالوں سے مل کر اشو دریا کا روپ دھارتا ہے اورپھر نصراللہ جھیل اورمہوڈنڈ جھیل کے روپ بدلتا، مٹلتان سے ہوتا ہوا کالام پہنچتا ہے اور وہاں وادی گبرال سے آنے والے اتروڑ دریا کے ساتھ مل کر دریائے سوات کا نام اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف ایک سو کلومیٹرطویل وادی کو سوات کا نام دیا جاتا ہے۔

تو ہم ذکر کر رہے تھے بحرین کا۔ یہاں یک جا ہونے والے دریاؤں میں سے ایک تو یہی دریائے سوات ہے، جب کہ دوسرا دریائے درال ہے جو چارہزار بلندی پر واقع گلیشیئرز کے پگھلنے سے بننے والی جھیل درال ڈنڈ سے نکل کربحرین تک آتا ہے۔ سجاد اکبر نے زوردیا تھا کہ ہمیں کالام کی طرف جاتے ہوئے بحرین میں ٹھہرنا ہے اور یہ قطعی حکم بھی تھا کہ ہمیں بحرین میں صرف اور صرف ڈیلکس ہوٹل میں قیام کرنا ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ ہوٹل دونوں دریاؤں کے عین سنگم پر واقع ہے یعنی اس کی چارپانچ منزلہ عمارت کے ایک پہلو سے لگ کر، سب سے نچلی منزل سے محض دس پندرہ فٹ نیچے دریائے درال بہ رہا ہے اور دوسرے پہلو پردریائے سوات رواں دواں تھا۔ سجاد اکبر کی ایک اور خاص الخاص ہدایت تھی کہ ہمیں اصرار کرکے سب سے نچلی منزل پردریا کے رخ پر کمرا لینا ہے۔ ورنہ اس ہوٹل کے انتخاب کا مقصد فوت ہو جائے گا۔

خیر میری فیملی ڈیلکس ہوٹل پہنچی تو کرائے اتنے زیادہ تھے کہ وہاں قیام کا ارادہ ہی ترک کرنے کا سوچنا پڑا۔ لیکن کلرک کافی سودے بازی کے بعد قدرے قابل برداشت داموں پر ہمیں ایک کمرا دینے پر تیار ہوگیا۔ اس وقت تک میں سجاد اکبر کی کمرے کے جائے وقوع والی فرمائش نظرانداز کر چکا تھا۔ ہم تین منزل نیچے واقع ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے تو راہداری میں دریا بہنے کا اتنا شور سنائی دے رہا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی آواز بمشکل سن پارہے تھے۔ ویٹر کمرا کھول کر ہمیں اندر لے گیا تو وہاں دریائے درال کی گھن گرج باہر راہداری سے بھی زیادہ تیز سنائی دے رہی تھی۔ مجھے یک دم یہ احساس ہوا کہ شاید زندگی کی سب سے بڑی حماقت سرز دہوچکی ہے۔ اتنے شدید شور میں کون کم بخت سو پائے گا۔ ساری رات جاگتے کٹے گی۔

یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ناچیز کا کنبہ پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ میں، مرحومہ اہلیہ ہاجرہ، چودہ سالہ منصور، نوسالہ سعدیہ اور پانچ سالہ عارفہ (جنت مکین علیزا پانچ سال بعد پیدا ہوئی)۔

تو ڈیلکس ہوٹل کے اس پرشور کمرے کے پرشوق و پرزور انتخاب پر اس وقت ہمیں بیگم صاحبہ کی کھا جانے والی اور دونوں بڑے بچوں کی دہشت زدہ نظروں کا سامنا تھا۔ صرف ننھی عارفہ اس سارے ہنگامے سے بے نیاز فوراً ہی کھیل کود میں لگ گئی تھی۔ پہلے میں نے ٹی فار ٹپ کی امید میں کھڑے ویٹرکو بے نیل مرام رخصت کیا اورپھر اس کی پیشانی کی سلوٹیں نظر انداز کر کے اپنے گھروالوں کے بگڑے ہوئے تیوروں کی طرف متوجہ ہوا اور توجیہ پیش کی کہ رات کے سناٹے کی وجہ سے شور زیادہ لگ رہا ہے۔ صبح ہونے پر صورت حال اتنی ہول ناک نہیں لگے گی۔ اور دن کی روشنی میں کھڑکیاں کھولیں گے تو دریا کا انتہائی خوب صورت نظارہ سامنے ہوگا اور ساری کوفت دور ہو جائے گی۔

پتا نہیں دریا کا شورغالب تھا یا خفت کی وجہ سے ناچیز کی آواز بیٹھی ہوئی تھی، بہرحال میری وضاحت محترمہ اوربڑے بچوں کو کچھ زیادہ متاثرنہ کرسکی۔ جب کچھ دیر بعد انکشاف ہوا کہ ہوٹل انتظامیہ کے دعوے کے برعکس غسل خانے میں گرم پانی بھی موجود نہیں ہے تو کمرے کا ماحول مزید گرم ہوگیا۔ میں نے حزب اختلاف کی فیصلہ کن اکثریت کا دھیان بٹانے کے لیے کھانا منگوانے کی تجویز پیش کی لیکن جب مینیو میں دال سبزی کی قیمت بھی بجٹ سے باہر نظرآئی تو بیگم کی نظروں کی تپش بڑھ گئی اور مجھ غریب کا بلڈ پریشر گر گیا۔ آخرکار اس عزم کے ساتھ سادہ چاولوں پر دال کے چھینٹے سے آدھا پیٹ بھرکر سونے کی ٹھانی گئی کہ صبح بازار میں حلوا پوری کا سستا ناشتا کرکے زخمی بجٹ کی مرہم پٹی کی جائے گی۔

لیکن سوال یہ تھا کہ کمرے کے عین نیچے غراتے، چٹانوں سے سر ٹکراتے درال صاحب کو اپنا والیوم کم کرنے پر کیسے راضی کیا جائے کہ میرا بلبل سو رہا ہے۔ تبھی ہم سب پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ہم سب کی لاڈلی، نخریلی بلبل یعنی عارفہ اس دوران میں واقعی گہری نیند سوچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہم چاروں پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ پہلے پہل ناقابل برداشت لگنے والا دریا کا شوراب ہمیں اتنا ناگوار نہیں لگ رہا۔ بلکہ اب اس کی آوازسماعت پر ایک عجیب سے ترنم کی کیفیت مرتب کررہی ہے۔

اس تعجب خیز صورت حال سے ہم پر منکشف ہوا کہ سجاد اکبر نے اس ہوٹل اور عین دریا سے متصل کمرے کے انتخاب پر اتنا پر زور اصرارکیوں کیا تھا۔ وہ خود اس حیرت انگیز تجربے سے گزرچکے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم بھی ان متضاد جذبات وکیفیات کا مزا لیں۔

مختصر یہ کہ دریا کے سریلے شورکی راگنی سنتے ہوئے ہم سب کو اتنی پرسکون نیند آئی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ صبح بیدار ہونے بعد ہم نے سیدھا بازار کا رخ کیا اورحلوا پوری کے کسی ٹھیے کی تلا ش میں بھٹکتے رہے جو ہمیں دریائے درال پر بنے پختہ پل کے قریب مل تو گیا لیکن وہاں کا نرخ بھی کراچی سے کم ازکم دگنا اور معیار انتہائی کم تر تھا۔ واپس آکر دن کی روشنی میں ہوٹل کی عمارت اور ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا تو آنکھیں روشن ہو گئیں۔

اندازہ ہوا کہ ہوٹل کی اوپری منزل تو سڑک کے متوازی ہے لیکن یہ کئی منزل نیچے دریاؤں کے کناروں تک چلا گیا ہے۔ اوپر سے نیچے والی منزل پر باغیچہ تھا جس میں جھولے پڑے ہوئے تھے۔ بچوں کو یہ شغل بہت بھایا جب کہ میں بیگم کو ساتھ لیے سامنے نظر آنے والی منڈیر کی طرف چلاگیا جس کے عین نیچے، گہرائی میں منہ زوردرال دریا بہ رہا تھا جو چند ہی گز آگے بڑھ کر دریائے سوات میں شامل ہوجاتا تھا۔ اس دریاکا پانی مٹیالا تھا جب کہ دریائے سوات کے پانی کی رنگت سبزی مائل تھی۔ وجہ یہ تھی کہ دریائے درال کچھ ہی کلومیٹر پہلے براہ راست گلیشیئرز سے بہ کر آ رہا تھا۔

دریاؤں کے مشترک نظارے کے لیے وہ عمدہ مقام تھا جس کے سامنے درال دریا کے دوسری طرف چٹان پر براجمان ایک جوان دریامیں کانٹا پھینک کر ٹراؤٹس پکڑرہا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے، اس نے دو مچھلیاں پکڑ کر اپنی ٹوکری میں محفوظ کر لیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں خاصا رشک آیا کیوں کہ ہم کچھ ہی دیر پہلے ٹراؤٹ کے دام پوچھنے کے بعد دل مسوس کر چلے آئے تھے۔ میں نے حسرت ٹراؤٹ سے دھیان بٹانے کے لیے سامنے دکھائی دینے والے لکڑی کے پل کی طرف توجہ دلائی۔

یہ پل مقامی باشندوں کودریائے سوات پار کرکے سامنے والی پہاڑی پگڈنڈی تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تھا، جب کہ سیاحوں کے لیے فوٹوگرافی کے لیے ایک شان دار مقام بھی تھا۔ بچوں نے پراشتیاق انداز میں اس پل پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم میاں بیوی کا بھی دل چاہ رہا تھا لیکن ہمارے پاس اتنا وقت باقی نہیں بچا ہے۔ ہماری کرایے کی گاڑی کا ڈرائیور کئی بارشکل دکھا کر جا چکا تھا، لہٰذا ہم نے ہوٹل کے مختلف حصوں میں جلدی جلدی تصویریں بنانے پر اکتفا کیا۔ البتہ ہم نے عہد کیا کہ بہت جلد دوبارہ سوات آئیں گے اور اسی ہوٹل کے اسی کمرے میں قیام کریں گے۔

کچھ ہی دیر میں ہم سب اس عجوبہ ہوٹل میں گزاری اچنبھے بھری رات کی یادیں دل میں لیے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کالام کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں دو سحر انگیز دن گزارنے کے بعد ہم واپسی کے سفرمیں ایک بارپھر بحرین کے بازار میں کھانا کھانے کے لیے رکے اورمیوؤں والا کابلی پلاؤ کھاتے ہوئے جلد ہی وہاں واپس لوٹنے کے عہد کی تجدید کی گئی۔

لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ، تو اس سے پہلے کہ ہم دوبارہ سوات کا رخ کرتے، پاکستان کا سوئزر لینڈ کہلانے والی اس جنت نظیر وادی پر شیطان صفت درندے قابض ہوگئے جنہیں سوات سے نکالنے میں کئی سال لگ گئے، جب کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ تو لگ بھگ چار سال بعد کہیں شروع ہو سکا۔ لیکن اللہ رب العزت کو سوات کے باسیوں کا زیادہ سنگین امتحان مقصود تھا۔

2010 میں باقی پاکستان کی طرح ہول ناک بارش سے دریائے سوات سمیت تمام دریاؤں میں ایسے تباہ کن سیلابی ریلے آئے کہ دریاؤں سے منسلک، بلکہ خاصی بلندی پر واقع عمارتوں کو بھی بہا کر لے گئے۔ مجھے امید تھی کہ ہوٹل ڈیلکس کی کئی منزلہ، بلندوبالا اور انتہائی مستحکم عمارت شاید سیلاب کی تباہ کن طاقت کو جھیل گئی ہو گی لیکن بعدازاں اس ہوٹل کی جائے وقوع کی تازہ تصاویر دیکھیں تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہاں ایک سپاٹ میدان دکھائی دے رہا تھا۔ اس کئی منزلہ عظیم الشان عمارت کی ایک اینٹ بھی باقی نہیں بچی تھی۔ بے شک اللہ ہی کی ذات ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments