ملائیشین مائیں اپنا دودھ بچوں کے لیے جمانے پر کیوں مجبور ہیں؟


اپنی جاب برقرار رکھنے کی خواہشمند سینکڑوں ملائیشین مائیں اپنی فیملی سے کٹ گئیں اور اپنے نوزائیدہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے محروم ہو گئیں۔

ملائیشیا میں مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے شہریوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اپنی جاب برقرار رکھنے کی خواہشمند سینکڑوں ملائیشین مائیں اپنی فیملی سے کٹ گئیں اور اپنے نو زائیدہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے محروم ہو گئیں۔

رواں سال کورونا وبا پھوٹنے سے قبل ملائیشیا کی ایک اکاؤنٹنٹ جزیرل سی اپنی جاب کے سلسلے میں مسلسل اپنے ملک کے جنوبی جزیرے جوہر اور پڑوسی ملک سنگاپور کے درمیان محو سفر رہتی تھیں۔ ہفتے میں ایک بار وہ اپنے والدین اور اپنے سات ماہ کے بچے سے ملنے اپنے گھر جاتی تھیں۔

مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو جزیرل سی اور ان جیسی سینکڑوں نوکری پیشہ خواتین سفری پابندی عائد ہونے کے سبب اپنے خاندان اور بچوں سے کٹ کر رہ گئیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے جن خواتین کے نو زائیدہ بچے ہیں وہ انہیں اپنا دودھ نہیں پلا سکتی تھیں۔ اکاؤنٹنٹ جزیرل سی نے بتایا کہ خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کیا، چندہ اکٹھا کر کے اپنی چھاتی کے منجمد دودھ کو شپ کے ذریعے اپنے شیر خوار بچوں کو بھیجنے کا بندوبست کیا۔

ضرورت ایجاد کی ماں

خبر رساں ادارے روئٹرز کو یہ تفصیلات بتاتے ہوئے 32 سالہ اکاؤنٹنٹ جزیرل سی نے کہا، ”ہم نے تمام ماؤں سے مدد حاصل کی، چندہ اکٹھا کیا، اپنے اپنے دودھ کو جمایا اور انتہائی کفایت کے ساتھ اس رقم کو خرچ کیا کیونکہ بچوں تک اپنا دودھ بھجوانا کافی مہنگا پڑتا ہے۔“

جزیرل سی کی والدہ ) وائی لین موئے ( جوہر بارو شہر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ بچی اپنی ماں کا دودھ پی رہی ہے، کیونکہ بچے کے مدافعتی نظام کے لیے ماں کا دودھ پینا سب سے بہتر ہے۔ اس طرح بچی کی دیکھ بھال کرنا میرے لیے بھی آسان ہے۔“

ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ ملائیشین سنگاپور میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور ہزاروں افراد اس دولت مند شہری ریاست کا باقاعدگی سے سفر کرتے ہیں۔ گرچہ ملائیشیا نے اپنے شہریوں کو وطن لوٹنے کی اجازت اس شرط پہ دی کہ وہ ملک واپسی پر دو ہفتے قرنطینہ میں رہیں گے لیکن سنگاپور میں رہنے والے بہت سے ملائیشین باشندے وطن واپسی سے گریز کر رہے ہیں۔ انہیں ایک تو کورونا وائرس سے خوف آ رہا ہے دوسرے یہ خطرہ ہے کہ ان کی نوکریاں چلی جائیں گی۔

دریں اثناء سنگاپور نے بھی مارچ کے اواخر سے اپنے ہاں قرنطینہ کے وزیٹرز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جزیرل سی کہتی ہیں، ”اگر میں ابھی ملائیشیا گئی تو ممکن ہے کہ میں اپنے ساتھ کورونا وائرس واپس لے آؤں۔ میں خود کو سمجھاتی ہوں کہ اپنے مستقبل کے لیے فی الحال صبر سے کام لینا میرے لیے بہتر ہے۔“

اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ

ریاست جوہر کے ایک قانون ساز اینڈریو چن کاہ انج نے کہا، ”سنگاپور سے اب تک چار کھیپ میں 200 ماؤں کا سات ہزار کلوگرام دودھ جوہر ریاست پہنچ چکا ہے۔ اس طرح کی شپمنٹ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔“ قانون ساز کا مزید کہنا تھا، ”میں نے کسٹم، امیگریشن اور قرنطینہ، تمام محکموں کے حکام کے ساتھ بات کی، انہوں نے اس سے قبل کبھی ایسی کوئی سروس نہیں دی۔ نہ ہی محکمہ زراعت اور وزارت صحت نے پہلے کبھی کوئی ایسا کام کیا تھا۔ یہ سب ان ماؤں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔“

سنگاپور 26 ہزار کورونا انفیکشن کیسز کے ساتھ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کیسز والے ممالک میں شامل ہے۔ یہ کیسز زیادہ تر سنگاپور کے تارکین وطن کارکنوں کے تنگ اور آلودہ ہوسٹلز میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں ملائیشیا وہ ملک ہے جہاں اپریل کے وسط تک کورونا انفیکشن کیسز سب سے زیادہ ریکارڈ کیے گئے تاہم جب سے پابندیاں عائد کی گئیں تب سے کیسز میں اضافے کی شرح میں آہستہ آہستہ کمی آنا شروع ہوئی۔ اب تک یہاں 6 ہزار 8 سو کیسز کی اطلاع ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments