احتجاج۔ ۔ ۔ مگر کیوں


ہم آئے دن عوام  کے احتجاج دیکھتے ہیں۔ لوگ سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کے لئے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور سڑکوں پر پولیس ان کو ڈنڈے مار رہی ہوتی ہے اور شدید صورتحال میں تو فوج سڑکوں پر آ کر عوامی مظاہروں کو اپنے کنٹرول میں کر رہی ہوتی ہے اور احتجاج کرتی جنتا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہی ہوتی ہے اس میں ایک بات یاد رکھی جائے کہ یہی وہ پولیس اور فوج ہے جس کو اسی جنتا نے اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکسوں کے پیسے سے نہ صرف پالا ہوتا ہے بلکہ جن ہتھیاروں سے جنتا کو نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے وہ ہتھیار بھی جنتا ہی کے پیسوں سے خریدے گئے ہوتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی جنتا ہی کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ ہم اگر پچھلے ایک سال کو دیکھیں تو ہمیں دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج نظر آتے ہیں چاہے وہ لاطینی امریکہ ہو بلکہ خود ریاستہائے متحدہ امریکہ، یورپ، افریقہ ہو یا ایشیا ہو۔ ہانگ کانگ، مشرق وسطی اور ایران اس معاملات تو زیادہ غورطلب ہیں کہ یہاں کی حکومتیں نسبتاً زیادہ سخت اور اپنے آپ کو نظریاتی کہنے والی ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان خود بھی آئے دن احتجاج کی لپیٹ میں رہتے ہیں چاہے یہ ینگ ڈاکٹرز اور نرسز کے ہوں، نابینا افراد کے ہوں، نجکاری کے خلاف ہوں یا مختلف اقوام کے گمشدہ افراد کے متعلق ہی کیوں نہ ہوں بلکہ پچھلے کچھ عرصے میں تو دھرنوں نے بھی خاصی شہرت حاصل کی ہے اور ایسا ہی سب کچھ ہندوستان میں بھی مسلسل جاری ہے۔ آج ہم اپنے اس مضمون میں اس کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کے کوشش کرتے ہیں۔

اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو ہمیں اولین غیر طبقاتی سماجوں میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ حاکمیت اور ریاست کا ایسا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا۔ تمام سماج کام کو تقسیم کر لیتا تھا اور سب مل جل کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے تھے نہ تو کوئی کسی کا استحصال کرتا تھا اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تھی۔ جب دنیا زمین داری اور جاگیر داری دور میں داخل ہوئی تو پہلی دفعہ سماج میں نجی ملکیت کا تصور آیا یاد رہے نجی ملکیت سے مراد ذاتی استعمال کی اشیا نہیں بلکہ اس سے مراد ہمیشہ وہ ملکیتی ذرائع ہوتے ہیں جن سے منافع کمایا جاتا ہے۔ نجی ملکیت سے معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہوا اور اس سے ریاست کا ظہور ہوا اور اس سے حاکم اور حاکمیت کا تصور آیا (قارئین کی دلچسپی کے لئے جو اس موضوع کا تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں وہ فریڈریک اینگلز کی کتاب خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز کا مطالعہ کر سکتے ہیں ) ۔

زرعی معاشرے نے جہاں انسان کو ایک جگہ پر بسنا سکھایا وہاں اس کو وسائل پر قبضہ پانا بھی سکھایا۔ انسان نے وسائل کو لوٹنے کے لئے جب ایک دوسرے کی املاک اور زمین پر قبضے شروع کیے تو ضرورت اس امر کی ہوئی کہ مخصوص علاقے کے لوگ اپنی پیداوار کی ایک خاص شرح علاقے کے سب سے امیر شخص کو دیں جو اپنی دولت کے بل بوتے پر با اثر بھی کہلاتا تھا اور وہ اس سے اسلحہ لے کر ایک با صلاحیت عسکری گروپ تشکیل دے جو بیرونی جارحیت کی صورت میں ان کے جان و مال کی حفاظت کرے یہ اولین فوج کے خدوخال تھے۔

انہی عسکری گروپوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اولین پولیس کے فرائض بھی سنبھال لیے اس طرح وہ با اثر شخص آہستہ آہستہ زمین دار اور جب اس کی زمین اور طاقت میں اضافہ شروع ہوا تو وہ جاگیر دار، نواب، راجہ، بادشاہ، شہنشاہ اور سلطان کہلایا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کے لیے تمام اخراجات وہاں کے لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر دے رہے ہوتے تھے لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دولت مزید دولت اور طاقت و اختیار مزید کی ہوس پیدا کرتی ہے اور یہی سب کچھ ادھر بھی ہوا۔

جب لوگوں نے اپنے اوپر لگنے والے ٹیکسوں کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی کیونکہ اب ان کا پیسہ صرف ا ن کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ایک طبقہ کی موج مستیوں کے لئے بھی خرچ ہو رہا تھا جس کے لئے صدائے احتجاج بھی بلند ہوتی تھی اور ان کے خلاف عوامی ردعمل بھی آنے شروع ہوئے تو اس اشرافیہ نے اپنے آپ کو خدا کا سایہ اور اور اس کا اوتار ظاہر کرنا شروع کر دیا اور یہیں سے سیاسی طور پر مذہبی استحصال کی ابتدا ہوئی۔ اب انہوں نے عوامی ٹیکسوں کے پیسے ذاتی وفاداریاں خریدنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیے کیونکہ پہلے تو کسی بیرونی حملہ آور سے خطرہ تھا لیکن اب ان کو اپنے خاندان کے دیگر افراد سے بھی خطرہ لاحق ہو گیا کہ کوئی اور فرد ان کی جگہ نہ حاصل کر لے۔

ادھر سے ہی نمک حلالی اور نمک حرامی کا تصور ابھرا۔ یقین جانیں اگر دنیا میں یہ تصور ہی نہ پایا جاتا جس میں اصولی بات پر ذاتی تعلق حاوی ہو جاتا ہے تو آج دنیا کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔ بہرحال ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں جس طرح سیاسی مذہبی استحصال کا ہم نے اوپر ذکر کیا تھا اسی طرح یہاں ہی سے قومی استحصال کی بنیاد بھی ڈلی۔ اب جنگیں صرف اپنے وسائل کے بچانے کے لئے ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ دوسروں کے وسائل کو حاصل کرنے کے لئے بھی ہوتیں تھیں کیونکہ زیادہ کثیر علاقے پر قبضہ سے حکمران طبقے کو ٹیکسوں اور دیگر ذرائع سے زیادہ آمدنی حاصل ہوتی تھی جو ان کی خوشحالی میں اضافہ کا سبب بنتی تھی اس لئے حکمران طبقہ کی جنگیں جو کہ خالصتاً وسائل اور طاقت کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی تھیں ان کے حصول کے لئے جنتا کو جنگ پر ابھارنے کے لئے موقع محل کے لحاظ سے کبھی مذہب کا اور کبھی قوم پرستی کا نعرہ لگا کر لوگوں کو جنگ ایندھن بنایا جاتا تھا اور اگر کبھی جنتا نے لگان یا دیگر ٹیکس کی شرح کم کرنے یا اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو اسے ریاست کے خلاف بغاوت سے تعبیر کیا جاتا رہا۔

بالکل اسی طرح یہ آج بھی ہے۔ دنیا میں جب نظام بدلا اور زرعی دور سے سرمایہ داری کا دور آیا تو موجودہ جمہوریت کی ابتدا ہوئی جس کے لئے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں جنتا خود سے نظم و نسق اپنے کنٹرول میں نہیں لیتے ہیں بلکہ ان کی اہمیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ چند سالوں کے بعد اپنے گھر سے نکلیں اور حاضر اسٹاک میں موجود گنتی کے کچھ لوگوں میں سے اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے والا چن لیں اب چاہے وہ حکومت میں آکر ٹیکسوں کا پیسہ جنگوں میں لگائے یا اپنے کاروبار میں، جنتا کو بہلانے کے لئے جیسا کہ ماضی میں مذہب اور قوم پرستی کا نعرہ لگتا تھا اسی طرح آج بھی مذہب پرستی اور نسل پرستی کے دلفریب نعرے لگتے ہیں جس کی مثال ہم حالیہ عرصے میں مشاہدہ کر سکتے ہیں جیسا کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں مذہب پرستی کو استعمال کیا گیا تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے پنجے پوری دنیا میں گاڑ سکیں پھر اس مذہب پرستی کو ختم کرنے کے لئے ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کی گئی۔

عراق کے وسائل پر قبضہ کے لئے کیمیکل ہتھیاروں کا جواز گھڑا گیا جس کے بعد سے عراق اور لیبیا تباہ ہو گئے جبکہ اس وقت وہاں پر اقتدار کے حصول کی جنگ جاری ہے اور جنتا دربدر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور وہاں کی جنتا پر یہ عذاب نازل کرنے والے اب اس جنتا پر اپنے ملک کی سرحدیں بند کر رہے ہیں اور اپنے ممالک میں ان کے خلاف نسل پرستی کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔ شام کی اپنی حکومت صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے روس کے ساتھ مل کر اپنی ہی جنتا کو تاراج کر رہی ہے۔

اسرائیل اور ہندوستان میں مذہب، نسل اور قوم پرستی کے نعروں کے ساتھ جنتا کا استحصال اپنے عروج پر ہے۔ یہاں حکمرانوں کی لوٹ مار بھی اپنے جوبن پر ہے اور اس سب کو ان کھوکھلے نعروں کی آڑ میں چھپایا جا رہا ہے۔ یاد رہے نتن یاہو اور بی جے پی پر کرپشن کے شدید الزامات ہیں۔ اب تو سعودیہ عرب کے اندر بھی خاندانی تسلط کے لئے رسہ کشی جاری ہے۔ لاطینی امریکہ میں لوگوں میں بہت بے چینی ہے جس کا اظہار اکثر نظر بھی آتا ہے وہاں پر جنتا میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں بہت کمی آئی ہے کیونکہ لوگوں کے مسائل کا حل ان کی نمائندہ جماعتوں اور حکومتوں کے پاس نہیں ہے۔

ہانگ کانگ جیسی جگہوں میں لوگ سراپائے احتجاج ہیں ان کا خیال ہے کہ یورپ اور امریکہ طرز کی سرمایہ دار جمہوریت شاید ان کی مشکلات کا خاتمہ کر سکے جب کہ خود یورپ اور امریکہ میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں بہت کمی واقع ہوئی ہے جبکہ یہ شرح نوجوانوں میں تو اور بھی کم ہے جو برنی سینڈرز کو باقی امیدواروں کی نسبت بہتر سمجھتے ہوئے بھی اسے ووٹ ڈالنے کے لئے بہت تھوڑی تعداد میں آئے جو اس نظام سے ان کی مایوسی کا اظہار ہے۔

یہاں پر ووٹ کا ذکر اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ ووٹ ڈالنے کی شرح ظاہر کرتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر آنے کے بجائے اپنے نمائندوں سے اپنی مشکلات کا حل چاہتے ہیں اور کم شرح ان کی موجودہ نظام سے نا امیدی ظاہر کرتی ہے جو ان کو آج نہیں تو کل سڑکوں پر لا سکتی ہے۔ یورپ اور بالخصوص فرانس میں ہونے والے پرتشدد احتجاج تو اب ایک معمول ہے۔ کورونا نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ سمجھے جانے ممالک میں بھی صحت کا نظام کتنا ناکافی ہے جبکہ بورس جانسن کے علاج کے لئے تو بہترین سہولیات موجود ہیں لیکن عام برطانوی شہری جو اپنا پیٹ کاٹ کر یہ سب کچھ ادا کر رہا ہوتا ہے اس کے لیے وہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔

فرانس اور امریکہ میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر پیرامیڈیکل سٹاف کے لیے حفاظتی سامان میسر نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مرنے والوں کے لیے وہاں جلوس اور مظاہرے ہوئے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کا تو ویسے ہی برا حال ہے پاکستان میں جب ڈاکٹروں نے احتجاج کیا تو بے چاروں کو ڈنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو عوم کے مطالبات بہت سادہ ہوتے ہیں ان بیچاروں کو روزگار، صحت، پینے کا صاف پانی اور امن کی زندگی اپنے اور اپنی اولاد کے لیے چاہیے ہوتی ہے اور جب یہ نہیں ملتا اور کوئی ان کی بات بھی سننے کا روادار نہیں ہوتا تو وہ سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں۔

جاپان کے بارے میں ایک دفعہ میں نے پڑھا تھا کہ جب کبھی مزدوروں کو کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے تو وہ کالی پٹیاں پہن کر کام پر آتے ہیں جس کو دیکھ کر انتظامیہ ان سے بات چیت کرتی ہے جب کہ ہمارے ہاں تو جوں تک نہیں رینگتی ہے بلکہ ان کو برطرفیوں کے پروانے مل جاتے ہیں پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ملتان میں تو ایک ٹیکسٹائل مل میں دروازے بند کر کے پولیس کے ہاتھوں بے دریغ گولیاں مار کر مزدوروں کا قتل عام تک بھی کیا گیا اور اسے جلیانوالہ باغ بنا دیا گیا تھا بلکہ ابھی نواز شریف کے دور میں پی آئی ائے کی نجکاری کے خلاف جلوس نکالنے والوں کو بغیر متنبہ کیے گولیاں چلا کر قتل کیا گیا۔

نابینا افراد کو آئین کے مطابق نوکریوں میں کوٹا نہ ملنے پر احتجاج کرنے پر کئی بار پولیس کی وحشت انگیز تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ یہ نابینا افراد کیا ریاست کے لئے کوئی خطرہ ہیں۔ گمشدہ افراد کے گھر والوں کا احتجاج تو خود ان کو ریاست کی طرف سے دہشت گرد اور باغی ہونے کی سند دیتا ہے اور یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے جس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ احتجاج معاشرے میں پائی جانے والی محرومی اور اپنے حق کو حاصل کرنے کا اظہار ہے اور اس پر ہونے والا ریاستی تشدد دراصل ریاست کی کمزوری نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کی ڈھٹائی اس کے اندر کا جابرانہ کردار اور اس کی بے حسی کا آئینہ دار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments