عالمی منڈی میں تیل کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتیں اور ملکی معیشت کی بہتری کی تدابیر


تیل سے متعلق اردو زبان میں کئی محاورہ جات استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ را دھا ناچے گی۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ یعنی ایسے ہر محاورے میں تیل کا ذکر ضرور آیا ہے۔ لیکن آج ہم اسی تیل کو جو آج کی دنیا میں بلیک گولڈ کے نام سے جانا جاتا ہے محاوروں کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے کر آتے ہیں۔

عالمی منڈی میں خام تیل کی اپنی ایک الگ اسٹرٹیجک پوزیشن ہوتی ہے۔ خام تیل کی پیداوار میں کمی بیشی، اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، تیل کے پیداواری ممالک کے آپس کے پالیسی اختلافات۔ تیل پیدا کرنے اور اسے برآمد کرنے والی تنظیم اوپیک کی اجارہ داری۔ خام تیل کی ڈرلنگ۔ اور پھر اس کی ریفائنریز میں ترسیل۔ اور اس پیٹرولیم مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنے والی بڑی بڑی دیو زاد کمپنیاں، جیسے، امریکی کمپنیاں، ایگزون۔ موبل۔ شیویرون۔ شیل۔ سعودی امریکی کمپنی آرامکو۔ اور برٹش پیٹرولیم۔

یہ کمپنیاں خام تیل کی پیداوار اور پیٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹس پر چھائی ہوئی ہیں اور بے شمار منافع کماتی ہیں۔ ان تیل کمپنیوں کے اثاثہ جات اور بجٹ کسی بھی غریب اور پس ماندہ ملک کی جی ڈی پی اور سالانہ بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ تمام معاملات تیل کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔

دنیا میں خام تیل کی دریافت سب سے پہلے 1846 میں کاکیشیا کے خطے میں ہوئی۔ کاکیشیا کا علاقہ بلیک سی اور بحیرہ کیسپین کے درمیان واقع ہے اور زیادہ تر علاقہ روس، آرمینیا، آذربائجان اور جارجیا کے قبضے میں ہے۔

اس وقت کی روسی سلطنت کے شمال مشرقی علاقے باکو میں دنیا کا پہلا تیل کا کنواں کھودا گیا۔ اور سب سے پہلی ماڈرن آئل ریفائنری روس نے 1861 میں باکو میں لگائی۔ اس وقت باکو دنیا کا 90 فی صد خام تیل پیدا کرنے والا علاقہ تھا۔

1950 کے وسط تک کوئلہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن تھا۔ لیکن اسی دوران تیل نے کوئلے کی جگہ لے لی۔ صرف ایک خام تیل سے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی۔ مدد سے سیکڑوں بائی پراڈکٹس تیار کر لیں گئیں۔ آج کل 90 فی صد موٹر ٹرانسپورٹ کا ایندھن تیل ہے جو پیٹرولیم کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ جیٹ فیول جو ہوائی جہازوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور ڈیزل جو ریل گاڑیوں اور بحری جہازوں کو رواں دواں رکھتا ہے۔ یہ تمام ایندھن خام تیل کو صاف کر کے حاصل کیے جاتے ہیں۔

اسکے علاوہ فرنس آئل جو خام تیل کی کمتر ترین شکل ہے پاور پلانٹس میں اس کے استعمال سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

یونائٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے ڈیٹا بیس کے مطابق سال 2019 میں خام تیل کی پیداوار 82.622 ملین بیرل فی دن تھی۔ تقریباً 68 فی صد خام تیل دنیا کے دس ممالک سے نکالا جاتا تھا۔ جس میں روس۔ سعودی عرب۔ اور امریکہ سر فہرست تھے۔ سال 2014 سے لے کر اب تک یہ تین ممالک اپنی تیل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 9 ملین سے 11 ملین بیرل روزانہ کے حساب سے نکال رہے ہیں۔ ایک ریکارڈ کے مطابق دنیا کے 80 فی صد تیل کے معلوم ذخائر مشرق وسطی میں موجود ہیں۔ جن میں سے 62.5 فی صد ذخائر پانچ عرب ممالک میں پوشیدہ ہیں۔ یہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عراق، قطر، اور کویت ہیں۔

یوں تو دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں خام تیل کی پیداوار ہوتی ہے جیسے وینزویلا، جنوبی سوڈان، نائیجریا، انڈونیشیا، ناروے، برطانیہ، لیبیا، وغیرہ۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ خام تیل پیدا ہوتا اور بر آمد کیا جاتا ہے۔

تیل پیدا کرنے والے پانچ ممالک سر فہرست ہیں۔
امریکہ۔ ۔ ۔ 15.043 ملین بیرل روزانہ
سعودی عرب۔ 12.00 ملین بیرل
روس۔ 10.80 ملین بیرل فی دن
عراق۔ 4.451۔ ملین بیرل
ایران۔ 3.990 ملین بیرل

ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک سب سے زیادہ تیل برآمد کرتے ہیں
سعودی عرب 10.600 ملین بیرل روزانہ۔ روس 5.225 ملین۔ عراق۔ 3.800 ملین بیرل۔ امریکہ 3.770 ملین اور کینیڈا۔ 3.596 ملین بیرل۔

دنیا میں تیل کی قیمتوں کا تعین ایک مشکل عمل ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں دو طرح کے خام تیل ڈرل کیے جاتے ہیں۔ پہلا برینٹ کروڈ آئل جو کافی لائٹ ہوتا ہے اور شمالی سمندر سے ڈرل کیا جاتا ہے۔ اس تیل پر برطانیہ، ناروے اور سویڈن کی اجارہ داری ہے۔ سمندر میں ڈرل کرنے کی وجہ سے اس پر آنے والے اخراجات زمین پر ڈرل کرنے کی نسبت زیادہ آتے ہیں۔ اسی لئے برینٹ نارتھ انٹرنیشنل مارکیٹ میں زیادہ مہنگے داموں بکتا ہے۔

خام تیل کی دوسری قسم ڈبلیو ٹی آئی ہے یعنی ویسٹ ٹیکساس انٹر میڈیٹ ہے جو زیادہ تر امریکی ریاست ٹیکساس سے نکالا جاتا ہے۔ یہ بھی خام تیل کی ایک عمدہ قسم ہے جس میں سلفر کی مقدار کم ہوتی ہے اور کثافت بھی ہلکی ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ اس کی ڈرلنگ زمینی ہوتی ہے اس لئے بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت برینٹ نارتھ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ لیکن مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں اور طلب اور رسد کا تعین برینٹ آئل کے بینچ مارک سے کیا جاتا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا کے 200 ممالک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں ہیں کروڑوں افراد کو بے روزگار کیا ہے۔ وہیں خام تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کو اس قدر تیزی سے گرایا ہے کہ مارکیٹس کریش کر گئیں۔

وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی طلب کم ہو گئی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ لاک ڈاؤن ہو گئے نتیجتاً موٹر ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والا تقریباً 30 فی صد حصہ کم ہو گیا۔ ایر لائنز اور ایوی ایشن انڈسٹری جیٹ فیول کا استعمال کرتی ہے۔ اس وقت ہزاروں جہاز ایر پورٹ پر کھڑے مسافروں کا انتظار کر رہے ہیں لیکن مسافر آئسولیشن میں ہیں۔ تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لئے شپنگ انڈسٹری جو لاکھوں ٹن ڈیزل استعمال کرتی ہے بند پڑی ہے۔

تیل کی طلب اور رسد میں کوئی توازن ہی نہیں رہا۔ خام تیل کی سپلائی بدستور جاری رہی لیکن طلب نہ ہونے کی وجہ سے تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔

امریکہ کی خام تیل کی مارکیٹ بھی اسی لئے کریش کر گئی کہ اس کے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ لہذا تیل کی قیمتیں جو کووڈ 19 کی وبا سے پہلے 30 ڈالر فی بیرل کی سطح پر چل رہی تھیں ایک دم زمین پر آ گریں اور منفی 0.39 ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اور ایک بیرل خام تیل کی خریداری پر 39 ڈالر مفت دینے کی پیش کش کی گئی۔

جونہی کورونا وائرس کا زور تھوڑا کم ہوا اور کئی ممالک نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تیل کی قیمتیں پھر اوپر جانے لگیں۔ 12 مئی کی شام کو برینٹ آئل کی قیمت 30 ڈالر کے لگ بھگ ریکارڈ کی گئی اور ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل۔ خام تیل کی قیمتوں میں دوبارہ اضافے کی ایک اور بڑی وجہ تیل کی سپلائی میں کمی کرنا ہے۔

سعودی حکومت نے اپنے ایک بیان میں جون کے مہینے میں مزید ایک ملین بیرل تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات اور کویت کی حکومتوں نے بھی تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر روس بھی بحیرہ بالٹک اور بلیک سی پورٹ سے یورپ کو ترسیل کی جانے والے تیل میں کافی حد تک کمی کرنے کی سوچ رہا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے خام تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں زبردست اتار چڑھاؤ آیا ہوا ہے۔ تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ممالک کی معیشتیں خود بحران کا شکار نظر آتی ہیں۔ ایسی صورت میں ماہرین کے مطابق خام تیل کی قیمتوں کا واپس اپنی گزشتہ سطح تک پہنچنے میں کئی ماہ اور کئی سال تک لگ سکتے ہیں۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ تیل کی قیمتیں 30 اور 40 ڈالر فی بیرل کے درمیان چلتی رہیں گی۔

یہ صورتحال پاکستانی معیشت کے لئے نہایت خوش کن ہے۔ تیل کی در آمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ ارزاں تیل خریدنے سے معیشت کے ہر شعبے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ زمینی اور ہوائی ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہوں گے۔ غریب عوام کے لئے سستی ٹرانسپورٹ کسی نعمت سے کم نہیں۔ فرنس آئل سستا ہو گا تو بجلی پیدا کرنے کے اخراجات بھی کم آئیں گے۔ مہنگی بجلی نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔

تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھایا جائے اور مستقبل کے سودے خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں پر کیے جائیں تاکہ آنے والے دنوں میں معیشت کو بہتر بنایا جا سکے۔ وفاقی محکمہ شماریات کے مطابق صرف اپریل 2020 میں حکومت نے دو لاکھ بائیس ہزار میٹرک ٹن خام تیل خریدا جس کی قیمت اندازہ 58 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

موجودہ دور حکومت میں عالمی مارکیٹ میں تیل 50 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ بکتا رہا ہے۔ اگر ہم ایک لیٹر تیل کی قیمت بمعہ ریفائنری، ایکسائز ڈیوٹی، سیل ٹیکس، ایکسچینج ریٹ اس میں شامل کر لیں تو یہ 50 یا 60 روپے فی لیٹر سے زیادہ نہیں بنتی ہے۔ جب کہ نیا پاکستان حکومت اس پیٹرول کو 113 روپے فی لیٹر تک فروخت کرتی رہی ہے۔ یعنی سو فی صد منافع۔ یہ وہ حکومت ہے جو غربت کے خاتمے۔ مہنگائی کم کرنے، لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے، کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کر کے حکومت میں آئی تھی۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے تھے لیکن نیا پاکستان تو کیا ملنا تھا پرانا پاکستان بھی ہاتھ سے گیا۔

نا اہل۔ ناتجربہ کار، اور ناکارہ عمال حکومت اور انتظامیہ، سیاسی معاملات اور خارجہ پالیسیوں سے نا واقف وزرا سے عوام اور کیا توقع کر سکتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ فیصلہ ساز تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ بھی عوام کو دینے کو تیار نہیں ہوں گے اور یہ غیر متوقع فائدہ بھی خود ہڑپ کر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments