کچھ پڑھنے کے بارے میں


انسانی متون کیسے پڑھیں جائیں؟ اس سوال کی سیاسی جہت واضح ہے۔ قاری کو حق حاصل ہے کہ وہ کیا پڑھے اور کیسے پڑھے۔ قاری سے مراد ایک بالغ نظر شخص ہے جو دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے میں یقین رکھتا ہے اور اپنی نظر کو معتبر بھی جانتا ہے۔ جب ہم اس بالغ نظر شخص کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ فلاں کتاب پڑھے اور اس کے لیے ایک مخصوص طریقہ اختیار کرے تو گویا ہم اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں جسے ”معنی کی سیاست“ کہنا چاہیے۔ کئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کو اہم سمجھنا، در اصل اس کتاب کے معنی کو سماجی دنیا میں ترجیحی مقام دینے یا کم ازکم اسے قابل قبول بنانے کی سعی ہے۔ نیز قاری کے سوچنے کے لیے ایک حد مقررکرناہے۔ ہم قاری کی بالغ نظر ی سے لے کر اس کے انتخاب کے حق اور فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ کہنے میں بھی ہمیں عار نہیں کہ مصنف سے جدا ہونے کے بعد متن سراسر قاری پر منحصر ہوتا ہے۔ قاری کے بغیر متن ”موجود“ ہوسکتا ہے مگر متن کی زندگی یعنی اس میں معنی کاحرکت کرنا اور اندر اور باہر کی دنیاؤں سے منسلک ہونا، صرف قاری کی مرہون ہے۔ جو متن اپنے پڑھنے والوں سے محروم ہوجائے، اس کے ”زندہ درگور“ ہونے میں شک نہیں۔ ہم یہاں چند بنیادی باتوں کا اعادہ چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پڑھنا اکتسابی عمل ہے۔ ہر قاری اوّل اوّل اسے سیکھتا ہے۔ جب ایک شخص یہ بنیادی بات بھول جائے، اس کی پڑھنے کی آزادی حقیقت میں خطرے کی زد پر آجاتی ہے۔ پڑھنے کے اساسی عمل کو یاد کرنا، ایک طرف اسے خود کار ہونے سے بچاتا ہے، دوسری طرف قاری کے مطالعہ ء متن کے اس حق کی حفاظت کرتا ہے جو اسے بہ طور قاری حاصل ہے اور جس میں مداخلت کا اختیار کسی کو نہیں۔ یوں بھی کسی متن کا قاری ہونا ایک ایسے نجی منطقے کو خلق کرنا ہے جہاں متن اور قاری ایک دوسرے سے رازو نیاز کرتے ہیں ؛ اگر کوئی تیسرا ان کے رازو نیاز میں کوئی سرگوشی کرسکتا ہے تو وہ زیر مطالعہ متن کی ثقافتی علامتیں ہیں یا قاری کی شخصی یادداشتیں۔

پڑھنا اکتسابی عمل ہے، مگر کثرت سے دہرائے جانے کے سبب، یہ اکتسابی محسوس نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت کہ متون کو پڑھنے کے لیے اوّل اوّل سخت محنت کی گئی تھی، محض اس لیے ذہن سے محو ہوجاتی ہے کہ آدمی مسلسل پڑھتا رہتا ہے۔ جیسے دوڑتے ہوئے یاد نہیں رہتا کہ کبھی محض انھی دو پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے خاصی مشق کرنا پڑی تھی۔ اس حقیقت کا محو ہوجانا، پڑھنے کے حق میں اچھا نہیں ہے۔ جب پڑھنے کا عمل خود کار محسو س ہونے لگے تو سمجھیے، پڑھنے کا عمل سرے سے واقع ہی نہیں ہورہا۔ آدمی کے اندر کوئی لرزش بپا ہورہی ہے نہ متن کی دنیا کا کوئی سربستہ حصہ اپنا انکشاف کررہا ہے ؛ نہ دونوں میں ایک دوسرے سے راز ونیاز کی کیفیت پیدا ہورہی ہے ؛ اور نہ حقیقی دنیا کو نئے سرے سے دیکھنے، نئی سطح سے سمجھنے اور سابق تصورات پر نظرثانی کا احساس پیدا ہونے کا وہ کمیاب لمحہ رونما ہورہا ہے، جو کسی متن کے پڑھنے کا انعام ہے، اورجس کے بغیر صفحوں کے صفحے کھنگالنا محض مشقت ہے۔

پڑھنا ہے کیا؟ پڑھنا، ایک ’مکمل سرگرمی‘ ہے۔ مکمل سرگرمی ہستی کی مکمل سپردگی(بہ شرط ہوشیاری) کا تقاضا کرتی ہے۔ گو یا یہ بہ یک وقت ذہنی واحساسی اورنجی وسماجی ہے۔ عام حالت میں آدمی کی ہستی منقسم رہتی ہے۔ تقسیم : بیگانگی، علیحدگی اور خود پسندی کو جنم دیتی ہے۔ ہماری عمومی حالت ان اندھوں کی سی ہوتی ہے جو ہاتھی کو چھو کر بیان کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی پورے ہاتھی کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ پڑھنے کی سرگرمی ہستی کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا امکان رکھتی ہے۔ ہم نے ہستی کی جس تقسیم کا ذکر کیا ہے، یہ ہم سب کی تقدیر ہے۔ ہم سب کی ذہنی نشوونما ماں اور فطرت سے اوّلین وحدت کے ٹوٹنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ یہ تقسیم زبان سیکھنے کے بعد مزید گہری ہوجاتی ہے۔ ثقافتی علامتوں کی دنیا میں داخل ہونے کے بعدیہ تقسیم بڑھتی جاتی ہے۔ ہم جذباتی طور پر پہلے فطرت اور ماں سے جد اہوتے ہیں، پھر خود سے۔ اردو گرد سے جذباتی انقطاع کے بعد، ہمارے محسوسات اور خیالات میں ثنویت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ہم بہترین خیالات کے ساتھ بدترین محسوسات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اس تقسیم کا تجربہ ہم کسی ایک چیز، ایک فرد، دنیا، کائنات اور خوداپنے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی چیز، ایک ہی آدمی، ایک ہی کتاب، ایک ہی رشتے کے سلسلے میں ہمارے خیالا ت و احساسات شاید ہی یکساں رہتے ہوں۔ ایک وقت کی محبوب ترین ہستیاں اور کتابیں ہماراجہنم بن سکتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کل کا جہنم آج ہمارے لیے فردوس صورت ہو۔ یہ دوجذبیت ہماری شخصیت کا مستقل حصہ بنی رہتی ہے۔ غالب کا شعرآدمی کی اسی وجودی حالت کو بیان کرتا ہے۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موج بوے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

بے دماغی، نفسیات اور فلسفے کی اصطلاح بن سکتی ہے۔ کلاسیکی شاعری میں ”دماغ“ تفکر، میلان، توجہ، رغبت کے مطالب لیے ہوئے ہے۔ بے دماغی کی حالت، فکر اور رغبت دونوں کے ترک کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس میں ہلکا سا طنزاور تفاخر بھی شامل ہے۔ یعنی بے دماغی مریضانہ رویہ نہیں۔ اپنی اصل حالت کو قدرے تفاخر کے ساتھ قبول کرنے کا رویہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سماج، آدمی کی اس بے دماغی کا ادراک رکھتا ہے۔ تاہم جس طرح آدمی کے یہاں خود پسندی ہے، سماج کے یہاں بھی ہے (اس کا آغاز آدمی سے ہوتا ہے یا سماج سے، اس پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے )۔ وہ آدمی کی اس بے دماغی یا دو جذبی میلا ن کو ختم کرنے کے لیے کہانیاں وضع کرتا ہے۔ بچے کو ماں اور فطرت کی طرف واپس لانے کی کہانیاں خود مائیں یا دوسری بزرگ عورتیں بیان کرتی ہیں۔ پھر یہ منصب سماج سنبھالتا ہے۔ بعد میں ریاست اور اس کے تعلیمی، مذہبی، ثقافتی ادارے۔ لیکن سماج اور ریاست کی کوششوں کے باوجود آدمی کی بے دماغی یا اس کی ہستی میں موجود تقسیم نہ تو کم ہوسکتی ہے، نہ ختم۔ البتہ وقتی طور پر معطل ہوسکتی ہے۔ اسے ارادی طور پر فراموش بھی کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ لوگ سماج اور ریاست کی کہانیوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ ان کی خاطر جان بھی دے دیتے ہیں اور انھی کے سبب قتلام شروع کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں صورتیں، آدمی کی ہستی کی تقسیم کے خاتمے کی نہیں، اس کے گہرے ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔ اندر سے بری طرح منتشرومنقسم اور نفرت سے لبریز شخص ہی خود کو یا دوسروں کی جان لے سکتا ہے۔

قدیم دور کی اساطیری رسوم نیز مذہبی وروحانی تجربات بھی مذکورہ دوئی کے خاتمے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ولیم جیمز کی Varieties of Religious Experience، اس موضوع پر اچھی کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ خلیفہ عبدالحکیم نے ”نفسیات واردات روحانی“ کے نام سے کیا ہے۔ اس میں مغربی دنیا کے بزرگوں کے روحانی تجربات کا بیان ہے۔ متعدد مسلمان صوفیہ کی کتب میں بھی اس طرح کے تجربات کا بیان ہے۔ کتاب اللمع فی التصوف، رسالہ قشیریہ، کشف المحجوب۔ ان میں ”تذکرہ غوثیہ“ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ہماری نظر میں ”پڑھنا“ ایک ایسی مکمل سرگرمی ہے جو انسان کے وجود کی دوئی اور دیگر رخنوں کے سلسلے میں کار آمد ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments